{ضعیف احادیث اور غیرمقلدین خصوصًا زبیر علی زئی }
(غالی غیر مقلد زبیر علی زئی کا جواب الجواب)
الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصّلوٰۃ والسّلام علی سیدالانبیاء و المرسلین: أمابعد!میرا ایک مضمون [ضعیف احادیث کا کلی انکار ایک فتنہ ،منکرین حدیث کانیا روپ]مجلہ’’ البرہان الحق جولائی تا ستمبر ۲۰۱۲ء‘‘ میں شائع ہوا،اس کے علاوہ یہی مضمون[النظامیہ لاہور،الحقیقہ شکر گڑھ،چار یار مصطفی راولپنڈی اور سواد اعظم دہلی(انڈیا)میں بھی شائع ہوا اور عوام و خواص خصوصًا علمائے اہل سنت نے اس کو بہت پسند فرمایامگرغیر مقلد زبیر علی زئی مدیر ’’الحدیث‘‘ حضروکویہ بات پسند نہیں آئی اور انھوں نے اپنے شمارہ الحدیث جون ،جولائی۲۰۱۳ء میں اس کا اپنے زعم میں جواب لکھا اسی کا جواب حاضر خدمت ہے:سب سے پہلے یہ بات سمجھ لی جائے کہ اس مسئلہ میں ہمارا اہل سنت وجماعت کا مؤ قف کیا ہے ہمارا مؤقف بالکل دوٹوک اور واضح ہے کہ [ہم نہ ضعیف حدیث کا کلی انکار کرتے ہیں اور نہ کلی اقرار ،عقائد واحکام میں ضعیف احادیث کوقبول نہیں کرتے اسی طرح صحیح احادیث کے مقابل بھی نہیں قبول کرتے اور فضائل اعمال ومناقب وغیرہا میں ضعیف احادیث کو قبول کرتے ہیں اور ضعیف روایات کو احادیث میں ہی شمار کرتے ہیں جبکہ اس میں شدید ضعف نہ ہو یا وہ موضوع نہ ہوں]اور جرح وتعدیل کے معاملے میں محدثین کے فیصلے کو اجتہادی معاملہ سمجھتے ہیں ان صورتوں میں ضعیف روایات کو ترک کرنا ہے ,جب کوئی ضعیف روایت قرآن کے خلاف ہو-جب کوئی ضعیف روایت کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو.جب کسی ضعیف روایت میں کوئی راوی کذاب یا اس میں شدید ضعف ہو جن صورتوں میں ضعیف روایات قبول ہیںجب کوئی ضعیف روایت قرآن وسنت کے مخالف نہ ہو اور اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث نہ ہو جب کسی ضعیف روایت میں راوی کذاب نہ ہواور اس کے کسی راوی میں شدید ضعف بھی نہ ہوتو قبول ہے جبکہ وہ فضائل میں ہو جب کسی ضعیف روایت کے متابعات اور شواہد ہوں توان تمام صورتوں میں ضعیف حدیث کا کلی انکار کرنا بھی غلط ہے اور ان ساری صورتوں میں ضعیف روایات کا حجت ماننا بھی غلط ہے بلکہ جن صورتوں میں ان کی قبولیت ہے ان کوقبول کرنا ہے اور جن صورتوں میں ان کا ترک ہے توان صورتوں میں ضعیف روایت کا ترک کرنا ہے یہی سلف صالحین،محدثین و فقہاء کا منہج ہے اس تمہید کے بعد اب جواب حاضر ہے: غیرمقلدحافظ زبیر علی زئی نے الحدیث شمارہ ۱۰۶جون۲۰۱۳ء صفحہ نمبر۳۰ تا۳۴ تک دس نمبروں کے تحت محدثین کے اقوال لکھے جس سے زبیر علی زئی نے یہ تاثر دیا کہ یہ حضرات بھی مطلقًا ضعیف حدیث کو رد کرتے ہیں مردود سمجھتے ہیں لیکن یہ ان کی بھول ہے میرا موضوع ضعیف حدیث کا کلی انکار ہے اور زبیر صاحب جزوی انکار دکھاتے ہیں اور محدثین کی بات میں اپنا فہم داخل کرتے ہیں اور موڑ توڑ کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں آئیے دیکھیں محدثین ضعیف احادیث کے بارے میں صراحتًا کیا فرماتے ہیں : (1)امام ابوزکریا نووی شارح صحیح مسلم فرماتے ہیں : [قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الأعمال]ترجمہ:بے شک علماء کا اتفا ق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے (شرح الأربعین للنووی ص۱)(2)علامہ مولانا علی قاری ضعیف کے بارے میں فرماتے ہیں [لجواز العمل بہ فی فضائل الاعمال بالاتفاق]ترجمہ: فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل بالاتفاق جائز ہے (حرزثمین شرح مع حصن حصین ص۲۳) (3)امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں:[قد احتج جمہور المحدثین بالحدیث الضعیف اذا کثرت طرقہ والحقوہ بالصحیح تارۃ ،وبالحسن اخری]ترجمہ:بیشک جمہور محدثین نے حدیث ضعیف کو کثرت طرق سے حجت مانا اور اسے کبھی صحیح اور کبھی حسن سے ملحق کیا (المیزان الکبرٰی للشعرانی ۱/۶۸مطبوعہ مصر )(4) امام عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی فرماتے ہیں :[محدثین وغیرہم علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل اور بے اظہار ضعف موضوع کے سوا ہر قسم کی روایت اور اس پر عمل فضائل اعمال وغیرہا امور میں جائز ہے جنہیں عقائد واحکام سے تعلق نہیں (تدریب الراوی : ۱/۲۹۸مطبوعہ الریاض،تحذیر الخواص۷۳)(5)امام عثمان بن عبدالرحمن،أبو عمروتقی الدین المعروف بابن الصلاح فرماتے ہیں :[محدثین وغیرہم علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل اور بے اظہار ضعف موضوع کے سوا ہر قسم کی روایت اور اس پر عمل مواعظ، قصص ،فضائل اعمال،ترغیب وترہیب وغیرہا امور میں جائز ہے جنہیں عقائد و احکام سے تعلق نہیں (مقدمۃ ابن الصلاح فی علوم الحدیث ص۱۰۳مطبوعہ بیروت)(6)امام ابن ہمام فرماتے ہیں :[الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل الاعمال]یعنی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف جو موضوع نہ ہوپر عمل کیا جائے گا (فتح القدیر لابن ہمام۱/۳۴۹)(7)امام ابن حجر عسقلانی ضعیف حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :[محدثین وغیرہم علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل اور موضوع کے سوا ہر قسم کی روایت اور اس پر عمل کرتے ہیں] (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح۲/۳۰۸مطبوعہ الریاض)(8)علامہ جمال الدین القاسمی الدمشقی ضعیف حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :[اور زہد ،مکارم الاخلاق جن کا تعلق حلال و حرام سے نہیں ہوتاموضوع روایات کے سوا دیگر روایات میں نرمی برتتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں] ( قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث ص۷۱ )(9)علامہ حلبی ضعیف حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :[الجمہور علی العمل بالحدیث الضعیف الذی لیس بموضوع فی فضائل الاعمال] ترجمہ:جمہور علماء کا مسلک فضائل اعمال میں حدیث ضعیف غیر موضوع پر عمل کرناہے (حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)(10)امام حافظ السخاوی حدیث ضعیف کے بارے میں فرماتے ہیں:[ضعیف حدیث فضائل میں عمل کے لئے مقبول ہوتی ہے ] (فتح المغیث:۱ /۷۳)اسی طرح یہی بات (11)زین الدین عبدالرحیم بن حسین العراقی نے[التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح ص۱۳۵ ]اور(12)برہان الدین ابو اسحاق الشافعی نے [الشذا الفیاح من علوم ابن الصلاح ۱/۳۳۲،۳۳۳ ]میں(13)امام حاکم نے [المستدرک علی الصحیحین ۱/۴۹۰ ]میں(14)امام ابن دقیق العید نے [کتاب الامام۱/۱۷۱]میں (15)حافظ ابن تیمیہ [فتاوٰی ابن تیمیہ ۱/۳۹]میں(16)محمود عیدان احمد الدلیمی نے[جرح الرواۃ وتعدیلہم ۶/۵۰ ]میں اور(17)علی بن نایف الشحود نے [الخلاصۃ فی أحکام الحدیث الضعیف ص۳۹ ]میں اور(18) غیر مقلدین کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی نے[فتاوٰی نذیریہ۱/۳۰۳]میں اور (19)نواب صدیق حسن خاں نے[دلیل الطالب علی ارجع المطالب ص۸۸۹] میں(20)مولانا ثنا ء اللہ امرتسری[اخبار اہل حدیث۱۵شوال۱۳۴۶ھ]میں(21)مولانا عبداللہ روپڑی غیر مقلد نے[فتاوٰی اہل حدیث ۲/۴۷۳]میں فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے کوصحیح سمجھا ہے زبیر علی زئی خود بھی اس بات سے متفق ہیں کہ امام بخاری نے بھی صحیح بخاری میں [ضعیف روایات ]لائی ہیں دیکھئے[الحدیث جولائی۲۰۱۳ء ص۲۳]میں ،تو گزارش ہے کہ اگرآپ کے بقول ضعیف روایات مردود روایات ہیں تو ان تمام محدثین بشمول امام بخاری کے اپنی اپنی کتابوں میں اور وہ بھی صحاح ستہ کی کتب میں ان ضعیف یعنی بقول زبیر علی زئی کے مردود روایات کو نقل کیا ہے اگر وہ حضرات ان کو مردود روایات سمجھتے تو کیا وہ ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کرکے وہ بھی بغیر اس کو مردود بتائے جرم نہیں کر رہے؟