اتوار، 25 مارچ، 2018

دس بنیادی عقیدوں کا بیان


                  دس بنیادی عقیدوں کا بیان
)پہلا عقیدہ: ذات و صفات ِ باری تعالیٰ
اللہ تعالیٰ واحد ہے اپنی ربوبیت والوہیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ،کوئی اس کا ثانی نہیں،وہ تما م نقائص سے پاک ہے وہ ازلی ابدی قدیم ہے اور اس کی صفات بھی ایسی ہی ہیں سب کائنات کا بنانے والا،پالنے والاہے وہ موجودواحد ہے نہ کہ ایسا واحد جو کہ چند اجزاء سے مل کر بنا ہو جیسے انسان
(۲)دوسرا عقیدہ:حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے اعلیٰ ،سب سے اولیٰ 
اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد سب سے اعلیٰ واولیٰ ذات حضورنبی کریم رؤف الرحیم aکی ہے آپ بے مثل وبے مثال ہیںاللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نوازا،اللہ تعالیٰ نے وماکان ومایکون یعنی جو کچھ ہوچکا اور جو کچھ ہوگا سب کا علم عطاء فرمایا،اور آپaکواللہ تعالیٰ نے اپنا نائب مطلق بنایا،اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا تمام عالم ان کے ماتحت ہے ان کے تصرف میں ہے تمام جہان ان کامحکوم تمام زمین ان کی مِلک،جنت و نار کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ،جس کو جو ملا حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست ِاقدس سے ملاآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی جگہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک جس مٹی کو مس کررہا وہ عرش سے بھی افضل ہے
   (۳) تیسرا عقیدہ:حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے بعد تما م انبیاء ورسولوں اور ُمرسلین پر ایمان
اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء ،رسول اور مُرسلین بھیجے سب پرایمان لانا اور ان پر نازل شدہ کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی عزت وتکریم کو ماننا اور کوئی بڑے سے بڑا صحابی یا بڑے سے بڑا  ولی ان کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا ہے ان کی ادنیٰ سی گستاخی ایسے ہی کفر ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کفر ہے
(۴)چوتھا عقیدہ:اعلیٰ طبقہ ملائکہ مقربین 
انبیاء ومُرسلین کے بعد اعلیٰ طبقہ ملائکہ مقربین کا ہے ان میں سب سے بڑے چار فرشتے ہیں اور سب فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل ہیں ان کی ادنیٰ سی گستاخی کفر ہے حضرت جبرائیل نبیوں کی بارگاہ میں وحی لانے والے،حضرت میکائیل پانی برسانے والے اور روزی پہچانے والے ،حضرت اسرافیل  صور پھنکنے والے اورحضرت عزرائیل روح قبض کرنے والے
(۵)پانچواں عقیدہ: اصحاب سید المرسلین واہل بیت کرام
انبیاء وملائکہ مقربین کے بعد بڑی عزت وبڑی شان والے ،حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ و اہل بیت ہیںجن میں ازواج مطہرات،ودیگر اہل بیت حضرت علی حضرت فاطمہ وامام حسن  وامام حسین رضی اللہ عنہم اور ہر وہ مسلمان جس نے ایمان کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےچہرہ انور کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوا،ان سب صحابہ پر ایمان لانا اور ان کی عزت وتکریم کو بجا لانا،صحابہ کرام کا جب ذکر کرے تو خیر ہی کے ساتھ کرے ،حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے [اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اللہ تعالیٰ سے ڈرو، میرے اصحاب کے حق میں انہیں نشانہ نہ بنا لینا میرے بعد جو انہیں دوست رکھتا ہے میری محبت سے اسے دوست رکھتا ہے اور جو ان کا دشمن ہے میری عداوت سے ان کا دشمن ہے جس نے انہیں ایذادی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو گرفتار کرلے ] (جامع ترمذی: ۵/۴۶۳رقم۳۸۸۸)
(۶) چھٹا عقیدہ: عشرہ مبشرہ و خلفائے اربعہ
سب اہل بیت و صحابہ کرام میں افضل و اعلیٰ حضراتِ عشرہ مبشرہ ہیں وہ دس صحابی جن کی بشارت حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں سنا دی تھی یعنی حضرت ابو بکر صدیق،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی شیرخدا،حضرت طلحہ،حضرت زبیر،حضرت عبدالرحمن بن عوف ،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت سعید بن زید اورحضرت ابو عبیدہ بن الجراحj،پھر ان سب میں خلفائے اربعہ یعنی چاروں خلفاء حضرت ابوبکرصدیق،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی شیرخداjسب میں افضل ہیں سب کی شانیں جدا جدا ہیں
(۷)ساتواں عقیدہ:مشاجرات صحابہ کرام
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جن جنہوں نے اختلافات کیے اور جو واقعات رونما ہوئے مثلًا جنگ جمل میں حضرت طلحہ وحضرت زبیروحضرت عائشہ صدیقہ اور جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے مقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے ان میں حق بجانب حضرت علی رضی اللہ عنہ  ہیں باقی سب کی اجتہادی خطاء ہے اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں لیکن ان حضرات کے متعلق زبان کو طعن وتشنیع سے روکتے ہیں ،اور ان کے تنازعات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں اور ان کے اختلافات کو امام ابو حنیفہ وامام مالک و امام شافعی وامام احمدnجیسا اختلاف سمجھتے ہیں اور کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ ام المؤمنین طیبہ طاہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پرکوئی طعن کرے ،یہ تو اللہ ورسول کی گستاخی ہے ،اور حضرت طلحہ و زبیرjیہ تو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ،رہے حضرت امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  ان کا درجہ ان سب کے بعد ہے ان سے تو شہزادہ اکبر حضرت امام حسن  رضی اللہ عنہ  نے حسب ِبشارت حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح فرمالی اور ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی اب اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن دراصل امام حسن رضی اللہ عنہ  پر طعن ہے وہ توسب آپس میں محبت و پیار رکھنے والے ہیں
)آٹھواں عقیدہ:  امامت صدیق اکبررضی اللہ عنہ
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت مطلقہ کو امامتِ کبرٰی اور اس منصب