اگر جواب ہا ں میں ہیں تو کھلم کھلا اعلان کریں اور اگر جواب نہیں میں ہے توضعیف احادیث کا کلی انکار سے رجوع کا اعلان کریںزبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کا دفاع کرنا اہل حدیث کا شعار ہے دیکھئے [الحدیث جون۲۰۱۳ء ص۱۹]اس کا مطلب ہے جب بخاری ومسلم کتب نہیں تھیں اہل حدیث کا شعار بھی نہ تھااور اہل حدیث یعنی غیر مقلدین بھی نہ تھے آئیے دیکھتے ہیں کہ بخاری کے دیوانے صحیح بخاری پر کس طرح عمل کرتے ہیں صرف ۱۰روایات پیش خدمت ہیں, امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب[الابراد بالظہر فی شدۃ الحر]کے تحت یہ روایت لکھی [حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرو اس لئے کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے ] (صحیح بخاری۱/۳۲۰) جبکہ اس کے مقابلے میں غیر مقلدین کا عمل ظہر کی نماز گرمیوں میں جلدی پڑھنا ہے - امام بخاری نے باب [المیت یسمع خفق النعال]مردہ جانے والوں کے جوتوں کی آواز کو سنتا ہے ،کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ فرمان لکھا:[جب آدمی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ موڑ کر چل دیتے ہیں وہ ان کے جوتوں کی آوازوں کو سنتا ہے ] (صحیح بخاری۱/۵۷۹) جبکہ غیر مقلدین مردے کا سننا مانتے ہی نہیں .امام بخاری نے باب[الصلوٰۃ بعد الفجر حتیٰ تر تفع الشمس] کے تحت یہ روایت نقل فرمائی [حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا اورعصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک] (صحیح بخاری۱/۳۱۷)جبکہ غیر مقلدین کا عمل اس کے مخالف ہے /امام بخاری نے باب [اذارکع دون الصف]صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کرنا ،کے تحت یہ روایت نقل فرمائی [حضرت ابو بکرہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ رکوع میں تھے تو صف میں شامل ہونے سے پہلے انھوں نے رکوع کرلیا پھر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اس سے زیادہ تجھ کو حرص دے لیکن پھر ایسا نہ کر] (صحیح بخاری۱/۳۸۶)اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہے حالانکہ اس نے سورۃفاتحہ نہیں پڑھی ہوتی لیکن غیر مقلدین کا عمل اس کے مخالف ہے 0امام بخاری نے باب [الاذان یوم الجمعۃ]کے تحت یہ روایت نقل کی :[سائب بن یزیدفرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ،ابو بکر وعمرj کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھا کرتا حضرت عثمان غنی hکے زمانے میں جب لوگ بہت ہوگئے انھوںنے زورا ء کے مقام پر تیسری اذان پڑھائی پھر یہ مستقل طریقہ ہوگیا ]نوٹ:دو اذانیں اور ایک اقامت کو اس روایت میں اکٹھا بیان کیا گیا ہے (صحیح بخاری۱/۴۳۰،۴۳۱)اب بھی ساری امت مسلمہ بشمول مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ میں جمہ کی دوسری اذان دی جاتی ہے حضرت عثمان غنیh کے دور سے یہ صحابہ کی سنت شروع ہوئی اور آج تک جاری وساری ہے سوائے اہل تشیع و غیر مقلدین کے سب مسلمان اس پرعمل کرتے ہیں لیکن غیر مقلدین اس کو بدعت کہتے ہیں دیکھئے [فتاوٰی ستاریہ ۳/۸۵،فتاوٰی علمائے حدیث ۲/۱۷۹،تیسرالباری۲/۲۱] 1امام بخاریmنے ایک روایت نقل فرمائی :[حضرت عبداللہ بن عمرhسے روایت ہے کہ حضورaنے ارشاد فرمایا داڑھیاںبڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ حضرت عبداللہ بن عمرmجب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لے کر جتنی مٹھی سے زیادہ ہوتی اسے کاٹ دیتے ] (صحیح بخاری حدیث ۵۸۹۲)اس روایت کے راوی صحابی کا عمل یہ بتاتا ہے کہ مسنون داڑھی بقدر قبضہ ہے صحابہ کرام خصوصًا عبداللہ بن عمرhجو حضورa کے مزاج شناس بھی تھے ،فقیہہ بھی تھے اس حدیث کے راوی بھی ہیں اور صحابی رسول a بھی ہیں مگر پھر بھی غیر مقلدین اس بات کو قبول نہیں کرتے :اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانیm فرماتے ہیں [میں کہتا ہوں کہ جو بات ظاہر ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر hکا داڑھی کٹوانا اور بقدر ایک مشت کے رکھنا یہ حج و عمرہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ وہ داڑھی بڑھانے کے حکم کو اس حالت پر محمول کرتے ہیں کہ داڑھی طول وعرض میں زیادہ بڑھ کر صورت کو بھدی اور بدنما نہ کردے ،پھر آخر میں لکھا کہ حضرت ابن عمر ،حضرت عمر فاروق، حضرت ابو ہریرہj کا بھی ایسا ہی عمل تھا] (فتح الباری ۱۰/۳۵۰مطبوعہ بیروت)لیکن غیرمقلدین کا عمل اس کے خلاف ہے یہ سامنے کی بات ہے2امام بخاری m نے باب [من اجاز طلاق الثلاث]کے تحت یہ روایت نقل فرمائی :[حضرت عویمر hنے حضور a کے سامنے اپنی بیوی کو تین اکٹھی طلاقیں دے دیں تو نبی aنے ان دونوں کو الگ کردیا یعنی تین طلاقیں واقع ہو گئیں ] (صحیح بخاری ۱/۱۴۹)اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرh کافتوٰی بھی نقل فرمایا آپ فرماتے ہیں[اگر تو ایک بار یادو بار طلاق دیتا تو رجعت کرسکتا تھا کیونکہ حضور aنے مجھ کو ایسا ہی حکم دیا لیکن جب تو نے تین طلاق دے دئیے تو اب وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی یہاں تک کہ تیرے سوا کسی اور سے نکاح کرے ] (صحیح بخاری۱/۱۵۱)جبکہ ان روایات پر غیر مقلدین کا عمل نہیں ،بلکہ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے ہیںمام بخاری mنے قنوت وتر کے بارے میں ایک باب[القنوت قبل الرکوع وبعدہ]کے تحت یہ روایت بیان کی :[عاصم بن سلیمان mنے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالکh سے قنوت کے بارے میں پوچھاانھوں نے فرمایا بیشک قنوت تھی میں نے پوچھارکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد انھوں نے فرمایا رکوع سے پہلے میں نے کہا فلاں صاحب آپ سے روایت کرتے ہیں کہ رکوع کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ غلط کہتے ہیں رکوع کے بعد تو حضورa نے ایک مہینے تک قنوت(نازلہ)پڑھی تھی (جب ستر صحابہj کوشہید کیا گیا تواس قبیلے کے خلاف) (صحیح بخاری رقم الحدیث ۱۰۰۲)ایک اور روایت میں حضرت انس h سے یہی سوال ہوا [حضرت عبدالعزیزm فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نے حضرت انس hسے قنوت وتر کے بارے میں پوچھا کہ رکوع کے بعد پڑھی جائے یا یا قرأت سے فارغ ہو کر(یعنی رکوع سے پہلے)آپ نے فرمایا قرأت سے فارغ ہوکر ] (صحیح بخاری رقم الحدیث۴۰۸۸)غیر مقلدین کا مستقل عمل رکوع کے بعد ہی ہے ان روایات کے خلاف عمل کرتے ہیں بلکہ رکوع کے بعد قنوت وتر ہاتھ اٹھا کر پڑھتے ہیں دیکھئے فتاوٰی علمائے حدیث ۳/۲۰۵،تحفۃ الاحوذی۱/۲۴۳نوٹ:غیر مقلدین قنوت نازلہ کی روایات پیش کرتے ہیں جبکہ قنوت نازلہ اور ہے اور قنوت وتر اور ہے قنوت وتر کا ثبوت بعد الرکوع نہیں ہے 4امام بخاریm نے [صحیح بخاری رقم الحدیث ۵۵۶۹،۵۵۷۰،۵۵۷۳،۵۵۷۴]میں مختلف الفاظ سے روایات لکھیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی تین دن ہے مگر غیر مقلدین کا عمل ان روایات پر نہیں وہ قربانی چار دن کے قائل ہیں 5 امام بخاریmنے باب[الصلوٰۃ قبل المغرب]کے تحت ایک روایت نقل فرمائی[حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ مجھے عبداللہ بن مغفل hنے نبی aسے یہ حدیث بیان کی کہ آپa نے فرمایاکہ مغرب سے پہلے نماز پڑھو تیسری بار آپ aنے فرمایا’’لمن شاء کراہیۃ أن یتخذہا الناس سنۃ‘‘جو چاہے(وہ پڑھ لے)اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ لوگ اسے سنت نہ بنا لیں ] (صحیح بخاری رقم الحدیث ۱۱۸۳)لیکن غیر مقلدین اس کو سنت سمجھتے ہیں اور جو اس کو سنت نہ سمجھے تو اس کو ظالم اور بدعتی کہتے ہیں دیکھئے فتاوٰی علمائے حدیث ۴/۲۳۵یہ چند روایات صحیح بخاری سے نقل کیں چونکہ یہ مضمون طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا اس کے لئے پوری ایک کتاب ہونی چاہیے یہ صرف ایک نمونہ ہے ان کے لئے جو لوگ بخاری بخاری کرتے رہتے ہیں اور خود بخاری پر عمل نہیں کرتے بلکہ مخالفت کرتے ہیں {علمی دنیا میں غیر مقلدین خصوصًا زبیر علی زئی کا انوکھا فراڈ}غیر مقلد زبیر علی زئی نے یہ فن اپنے بڑے غیر مقلدوں خصوصًا عبداالرحمن مبارک پوری سے لیا ہے کیونکہ وہ اس فن میں بڑے ماہر تھے دیکھئے ان کی کتاب تحفۃ الاحوذی، زبیر علی زئی کا طریقہ واردات یہ ہے کہ اگر کوئی حسن یا صحیح حدیث پیش کرے تو یہ حضرت اسماء الرجال سے ان کے راویوں میں کسی کو زبردستی ضعیف ثابت کرکے اس روایت کو ضعیف قرار دے کر مردود کہہ دیں گے جبکہ اگر کثرت سے محدثین نے اس روایت کو حسن یا صحیح کہاہو لیکن یہ حضرت ان کے حسن کہنے کو بھی مردودقرار دے دیتے ہیں لیکن کوئی روایت جس کے بارے میںکثرت سے محدثین اس کو ضعیف قرار دے رہے ہو ں مگرہو وہ ان کے مطلب کی تو زبیر علی زئی اس کو زبردستی ادھر اُدھر کے اقوال سے اور کبھی زبردستی کے شواہد کی بنا ء پراس روایت کو حسن قرار دے دیتے ہیں اور پھر اس عزم کا پاس رکھ لیا جاتا کہ ہم صحیح و حسن روایات پر عمل کرتے ہیں مثال حاضر ہے :, حضرت عبداللہ بن مسعودh کی تر ک رفع یدین والی روایت جو جامع ترمذی میں ہے اس کو تقریبًا۶۰سے زیادہ محدثین نے صحیح و حسن مانا ہے جبکہ زبیر علی زئی [الحدیث شمارہ۳۴ ص۱]پر لکھتے ہیں [ہر وہ راوی جس کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہو اگر جمہور(مثلًا تین بمقابلہ دو) اس کی صریح یا اشارتًا توثیق کردیں تو یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہوتا ہے]جبکہ اسی ترک رفع یدین کے سارے راوی ثقہ ہیں اور خاص کرسفیان ثوری m کی تدلیس کے حوالے خصوصی بات یہ ہے کہ میری کتاب [سنت امام القبلتین فی ترک رفع الیدین]میں ۳۰ محدثین کی اصل کتب کے عکس سے مزین ثبوت دیکھئے کہ کسی ایک نے بھی تدلیس کی وجہ سے سفیان ثوریmکو ضعیف نہیں قرار دیا ہے سفیان ثوری mکی تدلس کی تفصیل کے لئے کتاب ملاحظہ فرمائیں انٹر نیٹ کا لنک یہ ہے www.scribd.com/zafarulqadri/documentsمگر چونکہ یہ روایت ان کے خلاف ہے لہٰذایہ حسن روایت بھی ضعیف بنا کر مردود قرار دے دی گئی-ایک روایت میں ہے کہ نبیa نے فرمایا[لا وضو لمن لم یذکر اسم اللّٰہ علیہ]اس شخص کا وضو نہیں ،جس نے اس سے قبل بسم اللہ نہیں پڑھییہ روایت حضرت ابوسعید الخدری،حضرت ابو ہریرہ،حضرت علی،حضرت سعید بن زید،حضرت انس،حضرت سہل بن سعد،اور حضرت عائشہjسے مروی ہے یہ روایت ضعیف ہے اس بارے میں جتنی روایتیںہیں وہ سب ضعیف ہیںمحدثین ان سب کو ضعیف کہتے ہیںدیکھئے: ,امام احمد بن حنبل mنے[مسائل احمد۱/۳مسئلہ ۱۶،۱۷روایۃ ابن ہانی،۱/۹۱روایۃعبداللّٰہ ،۱/۹۹روایۃالکوسج،۱/۶۲روایۃ صالح،ص۶ روایۃ ابی داؤد صاحب السنن،التحقیق لابن جوزی۱/۱۴۳روایۃ الأثرم ] میں-امام زیلعی mنے[نصب الرایۃ۱/۴ ]میں .حافظ ابن رشد نے [بدایۃ المجتہد۱/۱۷ ]میں / علامہ ابن حجر عسقلانی m نے [بلوغ المرام ص۱۱ ]میں0امام بزارmنے [الامام لابن دقیق العید ۱/۴۴۹،البدر المنیر ۲/۸۶ ]میں1امام ابن المنذر mنے [الاوسط لابن المنذر۱/۳۶۸ ] میں2امام ابوعبید القاسم بن سلامmنے[کتاب الطہور ص۵۴ ]میں3امام عقیلیmنے [الضعفاء الکبیر للعقیلی۱/۱۷۷ ] میں4امام نووی mنے[البدر المنیر۲/۸۹ ] میں5علامہ ابن القیم نے[زاد المعاد۲/۳۸۸ ] میںاس کے علاوہ بھی دیگر محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے جہاں تک زبیر علی زئی نے یہ لکھا کہ سنن ابن ماجہ (۳۹۷)مسند احمد۳/۴۱ کی روایت حسن لذاتہ ہے اور بوصیری نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے دیکھئے [الحدیث ص۲۴شمارہ۱۰۷جولائی۲۰۱۳ء]میں ،لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ مسند احمد کے محققین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے دیکھئے [مسند احمد۳/۴۱بتحقیق شعیب الارناؤوط رقم الحدیث ۱۱۳۸۸،۱۱۳۸۹،اسنادہ ضعیف ]اس کے علاوہ [تحقیق مسند احمد ۱۷/۴۶۴ ] میں بھی ضعیف قرار دیا گیا ہے ،مسند احمد کی روایت زبیر علی زئی نے خود بھی ضعیف کہا ہے دیکھئے شمارہ۱۰۶ ص:۳میں لکھا [سنن ابن ماجہ کی سند حسن لذاتہ ہے اور باقی تمام روایت بلحاظ سندضعیف ہیں ]حالانکہ اس سے اوپر رواہ احمد بھی لکھا ہے ،ہر ایک سند میں کوئی نہ کوئی راوی ضعیف ہے اور جہاں تک امام بوصیری کا معاملہ ہے تو انھوں نے [مصباح الزجا جۃ: ۱/۵۹ ]میں جس روایت کو حسن کہا اس سے مراد حسن لغیرہ ہے کیونکہ اس میں ایک راوی [کثیر بن زید]کو درج ذیل محدثین نے ضعیف قرار دیاہے ,امام یحیی بن معینmنے [معرفۃ الرجال ص۱۰۴ روایۃابن محرر،التاریخ لابن ابی خیثمۃص۴۳۹ ]میں-امام ابن مدینیmنے [سوالات ابن ابی شیبۃ لابن المدینی ص۹۵ ] میں.امام نسائی mنے [ الضعفاء والمتروکین للنسائی ص۲۰۶ ] میں/امام یعقوب بن شیبہmنے [تاریخ دمشق ۵۰/۲۵ ]میں0امام ابن حبان mنے[المجروحین۲/۲۲۲ ] میں1امام ابوحاتم رازی mنے[الجرح والتعدیل ۷/۱۵۱ ] میں 2امام ابوزرعہ رازیmنے[الجرح والتعدیل۷/۱۵۱ ] میںمام ابن جوزیmنے [الضعفاء والمتروکین ۳/۲۲ ]میں ذکر کیا 4امام بخاری mنے[مصباح الزجاجۃ۱/۵۹ ]میں 5امام ابو جعفر mنے [تہذیب التہذیب۸/۳۷۱ ]میںاس کے علاوہ بھی کئی محدثین نے اس راوی کو ضعیف سمجھا ہے اس روایت میں دوسرا راوی [ ربیح بن عبدالرحمن]ہے اس کو بھی درج ذیل محدثین نے ضعیف سمجھا ہے :,امام بخاریmنے ’’منکر الحدیث ‘‘کہا[علل الترمذی الکبیر: ۱/۷ ] -امام ذہبیmنے اس راوی کو[دیوان الضعفاء ص:۹۹ ] میں شمار کیا.حافظ ابن حجر عسقلانی mنے ’’تقریب میں مقبول اور[نتائج الأفکار : ۱/۱۷۱ ] میں ’’مختلف فیہ‘‘ قرار دیا /امام احمد mنے فرمایا’’لیس بمعروف‘‘[الکامل لابن عدی:۳/۱۷۳ ]0امام ابن جوزی mنے اس کی روایت کو غیر ثابت قرار دیا[العلل المتناہیۃ: ۱/۳۳۸ ]1مولانا ارشاد الحق اثری نے بھی اس کی روایت کے تحت لکھا’’اس کی سند میں کمزور ی ہے [تحقیق مسند ابی یعلیٰ: ۲/۱۹ ]2امام حاتمm اور ابوزرعہ mنے اسے مجہول ل قرار دیا ہے [منحۃ العلام شرح بلوغ المرام: ص۱۸۲ ]لہٰذا ان دلائل کے پیش نظر یہ روایت حسن لذاتہ نہیں ہوسکتی ،جبکہ یہ زیادہ سے زیادہ حسن لغیرہ ہے اور زبیر علی زئی حسن لغیرہ کو مردود قرار دیتے ہیں دیکھئے[الحدیث شمارہ:۳۴ ص۱ ]اس کے علاوہ زبیر علی زئی نے خود لکھا’’یہ مسئلہ تو قرآن سے ثابت ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہٰذا سنن ترمذی کی ضعیف روایت کی کوئی ضرورت نہیں‘‘[الحدیث :ص ۲۰جولائی ۲۰۱۳ء شمارہ۱۰۷] لہٰذا ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جب وضو کے فرائض قرآن کریم سے ثابت ہیں کہ وہ چار ہیں تو اس ضعیف روایت کی ضرورت کیوں؟کیا اس ضعیف روایت سے آپ کے نزدیک قرآن پر اضافہ جائز ہو گیا جبکہ یہ فضائل میں تو مقبول ہے اور جن محدثین نے اس کو قبول کیا ہے تو فضائل میں ہی قبول کرتے ہیں احکام میں نہیں ملاحظہ فرمائیے:[ امام احمد mسیان کے مختلف تلامذہ نے یہ سوال کیا کہ اگر ایک آدمی وضو کرتے وقت بسم اللہ پڑھے ،یا دانستہ چھوڑ دے ،یانسیان کی وجہ سے رہ جائے تو اسکے وضو کا کیا حکم ہے ؟تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھے اسے جان بوجھ کر حدیث کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے،اگر وہ تسمیہ نہ کہے تواس کا وضو درست ہوگا ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بسم اللہ پڑھنے کو قرآن مجید میں فرض قرار نہیں دیا ،اس بابت جتنی بھی احادیث ہیں وہ میرے نزدیک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتیں اس کی کوئی سند عمدہ نہیں]دیکھئے : [مسائل احمد: ۱/۳مسئلہ ۱۶،۱۷روایۃ ابن ہانی،۱/۹۱روایۃعبداللّٰہ ،۱/۹۹روایۃالکوسج،۱/۶۲روایۃ صالح،ص۶ روایۃ ابی داؤد صاحب السنن،التحقیق لابن جوزی۱/۱۴۳روایۃ الأثرم ] میں،مگر غیر مقلدین پھر بھی کہتے ہیں کہ جس نے بسم اللہ نہیں پڑھی اس کا وضو نہیں حالانکہ یہ صرف فضیلت کی لئے ہے دیکھئے:[تحفۃ الأحوذی: ۱/۹۴،شرح بلوغ المرام عطیہ محمد سالم : جز ۱۸/۷،منحۃ العلام شرح بلوغ المرام : ص۱۸۷،مشکوٰۃ المصابیح مع مرعاۃ المفاتیح: ۲/۲۱۵]لیکن پھر بھی زبیر علی زئی اس روایت کو حسن کہتے ہیں اور اس سے استدلال کرتے ہیں {زبیر علی زئی کے شبہات ،اکاذیب ،تدلیسات ،تلبیسات اور ان کے جوابات} زبیر علی زئی نے ’’الحدیث کے جون ،جولائی ۲۰۱۳ء کے دو شماروں میں ۳۰ روایتیں لکھ کر اس پر عمل کرنے کو لکھا لہٰذا اس کے شبہات کا جواب حاضر ہے ۱)امام طاؤس بن کیسان mکی روایت بحوالہ کتاب المراسیل لابی داؤد لکھی اور لکھا کہ اس روایت کی سند امام طاؤس تک حسن لذاتہ ہے [الحدیث :ص۳۶شمارہ۱۰۶] جواب:زبیر علی زئی کا اس روایت کی سند کو حسن لذاتہ کہنا غلط ہے کیونکہ اس کے ایک راوی [سلیمان بن موسیٰ الدمشقی] پر شدید جرح موجود ہے اور زبیر علی زئی کے کلیے کے مطابق جمہور محدثین کے ہاں مجروح ہے کیونکہ تقریبًا۲۳ محدثین نے اس کو مجروح قرار دیا ہے اور علی زئی نے اس کی تعدیل کے اقوال لکھے ہیں ان میں تعدیل نہیں صرف تعریف ہے اور بعض اس کے اپنے اصولوں کے مطابق صحیح نہیں پھر ۹ کے مقابلے میں ۲۳مجروح قرار دے رہے ہیں تو وہ یقینًا مجروح ہے ہمارا عمل اس کے مقابلے میں صحیح روایت پرہے اور شروع میں یہ بات لکھ دی ہے کہ ہم اہل سنت وجماعت ضعیف کے مقابلے میں صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں وہ روایت یہ ہے [حدثنا وکیع،عن موسیٰ بن عمیر،عن علقمۃ بن وائل بن حجر،عن ابیہ قال رأیت النّبیّ a وضع یمینہ علی شمالہ فی الصّلوٰۃ تحت السّرّۃ]ترجمہ:حضرت وائل بن حجر hاپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبیaکو دیکھا کہ آپ a نماز میں دایا ںہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کرزیر ناف باندھتے (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱/۳۹۰رقم ۳۹۵۹ بتحقیق محمد عوامہ،دوسرا نسخہ مصنف ابن ابی شیبۃ : ۱/۳۴۳رقم۳۹۳۸ بتحقیق کمال یوسف الحوت مطبوعہ الریاض ) یہ روایت صحیح ہے اس کی تفصیل دیکھنی ہو تو ہمارے برادراصغرمحترم فیصل خان صاحب کی کتاب[الدرۃ فی عقد الایدی تحت السرۃ] ص:۱۳ تا ۵۷ مطالعہ فرمائیں۲)دوسری روایت جو سیدنا وائل بن حجر hسے بحوالہ صحیح ابن خزیمہ نقل کی اس کا جواب حاضر ہے جواب:یہ روایت مؤ مل بن اسماعیل کی وجہ سے ضعیف ہے اور زبیر علی زئی کا یہ کہنا کہ وہ ثقہ صدوق ہے غلط ہے کیونکہ مؤمل بن اسماعیل کو تقریبًا۵۰ سے زیادہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے محترم فیصل خان صاحب کی کتاب[الدرۃ فی عقدالایدی تحت السرۃ]ص:۱۰۸ تا ۱۱۵، اس کے مقابلے میںہم نمبرایک کے تحت حضرت وائل بن حجر hکی روایت پر عمل کرتے ہیں ۳،۴)تیسری اور چوتھی روایت جو حضرت عباہ بن صامت hسے مروی ہے بحوالہ کتاب القرأۃ خلف الامام للبیہقی نقل کی اس کا جواب جواب:اگر اس کی سند زبیر علی زئی کے نزدیک صحیح ہے تو اس سند سے یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں [سفیان ،زہری ،محمود بن الربیع،عبادہ بن صامت h یبلغ بہ النّبیّ a قال لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب فصاعدا]ترجمہ:حضرت عباہ بن صامت h سے روایت ہے کہ انھیں نبی aکا فرمان پہنچا آپ aنے فرمایا،اس کی نماز نہیں ہوتی جو سورت فاتحہ اور کچھ زیادہ نہ پڑھے [سنن ابوداؤد : ۱/۲۷۷رقم۸۲۲]اس کی سند بھی وہی ہے جو علی زئی نے لکھی ہے اگر زبیر علی زئی کہے کہ یہ اکیلے نمازی کے لئے ہے تو جوابًا کہا جائے گا کہ آپ نے جو روایت لکھی وہ بھی تو اکیلے نمازی کے لئے ہے ملاحظہ فرمائیں ،امام احمد بن حنبلmآپ والی روایت کا مطلب بیان کرتے ہیں امام ترمذی mلکھتے ہیں [وأما احمد بن حنبل فقال معنی قول النبی a لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب اذا کان وحدہ] ترجمہ: امام احمد بن حنبلmفرماتے ہیں کہ نبی a کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جب اکیلا نماز پڑھ رہا ہو(تو فاتحہ ضروری ہے)[جامع ترمذی: ۱/۴۰۸تحت حدیث۳۱۲]اس کے علاوہ جو روایت زبیر علی زئی نے لکھی اس کے بارے میں انھی کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں [وہذا الحدیث معلل عند ائمۃ الحدیث بأمور کثیرۃ، ضعفہ احمدوغیرہ من الائمۃ]ترجمہ: یہ حدیث بہت سی وجوہ سے ائمہ حدیث کے نزدیک معلول ہے امام احمد mاور دیگر ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے (الفتاوٰی الکبرٰی ۲/۹۹مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ ) جبکہ ہم اہل سنت و جماعت ان صحیح احادیث پر عمل کرتے ہیں :(۱)[رسول اللہ aنے فرمایا :امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہواور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولاالضآلین کہے تو تم سب آمین کہو]دیکھئے : (سنن ابن ماجہ باب اذا قرأء الامام فأنصتو ا : ۲/۳۰رقم۸۴۶ ) س روایت کے تما م راوی ثقہ ہیں یہ حدیث صحیح ہے تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب]اربعین ظفر]انٹر نیٹ کا لنک یہ ہے www.scribd.com/zafarulqadri/document (۲) [مالک عن ابی نعیم وہب بن کیسان أ نہ سمع جابر بن عبداللّٰہ یقول من صلی رکعۃ لم یقرأ فیھا بأم القرآن فلم یصل الا وراء الامام ]ترجمہ:حضرت جابر بن عبداللہ hفرماتے ہیں جس شخص نے کوئی رکعت یا نماز پڑھی اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی مگر جب امام کے پیچھے ہو(تو اس کی نماز ہو گئی)نوٹ: اس کے تمام راوی بخاری کے راوی ہیں یہ روایت صحیح ہے(۱)موطا امام مالک : ۱/۸۴ رقم۱۸۷ (۲)جامع ترمذی: ۱/۲۱۷رقم۲۹۷(۳)سنن الکبرٰی للبیہقی: ۲/۱۶۰رقم۳۰۱۴ (۴)مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱/۳۶۰رقم۳۶۴۱ ۵)پانچویں روایت زبیر علی زئی نے صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان کے حوالے سے لکھی کہ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاریhسے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ aنے رمضان میں نماز پڑھائی آپ نے آٹھ رکعتیں اوروتر پڑھے جواب:یہ روایت سخت ضعیف ہے دیکھئے : صحیح ابن حبان بتحقیق شعیب الارناؤوط: ۶/۱۶۹رقم الحدیث۲۴۰۹ مطبوعہ بیروت میں لکھا ہے ،قال شعیب الارناؤوط اسنادہ ضعیفاس میں ایک راوی عیسیٰ بن جاریہ جمہور محدثین کے نزدیک سخت ضعیف ہے دوسرا راوی یعقوب القمی شیعہ ہے اور متفرد ہے اور اس کا تفرد قبول نہیں ،جبکہ اجماع صحابہ اور اجماع امت حضرت ابن عباس hکی روایت جو [مصنف ابن ابی شیبہ ۲/۳۹۴رقم۷۷۷۴ میں ہے کی تائید کرتا ہے اس کے لئے تفصیل دیکھئے :[البرہان الحق شمارہ : ۱۱ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۳ء ]اس پر ہمارا عمل ہے ۶)زبیر علی زئی نے چھٹی روایت نقل کی ،سید نا قیس بن قہد hنے صبح کی (فرض)نماز کے بعد( طلوع آفتاب سے پہلے) دو رکعتیں (سنتیں )پڑھیں پھر جب رسول اللہaنے پوچھا تو انھوں نے بتا دیا کہ میری دو رکعتیںرہ گئیں تھیں رسول اللہ aخاموش ہو گئے جواب:صحیح ابن حبان : ۴/۴۲۹رقم ۱۵۶۳ بتحقیق شعیب الارناؤوط مطبوعہ بیروت میں لکھا ہے اسنادہ ضعیف ،اس ضعیف روایت کے مقابلے میں ہم اس صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں [ حضرت ابو ہریرہ hبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ aنے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتیٰ کہ سورج غروب ہوجائے اور صبح کی نماز کے بعد حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجائے ]یہی روایت حضرت ابی سعید الخدری،حضرت عبداللہ بن عباس iسے بھی مروی ہیں (صحیح بخاری ۱/۸۳،صحیح مسلم ۱/۲۷۵)۷) ساتویں روایت جو سنن ابوداؤد کے حوالے سے نقل کی کہ نبی a غزوہ تبوک میں جمع تقدیم فرماتے اور زبیر علی زئی نے لکھا کہ نیموی نے لکھا [وہو حدیث ضعیف جدا]جواب:اس روایت میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہے جو جمہورکے نزدیک ضعیف ہے دیکھئے سیر اعلام النبلاء : ۶/۱۷۹ ترجمہ۸۴ میں جبکہ ہم صحیح حدیث جو بخاری ومسلم میں ہے اس پر عمل کرتے ہیں [حضرت انس بن مالکhبیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ aجب سورج ڈھل جانے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے پھر اتر کر ان دونوں کو اکٹھا پڑھتے اور اگر کوچ سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر کی نماز پڑھ کر سفر پر روانہ ہوتے ] (صحیح بخاری: ۲/۵۸،صحیح مسلم : ۲/۱۵۰) ۸)آٹھویں روایت سنن دارقطنی کے حوالے سے نقل کی کہ نبی aنے منی کے بارے میں فرمایاکہ یہ بے شک بلغم اور تھوک کی طرح ہے اور تمھارے لئے کافی ہے کہ اسے کپڑے کے کسی ٹکڑے یا گھاس سے پونچھ لے جواب:غیر مقلدین تو ویسے ہی منی پاک ہونے کے قائل ہیں اور یقینًا وہ منی کو پونچھ ڈالتے ہونگے غسل کی ان کو کیا ضرورت ،یہ روایت بھی ضعیف ہے ہمارا اس پرعمل نہیں بلکہ اس کے مقابلے میں دوسری صحیح روایت پر عمل ہے وہ یہ ہے [حضرت سلیما ن بن یسارhبیان کرتے ہیں میں نے سیدۃ عائشہ kسے اس منی کے بارے پوچھا جو کپڑے سے لگ جائے تو انھوں نے فرمایا میں رسول اللہ aکے کپڑے سے منی دھوتی تھی الخ] (صحیح بخاری : ۱/۳۶،صحیح مسلم : ۱/۴۱) ۹)نویں روایت سید نا انس بن مالک hکی لکھی [کہ رسول اللہ a وفات تک نماز فجر میں میں قنوت پڑھتے رہے]آگے لکھتے ہیں کہ اگر یہ روایت صحیح ہے توبریلویہ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے اور اگر ضعیف ہے تو ان کا ضعیف روایات کو حجت سمجھنا باطل و مردود ہے جواب: زبیر علی زئی سے گزارش ہے کہ وہ میرے مضمون کو دوبارہ پڑھیں شاید انھیں میرا مضمون سمجھ نہیں آیا میں نے موٹی سرخی لگائی تھی [ضعیف احادیث کا کلی انکار ایک فتنہ ]ہمارا اہل سنت وجماعت کا مؤقف کیا ہے وہ میں شروع میں لکھ چکا ہوں کہ ہم ضعیف احادیث کا نہ کلی انکار کرتے ہیں اور نہ کلی اقرار ،اسی طرح صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف روایت آجائے تو پھر صحیح پر عمل کرتے ہیں اور اگر اس معاملے میں صحیح روایت نہ ہو اگر ضعیف روایت ہی ہو تو پھر اس پر عمل کرتے ہیں ضعیف کے مقابلے میں اپنے قیاس پر عمل نہیں کرتے جبکہ آپ کانعرہ کلی انکار کا ہے لہٰذا ہمیں طعنہ دینے کی ضرورت نہیں یہ روایت بھی ضعیف ہے اور اس کے مقابلے میں ہم اس صحیح روایت پر عمل کرتے ہیں [عاصم بن سلیمان mنے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالکh سے قنوت کے بارے میں پوچھاانھوں نے فرمایا بیشک قنوت تھی میں نے پوچھارکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد انھوں نے فرمایا رکوع سے پہلے میں نے کہا فلاں صاحب آپ سے روایت کرتے ہیں کہ رکوع کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ غلط کہتے ہیں رکوع کے بعد تو حضورa نے ایک مہینے تک قنوت(نازلہ)پڑھی تھی (جب ستر صحابہj کوشہید کیا گیا تواس قبیلے کے خلاف) (صحیح بخاری رقم الحدیث ۱۰۰۲)۱۰)دسویں روایت حضرت عبداللہ بن عباس hسے نقل کی کہ[نبی a سفر میں تھے جب آپ کی منزل میں سورج ڈھل جاتا تو سوار ہونے سے پہلے ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا فرماتے الخ]جواب:اس ضعیف روایت کے مقابلے میں ہم اس صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں :[حضرت انس بن مالکhبیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ aجب سورج ڈھل جانےسے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے پھر اتر کر ان دونوں کو اکٹھا پڑھتے اور اگر کوچ سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر کی نماز پڑھ کر سفر پر روانہ ہوتے ] (صحیح بخاری: ۲/۵۸،صحیح مسلم : ۲/۱۵۰) ۱۱)گیارویں روایت یہ نقل کی کہ[نبی aدو سجدوں کے درمیان (جلسے میں)درج ذیل دعا پڑھتے تھے پھر دعا لکھیجواب:ہمارے نزدیک بھی دعا پڑھنا جائز ہے اختلاف صرف سنیت کا ہے حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک یہ دعا یا ذکر مسنون نہیں جائز ہیں دیکھئے قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی mوغیرہ نے مالابدمنہ میں جائز لکھا ۱۲)بارہویں نمبر پر عبدالحمید بن جعفر کی سند سے ابو حمید ساعدی hوالی روایت لکھی اور اس کے بعد لکھا لیکن بریلویہ کے نزدیک یہ راوی پھر بھی سخت مجروح اور ضعیف ہے سبحان اللہ (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۰)جواب:عبد الحمید بن جعفر کو امام نسائی ،ابن حجر عسقلانی،علامہ ماردینی،یحیی بن سعید ،امام بدر الدین عینی ،امام ابو حاتم ،ابن حبان وغیرہ ضعیف قرار دیتے ہیں اس کے علاوہ بھی اس روایت میں بہت سی علتیں ہیں تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب [ظفر مّبین]اب اس ضعیف روایت کے مقابلے میں ہم حضرت ابو حمید ساعدی hکی اس صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں طویل حدیث ہے ۔۔۔۔حضرت ابو حمید ساعدی hفرماتے ہیں [آپ aتکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر جما دیتے پھر اپنی پیٹھ جھکا کر سر اور گردن کے برابر کردیتے پھر سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہوجاتے آپaکی ہر پسلی اپنی جگہ پر آجاتی اور جب سجدہ کرتے دونوں ہاتھ زمین پر رکھتے نہ بانہوں کو بچھاتے نہ سمیٹ کر پہلو سے لگاتے اور پاؤں کی انگلیوں کی نوکیں قبلے کی طرف رکھتے اور جب دو رکعتیں پڑھ چکتے تو بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے الخ] (صحیح بخاری : ۱/۲۱۰رقم ۸۲۸مطبوعہ قاہرہ) اس میں عبدالحمید بن جعفر ضعیف راوی نہیں ہے اسی لئے اس روایت کے بارے میں امام ابن حجر عسقلانی mنے فرمایا[اصلہ فی البخاری] (حضرت ابو حمید ساعدی hکی)اصل روایت بخاری میں ہے [الدرایۃفی تخریج أحادیث الھدایۃ: ۱/۱۵۳مطبوعہ بیروت]۱۳)تیرہویں روایت حضرت ابو بکر صدیق hکی نماز کے متعلق لکھی کہ وہ نماز شروع کرتے وقت ،رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے جواب:اس روایت میں ایک راوی ابو النعمان محمد بن فضل سدوسی المعروف [عارم]ہے اس کا حافظہ متغیر ہو گیا ہے اور اس کی عقل بھی ضائع ہوگئی تھی جس کی وجہ سے یہ اختلاط کا شکارہوگیا تھا (میزان الاعتدال : ۴/۷)اسی لئے اکثر محدثین نے یہی جرح کی ہے مثلًا[امام بخاریm(تاریخ الکبیر: ۱/۲۰۸)،امام ابوداؤد(الضعفاء الکبیر للعقیلی: ۴/۱۲۱،۱۲۲)،امام ابوحاتم الرازی(الجرح والتعدیل للرازی: ۸/۶۹،۷۰)،اسی طرح تقریبًا۲۳محدثین نے یہی بات لکھی ہے کہ اس کاحافظہ خراب ہوگیا تھا اور یہ مختلط راوی ہے ]اس مختلط راوی ’’محمد بن فضل السدوسی،، کے بارے میں ابن حبان mنے ایک قاعدہ بیان کیا ہے وہ یہ ہے [وقال ابن حبان اختلط فی آخر عمرہ وتغیرحتی کان لایدری مایحدث بہ فوقع فی حدیثہ المناکیرالکیثرۃ فیجب التنکب عن حدیثہ فیما رواہ المتأخرون فان لم یعلم ہذا ترک الکل ولا یحتج بشیء منہا ] ترجمہ: اور ابن حبان mفرماتے ہیں آخری عمر میں یہ اختلاط کا شکار ہوگیا تھا یہاں تک کہ اس کی یہ حالت ہوگئی کہ اس کو یہ بھی معلوم نہ ہوتا تھا کہ کیا کہہ رہا ہوں اس لئے اس کیحدیث میں منکر باتیں آگئیں ،لہٰذا اس کے متاخرین شاگردوں میں سے اگر کسی نے اس سے روایت نقل کی تو ان روایات سے رک جانا واجب ہے اگر اس بات کا علم نہ ہوسکے (کہ کون سی روایت قدیم شاگرد سے مروی ہے،اور کون سی متاخر شاگرد سے)تو ایسی تمام روایات متروک ہونگی،اور ان سے احتجاج نہیں کیا جائے گا (تہذیب التہذیب ابن حجرعسقلانی: ۹/۳۵۸،۳۵۹ترجمہ۶۵۹)اس روایت میں بھی محمد بن اسماعیل السلمی قدیم شاگرد نہیں ہے دیکھئے [التعلیق الحسن للنیموی ص۱۱۴]لہٰذایہ روایت متروک ہے اس روایت کے مقابلے میں ہم اس روایت پر عمل کرتے ہیں [عن عبداللّٰہ قال صلیت مع رسول اللّٰہa وابی بکرhوعمرhفلم یرفعواایدیہم الاعند افتتاح الصلاۃ]ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودhفرماتے ہیں میں نے رسول اللہ a حضرت ا بوبکرh حضرت عمرh کے ساتھ نماز پڑھی انھوں نے (پوری) نماز میں صرف شروع میں رفع یدین کیا (۱)معجم أسامی شیوخ أبی بکرالاسماعیلی: ۲/۶۹۲رقم ۳۱۸(۲)مسند أبی یعلیٰ: ۵/۳۶رقم ۵۰۳۸(۳)سنن الکبرٰی للبیہقی: ۲/۷۹رقم۲۶۳۶زبیر علی زئی غیر مقلد کا اس روایت پر یہ اعتراض کہ محمد بن جابر مختلط راوی ہے اور اس سے اسحاق بن ابی اسرائیل نے اختلاط کے بعد یہ روایت سنی ہے (نور العینین ص ۱۵۳)سوائے ایک کھوکھلی دھونس کے سوا کچھ نہیں محمد بن جابر صدوق تھے جیساکہ محدثین نے اس کی صراحت کی ,امام فلاس لکھتے ہیں ’’صدوق ،،سچے ہیں (مختصر الکامل فی الضعفاء ص۶۶۱)-امام ابو حاتم رازی لکھتے ہیں ’’محلہماالصدق،، سچے مقام کے مالک ہیں (الجرح والتعدیل لابی حاتم الرازی: ۷/۲۱۹ترجمۃ۱۲۱۵).امام ابوزرعہ رازی: لکھتے ہیں ’’کتب عنہ بالیمامۃ وبمکۃفہو صدوق،،جس شخص نے یمامہ اور مکہ میں ان (محمد بن جابر) سے (روایات ) لکھی ہیں وہ سچا ہے (الجرح والتعدیل لابی حاتم الرازی: ۷/۲۲۰) /امام الذہلی فرماتے ہیں : ’’لابأس بہ،،اس میں کوئی حرج نہیں (تہذیب التہذیب : ۹/۷۸)0امام ابن عدی : یہ بھی ان صدوق سمجھتے تھے (الکامل فی ضعفاء الرجال ابن عدی : ۶/۱۵۳)1امام ہیثمی فرماتے ہیں : ’’ہوصدوق فی نفسہ،، (مجمع الزوائدومنبع الفوائد: ۲/۲۲۷تحت رقم۳۳۶۷ )مام ابو الولید: فرماتے ہیں ،کہ ہم محمد بن جابر کی حدیث نہ لے کر ان پر ظلم کرتے ہیں یعنی وہ صحیح ہیں (الجرح والتعدیل لابی حاتم الرازی: ۷/۲۲۰)3عمرو بن علی : ’’صدوق،،سچے ہیں (الجرح والتعدیل لابی حاتم الرازی: ۷/۲۱۹)4امام ذہبی : لکھتے ہیں ’’وفی الجملۃ قد روی عن محمد بن جابر ائمۃ وحفاظ،،اور حقیقت میں محمد بن جابر سے روایت کرنے والے بڑے بڑے ائمہ حدیث اور حفاظ حدیث ہیں (میزان الاعتدال: ۳/۴۹۸) 5ابن حجر عسقلانی: لکھتے ہیں ’’صدوق،،سچے ہیں (تقریب التہذیب: ۲/۶۱رقم۵۷۹۵)ان پر جرح اختلاط کی وجہ سے ہے ،اور اصول ہے کہ اختلاط سے پہلے والی روایت قبول ہے امام ابو زرعہ اورامام ابو حاتم الرازی نے یہ تصریح کی ہے کہ[کتب عنہ بالیمامۃ وبمکۃفہوصدوق،،جس شخص نے یمامہ اور مکہ میں ان (محمد بن جابر) سے (روایات ) لکھی ہیں وہ سچا ہے (الجرح والتعدیل لابی حاتم الرازی: ۷/۲۲۰)] لہٰذا اس روایت میں بھی اسحاق بن ابی اسرائیل ہیں جنہوں نے محمد بن جابر سے یمامہ میں حدیث کا سماع کیا ہے جس کی تصریح محدثین نے کی ہے ملاحظہ فرمائیے,خطیب بغدادیm: لکھتے ہیں[قال: اسحاق بن ابی اسرائیل ،لما انصرفت من الیمامۃ من عند ہذا الشیخ یعنی محمد بن جابرالخ]ترجمہ:اسحاق بن ابی اسرائیل کہتے ہیں کہ جب میں یمامہ سے شیخ یعنی محمد بن جابر سے حدیث کا سماع کرکے آیا(تاریخ بغداد: ۷/۳۷۶تحت رقم۲۱۶۰،تہذیب الکمال مع حواشیہ: ۲/۳۹۹تحت ترجمۃ اسحاق بن ابی اسرائیل )-امام محمد بن سعدm: [قال ابن سعد ،وکان رحل الی محمد بن جابر بالیمامۃ فکتب کتبہ] ترجمہ:اسحاق بن ابی اسرائیل یمامہ میں محمد بن جابر کے پاس گئے اور ان کی کتابوں کو لکھا(الطبقات الکبرٰی لابن سعد: ۷/۳۵۳،تہذیب الکمال مع حواشیہ: ۲/۴۰۰تحت ترجمۃ اسحاق بن ابراہیم).ابن عدی الجرجانیm: لکھتے ہیں [عند اسحاق بن أبی اسرائیل عن محمد بن جابر کتاب احادیثہ صالحۃ]اسحاق بن ابی اسرائیل کے پاس محمد بن جابر سے مروی احادیث صالحہ پر مشتمل ایک کتاب تھی ( الکامل فی ضعفاء الرجال ابن عدی : ۶/۱۵۳)لہٰذا یہ روایت قبل اختلاط ہے اور ان کے پاس محمد بن جابر سے روایت شدہ صالحہ احادیث کی ایک کتاب تھی اور تحقیق کی روسے یہ روایت صحیح ہے ۱۴)چودہویںروایت حضرت ابو ہریرہ hکی لکھی اور خود ہی لکھا کہ اس میں ایک راوی محمد بن عصمہ الرملی مجہول الحال ہے جبکہ دوسری سند میں حصین بن وہب مجہول الحال ہے (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۱) جواب:اس ضعیف روایت کے مقابلے میں ہم حضرت ابو ہریرہ hکی اس حسن روایت پر عمل کرتے ہیں [حضرت ابو ہریرہ hفرماتے ہیں کہ رسول اللہ aجب نماز میں داخل ہوتے تو خوب دراز کرکے رفع یدین کرتے تھے ] (سنن ابوداؤد : ۱/۱۱۷رقم۷۵۳باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع)15)پندرہویں روایت رفع یدین کے متعلق حضرت انس بن مالک hکی لکھی اورخود اس کے دو راویوں کو ضعیف بھی لکھا پھر آخر میں لکھا [اس سے ثابت ہوا کہ روایت صرف ضعیف ہے موضوع ومتروک نہیں ] لہٰذا جو لوگ ضعیف روایت کو حجت سمجھتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اس حدیث کومدنظر رکھ کر رفع یدین کے بارے میں اپنے عمل کا جائزہ لیں (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۲،۴۳) جواب: یہ روایت صرف ضعیف نہیںبلکہ متروک بھی ہے میرے علم کے مطابق کسی ثقہ محدث وفقیہہ نے اس روایت کو قبول کرکے یہ فتوٰی نہیں دیا کہ جوان مقامات پر رفع یدین نہ کرے تو اس کے اعضاء اس پر لعنت بھیجتے ہیں اس کے خلاف حضرت عطاء بن ابی رباح mکا فتوٰی ملاحظہ فرمائیں (۱)[عبدالرزاق عن ابن جریج قال قلت لعطاء أرایت ان نسیت أن أکبر بیدی فی بعض ذلک أعود للصلاۃ قال لا ]ترجمہ:ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں حضرت عطاء mسے پوچھاکہ بعض مقامات میں اگر میں رفع یدین کرنا بھول جاؤں تو اعادہ نماز کروں آپ نے فرمایا نہیں اس کی سند صحیح ہے (مصنف عبدالرزاق: ۲/۷۱رقم ۲۵۳۶)(۲)اسی طرح امام احمد بن حنبل mکا فتوٰی ملاحظہ فرمائیں ،امام ابوداؤدm(صاحب سنن) فرماتے ہیں کہ:[میں نے حضرت امام احمد بن حنبل mسے پوچھا ایک آدمی نماز شروع کرتا ہے اور(کوئی بھی) رفع یدین نہیں کرتا تو کیا وہ نماز کا اعادہ کرے تو آپ نے فرمایانہ کرے اس کی حجت یہ ہے کہ حضور aنے أعرابی کو رفع یدین کی تعلیم نہیں دی ] (بدائع الفوائد لابن القیم: ۳/۶۰۰مطبوعہ مکہ مکرمہ ) اس لئے ہم اہل سنت و جماعت اس متروک وضعیف روایت کے مقابلے میں اس صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیںایک طویل حدیث جو حضرت ابوہریرہ hسے روایت ہے کہ نبی a نے ایک اعرابی کو نماز کی تعلیم دی حضورaنے فرمایا[جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ،پھر جو کچھ قرآن تجھ کو یاد ہو اور آسانی کے ساتھ پڑھ سکے ،وہ پڑھ پھر اطمینان سے ٹھہر کر رکوع کر پھر سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجا ئے پھر اطمینان سے سجدہ کر پھر سجدے سے سر اٹھا اور اطمینان سے بیٹھ پھر دوسرا سجدہ اطمینان سے اداکر پھر اسی طرح ساری نماز پڑھ](۱)صحیح بخاری : ۱/۱۹۳رقم۷۵۷مطبوعہ قاہرہ(۲)سنن نسائی : ۲/۱۲۴رقم۸۸۴مطبوعہ حلب(۳)سنن ترمذی: ۱/۳۹۳رقم۳۰۳مطبوعہ بیروت رہا یہ کہ ہم ضعیف روایات کو حجت مانتے ہیں یا نہیں تو یہ بات میں شروع میں واضح کرچکا ہوںکہ ہم ضعیف احادیث کا نہ کلی انکار کرتے ہیں اور نہ کلی اقرار ،اسی طرح صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف روایت آجائے تو پھر صحیح پر عمل کرتے ہیں اور اگر اس معاملے میں صحیح روایت نہ ہو اگر ضعیف روایت ہی ہو تو پھر فضائل وغیرہ میں اس پر عمل کرتے ہیں ،نہ کہ ہرجگہ قبول کرتے ہیں یہی سلف صالحین ،محدثین و فقہاء کا طریقہ ہے اور یہ اصول حدیث ہے اب یہ باتیں بھی ہمیں زبیر علی زئی کو پڑھانا ہوں گی جو غیر مقلدین کے نزدیک اس وقت ذہبی زماں اور سب سے بڑے محدث مانے جاتے ہیں سبحان اللہ!۱۶)سولہویں روایت لکھی کہ ’’نبی aنے نماز عید میں پہلی تکبیر میں سات اور دوسری میںپانچ یعنی کل بارہ تکبیریں کہیں (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۳،۴۴) جواب:یہاں لگتا ہے کہ کمپوزنگ کی غلطی سے رکعت کی بجائے تکبیر لکھا گیا ہے بہرحال اس روایت میںایک راوی ’’کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف المزنی ‘‘سخت ضعیف اور کذاب راوی ہے اس کو امام یحیی بن معین ،عثمان بن سعید دارمی،ابن ابی حاتم ،نسائی،دارقطنی اور ابو حاتم nوغیرہا نے ضعیف ،منکر الحدیث وغیرہ کہا ہے اور امام شافعیmنے اسے کذاب کہا ہے دیکھئے ’’تہذیب الکمال: ۲۴/۱۳۶رقم۴۹۴۸‘‘اس کے مقابلے میں ہم اہل سنت وجماعت اس صحیح روایت پر عمل کرتے ہیں:[حضرت علقمہ اور اسود بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودhبیٹھے ہوئے تھے ان کے پاس حضرت حذیفہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری iبھی موجود تھے تو حضرت سعید بن عاص نے ان حضرات سے عید کی تکبیرات کے بارے میں پوچھا تو حضرت حذیفہhنے فرمایاکہ اشعری سے پوچھو تو حضرت ابو موسیٰ اشعریhنے فرمایا کہ کہ عبد اللہ بن مسعود hسے پوچھوبے شک وہ ہم سے مقدم ہیں اور ہم میں سے سب سے زیادہ جاننے والے ہیں پس تو ابن مسعود hسے پوچھ تو عبداللہ بن مسعودhنے فرمایا کہ آپ a چار تکبیریں کہتے تھے (ایک تکبیر افتتاح +تین زائد تکبیریں)پھر قرأت کرتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے پھر(جب)دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو قرأت کرتے پھر قرأت کے بعد چارتکبیریں کہتے(تین زائد+ایک رکوع والی)] (مصنف عبدالرزاق: ۳/۲۹۳رقم۵۶۷۷) ۱۷)سترہویں روایت پھر بارہ تکبیرا ت والی لکھی (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۴)جواب: اس روایت میںابن لہیعہ ضعیف راوی ہے اس کے مقابلے میں ہم عبداللہ بن مسعودh والی صحیح روایت پر عمل کرتے ہیں جو ابھی ۱۶ نمبر کے تحت گذری ۱۸)اٹھارہویںروایت ام شریک الانصاریہhکی ایک روایت لکھی کہ رسول اللہaنے ہمیں جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۴)جواب:یہ روایت بھی ضعیف ہے اور اس کے مقابلے میںہم ان روایات پر عمل کرتے ہیں (۱)[حضرت جابر hفرماتے ہیں کہ حضورaنے نماز جنازہ میں پڑھنے کے لئے کسی چیز کو معین نہیں فرمایا اور نہ حضرت ابو بکر hنے اور نہ حضرت عمرhنے ] (مصنف ابن ابی شیبہ: ۳/۲۹۴رقم۱۱۴۸۵) (۲)[حضور aکے تیس صحابہ jسے عمرو بن شعیب عن جدہ روایت کرتے ہیں کہ نماز جنازہ میں پڑھنے کے لئے کوئی چیز معین نہیں ](مصنف ابن ابی شیبہ: ۳/۲۹۴رقم۱۱۴۸۶)۱۹)انیسویں روایت سنن دار قطنی اور مستدرک للحاکم کے حوالے سے لکھی کہ ’’نبی aجب سورہ فاتحہ کی قرأت سے فارغ ہوتے تو اونچی آواز سے آمین کہتے تھے ‘‘آگے لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند زہری تک حسن لذاتہ ہے اور بعد والی سند دیوبندیہ و بریلویہ کی شرط پر صحیح ہے لیکن نیموی نے لکھا [وفی اسنادہ لین ]اور اس کی سند میںکمزوری ہے (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۴)جواب:زبیر علی زئی کی عادت ہے کہ وہ زبردستی دوسروں کا وکیل بن بیٹھتا ہے یہ روایت اگر ہماری شرط پر ہوتی تو ہمارا محدث اسے [وفی اسنادہ لین] کیوں کہتا،ایک ہی جملے میں دوغلی پالیسی،اس روایت میں ایک راوی [اسحاق بن ابراہیم العلاء الزبیدی]ہے جو کہ ضعیف راوی ہے امام نسائی فرماتے ہیں لیس بثقۃ،امام ابوداؤد فرماتے ہیں لیس بشیء وکذبہ (میزان الاعتدال: ۱/۱۸۱ترجمہ۷۳۰)امام ابن حجر عسقلانیmلکھتے ہیں [روی الآجری عن ابی داؤد ان محمد بن عون قال ما اشک ان اسحاق بن زبریق یکذب ] (تہذیب التہذیب: ۱/۱۸۹ترجمہ۴۰۶)اس ضعیف روایت کے مقابلے میں ہم اس صحیح روایت پر عمل کرتے ہیں :[حضرت ابوہریرہhفرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ aنے (نمازکی)تعلیم دیتے ہوئے فرمایا،امام سے جلدی نہ کرو ،جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ ولا الضآلین کہے تو تم آمین کہو الخ] (صحیح مسلم: ۲/۲۰رقم۹۵۹)۲۰)بیسویں روایت ام حصین kکی اونچی آواز سے آمین کہنے کی نقل کیاور خود ہی لکھتے ہیں کہ نیموی نے لکھاہے ’’وفیہ اسماعیل بن مسلم المکی وہو ضعیف ‘‘ آخر میں زبیر علی زئی رونا روتا ہے [عجیب انصاف ہے کہ یہ لوگ خود تو بہت سی روایتوں کو ضعیف کہہ کر رد کردیتے ہیں اور اگر کوئی صحیح العقیدہ سنی یعنی اہل حدیث عالم اصول حدیث،اسماء الرجال اور جمہور محدثین کی گواہیوںکو مدنظر رکھ کر کسی روایت کو ضعیف قرار دے تو انھیں مرچیں لگ جاتی ہیں اور منکرین حدیث کا فتوٰی لگانا شروع کر دیتے ہیں سبحان اللہ! (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۴)جواب:زبیر علی زئی سے گزارش ہے کہ وہ میرا مضمون غور سے پڑھیں شاید بات ان کے پلے پڑجائے میں نے مطلقًا ضعیف احادیث کا انکار کا رد کیا ہے آپ کا یعنی لگا کر سنی بننا بھی ٹھیک نہیں کیونکہ آپ تو غیر مقلد ہیں سنی نہیں اسی لئے آپ کو یعنی لگانے کی ضرورت پڑی اس کے علاوہ آپ کا اصول حدیث اور اسماء الرجال وجمہور محدثین کی گواہیوں کا شکوہ کرنا اس لئے ٹھیک نہیں کہ جمہور محدثین ضعیف روایات کا کلی انکار نہیں کرتے تھے آپ کو بات سمجھ نہیں آتی آپ کبھی کلی انکار کرتے ہیں اور کبھی ہم پر کلی حجت کے طور پر پیش کرتے ہیں مرچیں تو آپ کو لگی ہیں نہ کہ ہمیں میں نے تو ایک تجزیہ دلائل کی روشنی میں پیش کیا تھااصول حدیث کی روشنی میں خود فیصلہ کیجئے کہ صحیح روایت کے مقابلے میں ضعیف روایت قبول کرنا ہوتی ہے یا صحیح ،اس روایت میں بھی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے اس کو [امام احمد ،امام یحیی بن معین ،ابن حبان ،امام البزار،عقیلی ،الدولابی،الساجی اور ابن الجارود نے ضعیف قرار دیا ہے ]دیکھئے (تہذیب التہذیب : ۱/۲۹۰ترجمہ ۵۹۸) اس ضعیف روایت کے مقابل ہم اہل سنت وجماعت صحیح مسلم کی حدیث جو ۱۹نمبر کے تحت درج ہے اس پر عمل کرتے ہیں ۲۱)اکیسویںروایت معجم الاوسط للطبرانی کا ایک حصہ نقل کیالکھتے ہیں ’’فأما زلۃ عالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم ‘‘ رہی عالم کی غلطی تو اگر وہ ہدایت پر بھی ہو تو دین میں اس کی تقلید نہ کرو ،پھر لکھتے ہیں کیا ظفر القادری بکھروی صاحب اور فرقہ بریلویہ اور دیوبندیہ اصول وفروع ہرمسئلے میںدرج بالاضعیف مرفوع روایت پر عمل کے لئے تیار ہیں؟ (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۵)جواب:جناب والا اسی ضعیف روایت میں آگے الفاظ ہیں [فان للقرآن مناراکمنار الطریق فما عرفتم فخذوہ وما أنکرتم فردوہ الی عالمہ] دیکھئے : (المعجم الاوسط للطبرانی: ۳۰۷۸رقم۸۷۱۵مطبوعہ قاہرہ ) جبکہ ہم اللہ رب العزت جل جلالہ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہیں :[فَسْئَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔]ترجمہ:اگر تمہیں علم نہ ہو تواہل ذکر سے پوچھ لو (النحل: ۴۳،الانبیاء : ۷)چنانچہ اس آیت کے ضمن میں علامہ آلوسی mلکھتے ہیں:[واستدل بھا أیضا علی وجوب المراجعۃ للعلماء فیما لایعلم،وفی الاکلیل للجلال الدین سیوطی أنہ استدل بھاعلی جواز تقلید العامی فی الفروع]ترجمہ: اور اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم خود نہ ہو اس سے علماء کا رجوع کرنا واجب ہے اور علامہ جلا ل الدین سیوطی m[الاکلیل فی استنباط التنزیل:ص۱۶۳ تحت النحل آیت:۴۳]میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے (روح المعانی :۷/۳۸۷مطبوعہ بیروت)خطیب بغدادیm ’’الفقیہ والمتفقہ: ۱/۴۱۶ مطبوعہ سعودی عرب‘‘ میں لکھتے ہیں: [أما من یسوغ لہ التقلید فہو العامی: الذی لا یعرف طرق الأحکام الشرعیۃ،فیجوز لہ أن یقلد عالماویعمل بقولہ،قال اللّٰہ تعالیٰ: فَسْئَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُون] ترجمہ:رہا یہ مسئلہ کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے سو یہ وہ عامی شخص ہے جو احکام شرعیہ کے طریقے نہیں جانتا پس اسے جائز کہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے،اور اس کے قول پر عمل کرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :فَسْئَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُون۔یہ روایت تو آپ پر فٹ ہوتی ہے کہ کوئی عالم غلطی پر ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو جیسے [مسئلہ تدلیس ]میں آپ کو غلطی لگی ہوئی ہے اور اس حوالے سے آپ کے اپنے پرائے آپ کو سمجھا رہے ہیں آپ پھر بھی اپنے اندھے مقلدوں کی بنا پر ڈٹے ہوئے ہیں ۲۲)بائیسویں روایت ابو صالح باذام(ضعیف راوی) کی روایت لکھی کہ رسول اللہ aنے زائرات القبور (قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں)،ان پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر لعنت بھیجی (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۵)جواب:ہم اہل سنت وجماعت کا اس بارے میں مؤقف یہ ہے کہ عورتوں کاقبرستان جا نا منع ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلویmنے فتاوٰی رضویہ:۹/۵۳۶۔۵۳۷مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہورمیں لکھا ہے اسی طرح اس مسئلہ پر خاص ایک رسالہ بھی لکھاہے جس کا نام[جمل النور فی نہی النساء عن زیارۃ القبور]دیکھئے ’’فتاوٰی رضویہ: ۹/۵۴۱مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور‘‘ اسی طرح قبر پر مسجد بنانے سے مراد اگر اس پر نماز پڑھناہے تو ہم اس کو جائز نہیں سمجھتے اور اگر اس سے مراد قبر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ہے تو یہ بھی ہمارے نزدیک جائز نہیں ،رہی بات چراغ جلانے والی تو اس سے مراد اگر قبر کے اوپر چراغ جلانا مراد ہے تویہ بھی ہمارے نزدیک جائز نہیں ،ہاں اگر زائرین کی آسانی کے لئے روشنی کرنا مقصود ہو تو جائز ہے ،یہی روایت لکھ کر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی mنے یہ مسئلہ تفصیل سے لکھا ہے دیکھئے فتاوٰی رضویہ: ۹/۴۹۰،۴۹۱ میں،اور اسی طرح [فتاوٰی افریقہ : ص۷۱،۷۲،۷۳،۷۴]مطبوعہ نوری کتب خانہ لاہورمیں ہے ،لہٰذا ہمیں طعنہ دینے کی بجائے آپ اپنی اداؤں پہ غور کریں ہم تو اس روایت کو قابل احتجاج سمجھتے ہیں جیسا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلویmکے حوالے سے گزرا۲۳،۲۴،۲۵) تئیسویں روایت حضرت عائشہ kکی سنن الکبرٰی للبیہقی کے حوالے سے لکھی کہ وہ سفر میں فرض نماز چار رکعتیں پڑھتی تھیں ،پھر چوبیسویں روایت بھی حضرت عائشہ kکی لکھی کہ رسول اللہ aقصر کرتے اور میں پوری پڑھتی تھی تو آپaنے فرمایا تو نے اچھا کیا (الحدیث شمارہ۱۰۶ص۴۵،۴۶)پچیسویں روایت پھر دار قطنی کے حوالے سے لکھی کہ رسول اللہ aسفر میں قصر بھی کرتے تھے اور پوری نماز بھی پڑھتے تھے (الحدیث شمارہ:۱۰۶ص۴۷)جواب:علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :[رسول اللہ aسفر میں ہمیشہ چار رکعات والی نماز کو قصر کرکے دورکعت پڑھتے تھے جب تک مدینہ واپس تشریف نہ لے آتے اور آپaسے یہ قطعًاثابت نہیں ہے کہ آپ نے سفر میں کبھی پوری نماز پڑھی ہو حضرت عائشہ kسے جو یہ مروی ہے کہ آپ سفر میں قصر بھی کرتے اور پوری نماز بھی پڑھتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے وہ حدیث صحیح نہیںمیں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے سنا کہ یہ رسول اللہ aپر افتراء ہے (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد : ۱/۴۴۴ مبحث فی قصر الصلوٰۃ),امام نسائی والی روایت کے بار ے میں آپ کے ہی محدث ’’البانی‘‘سنن نسائی میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں [منکر]یہ روایت منکر ہے : (سنن نسائی بأحکام البانی : ۱/۱۲۲تحت رقم۱۴۵۶)-ابو بکر نیشاپوریm فرماتے ہیں اس حدیث میں خطاء ہے (البدرالمنیر: ۴/۵۲۷،تنقیح التحقیق لابن الھادی: ۲/۵۲۰).علامہ ابن الھادیm فرماتے ہیں [ہذا حدیث منکر]یہ منکر حدیث ہے (تنقیح التحقیق لابن الھادی: ۲/۵۲۰تحت حدیث ۱۲۱۸)/امام ابن حجر عسقلانیm بھی اس کو منکر سمجھتے ہیں (تلخیص الحبیر : ۲/۱۱۲)0امام بیہقیmبھی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث خطا ء ہے (سنن الکبرٰی للبیہقی: ۳/۱۴۲تحت حدیث ۵۶۳۶مطبوعہ حیدرآباد دکن انڈیا)1امام جما ل الدین الزیلعیmنے بھی اس کو روایت کومنکر لکھا ہے (نصب الرایۃ: ۲/۱۹۱مطبوعہ بیروت) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے [وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلوٰۃِ۔]ترجمہ:اور جب تم زمین میں سفر کروتو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نمازیں قصر سے پڑھو (سورۃالنساء:۱۰۱)آپ کی پیش کردہ روایات کے مقابلے میں ہم جمہور کی قبول کردہ صحیحین کی اس روایت پر عمل کرتے ہیں :[حضرت عبداللہ بن عمرhبیان فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ a،حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت عثمانjکی رفاقت میں رہا ہوں ان حضرات نے سفر میں کبھی بھی دو رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی] (۱)صحیح بخاری: ۲/۵۷رقم ۱۱۱۲ (۲)صحیح مسلم: ۲/۱۴۴رقم۱۶۱۱(۳)سنن ابوداؤد: ۱/۴۷۳رقم۱۲۲۵ اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہkسے یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیںآپ فرماتیں ہیں:[کہ ابتداء میں نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی پھرحضر میں نمازپوری(چار رکعات)کی گئی اور سفر میں پہلی فرضیت (یعنی دو رکعت ) پر باقی رکھی گئی]( ۱)صحیح مسلم : ۲/۱۴۲رقم۱۶۰۳ (۲)سنن الکبرٰی للبیہقی: ۳/۱۳۵رقم۵۵۸۸ لہٰذا آپ کی پیش کردہ منکر روایت کی بجائے ان روایت پر ہمارا عمل ہے۲۶) چھبیسویںروایت ’’ابوداؤد اور صحیح ابن حبان ‘‘کے حوالے سے لکھی کہ [پھر اس کے بعد آپ aصبح کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھتے رہے حتیٰ کہ وفات پاگئے اور دوبارہ یہ نماز روشنی کرکے نہیں پڑھی (الحدیث شمارہ:۱۰۶ص۴۷)جواب:اس روایت میں ایک راوی ’’اسامہ بن زید اللیثی‘‘ ہے جو کہ مختلف فیہ راوی ہے امام احمدmاس کے بارے میں فرماتے ہیں [لیس بشیء]پھر فرماتے ہیںنافع سے یہ منکر روایات بیان کرتا ہے ،یحیی بن سعید اس کو ضعیف کہتے ہیں،امام نسائی کہتے ہیں [لیس بالقوی] امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ اس سے احتجاج نہ کیا جائے دیکھئے [تہذیب الکمال: ۲/۳۴۷ ترجمہ۳۱۷]اور کچھ اس کی تصحیح کرتے ہیں اس روایت میں بھی اس راوی نے اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت کی ہے امام ابوداؤد ہی اسی روایت کے آخر میں فرماتے ہیں [اسی حدیث کو زہری،معمر،مالک، ابن عیینہ،شعیب بن ابو حمزہ،لیث بن سعد وغیرہ نے بھی روایت کیا مگر انھوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ کن اوقات میں نماز پڑھی اور نہ تفصیل بیان کی ]دیکھئے سنن ابوداؤد: ۱/۱۵۱تحت حدیث۳۹۴،معلوم ہوا کہ اسامہ بن زید اللیثی نے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے لہٰذا یہ روایت اصول حدیث کے مطابق قبول نہیں اس کے مقابلے میں ہم اس صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں [حضرت رافع بن خدیجhبیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ aنے ارشاد فرمایاصبح کو خوب روشن کیا کرو پس بے شک اس میں تمہارے لئے زیادہ اجر یا زیادہ ثواب ہے ] ناصر الدین البانی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا(۱)سنن ابوداؤد:ح۴۲۴ (۲)سنن ترمذی:ح۱۵۴(۳)سنن ابن ماجہ:ح۶۷۲ (۴)مسند احمد:ح۱۵۸۵۷(۵)صحیح ابن حبان:ح۱۴۹۰ (۶)مسند حمیدی:ح۴۳۴)۲۷)ستائیسویں نمبر پر تین روایتیں ،سنن ترمذی ،استذکاراور سنن الکبرٰی بیہقی کے حوالے سے لکھیں کہ نبی a بسم اللہ جہرًاپڑھتے تھے اور اس کو حسن لذاتہ قرار دیا (الحدیث شمارہ:۱۰۶ص۴۸)جواب:ان روایتوں میںایک راوی ابو خالد البصری ازھر بن سنان القرشی ہے جو کہ ضعیف راوی ہے جس کو امام یحیی بن معین نے [ لیس بشیء] کہا،عقیلی نے اس کی حدیث کو وہم قرار دیا ،ابن عدی نے اس کو منکر قرار دیا،ابن حبان نے کہا قلیل الحدیث ہے اور منکر روایتیں بیان کرتا ہے ابن شاہین نے اس کو ضعفاء میں شمار کیا ،امام ساجی نے بھی اس کو ضعیف قرار دیادیکھئے [تہذیب الکمال: ۲/۳۲۶رقم۳۰۹،تہذیب التہذیب: ۱/۱۷۹رقم۳۸۴] اس کے علاوہ اس روایت کو البانی نے بھی ابو خالد کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے (سنن ترمذی:ح۲۴۵)اب قارئین بتائیں کہ یہ روایت حسن لذاتہ کیسےہوگئی یہی زبیرعلی زئی کا کمال ہے جبکہ ہم اس کے مقابل صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں [حضرت انس hبیان فرماتے ہیں کہ نبی aابو بکراور عمرiالحمد للہ رب العالمین کے ساتھ نماز کا آغاز کرتے اور وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ قرأت کے شروع میں پڑھتے اور نہ آخر میں (صحیح مسلم: ۲/۱۲رقم ۹۱۸)اس طرح حضرت انسhسے روایت ہے کہ حضور aابو بکر ،عمراور عثمان غنیjکے پیچھے نماز پڑھی ان میں سے کسی کی میں نے اونچی آواز سے بسم اللہ نہیں سنی (سنن نسائی : ۲/۱۳۵رقم۹۰۷قال البانی صحیح ) اسی طرح ایک حسن روایت میں ہے [حضرت عبداللہ بن مغفل hبیان کرتے ہیں کہ یہ بدعت ہے اپنے آپ کو اس سے بچا میں نے رسول اللہ aکے کسی صحابی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا ہے ](سنن ترمذی: ۲/۱۲رقم۲۴۴قال الترمذی حسن،مسند احمد: ۴/۸۵رقم۱۶۸۳۳ قال شعیب اسنادہ حسن فی الشواہد،سنن ابن ماجۃ: ۲/۱۲رقم ۸۱۵)۲۸) اٹھائیسویں روایت عبدالرحمن بن ابزیhکی لکھی کہ حضرت عمر hنے بسم اللہ جہرًا پڑھی،اس کے بعد لکھا کہ احمد یار نعیمی بریلوی نے لکھا ہے ’’لہٰذا یہ حدیث شاذہے اور احادیث مشہورہ کے مقابل حدیث شاذ قابل عمل نہیں ہوتی‘‘ (الحدیث شمارہ:۱۰۶ص۴۸)جواب:معلوم نہیں زبیر علی زئی کو مرچیں کیوں لگیں احمد یار خان نعیمی mکے اس روایت کو شاذکہنے پر ،جبکہ حقیقت تو یہی ہے کیونکہ۲۷ نمبر کے تحت میں نے صحیح روایات نقل کیں کہ حضور aابوبکرو عمر iبسم اللہ اونچی آواز سے نہیں پڑھتے تھے،اسی طرح حضرت انس hسے بھی ایک اور روایت ہے دیکھئے [مصنف ابن ابی شیبہ: ۱/۴۱۱رقم ۴۱۶۷تحقیق محمد عوامہ)لہٰذا یہ روایت حدیث صحیحہ اور مشہورہ کے مخالف کیسے قبول کی جاسکتی ہے ۲۹)انتیسویںروایت ابن عمرhکی لکھی کہ وہ جو آدمی رکوع سے پہلے اوررکوع کے بعد رفع یدین نہ کرتا تو اسے کنکریاں مارتے ،آگے لکھتے ہیں کہ ولید بن مسلم صحیحین کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ صدوق ہیں (الحدیث شمارہ:۱۰۷ص۱۶)جواب:ولید بن مسلم اس روایت میں متفرد ہے اور ولید بن مسلم کثیر غلطیاں بھی کرتا ہے چنانچہ :,امام احمد mفرماتے ہیں ’’کثیر الخطاء‘‘ [تہذیب التہذیب: ۱۱/۱۳۵]-ابو مسہر غسانیmکہتے ہیںکہ وہ کذابین کی روایات اوزاعی سے لے کر ان کی تدلیس کرتا تھا [تہذیب التہذیب: ۱۱/۱۳۵].امام احمد mہی فرماتے ہیں کہ ولید بن مسلم ایسا مختلط ہوچکا تھا کہ ما سمع اور غیر ما سمع میں کوئی تمیز نہ رہی تھی [تہذیب التہذیب: ۱۱/۱۳۶]/امام ذہبی mولید بن مسلم کی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں ،رواتہ ثقات لکن منکر [تذکرۃ الحفاظ: ۲/۱۸۸]0علامہ ابن القیم ولید بن مسلم کی روایت کے متعلق لکھتے ہیں’’اس حدیث کو بڑے بڑے ائمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے ،امام بخاری ،ابو زرعہ،ترمذی،ابوداؤد ،شافعی،اور متأخرین میں ابن حزم نے،پھر لکھتے ہیں کہ اس روایت میں ولید بن مسلم کا تفرد ہے [تہذیب سنن ابی داؤد: ۱/۹۱]
(غالی غیر مقلد زبیر علی زئی کا جواب الجواب)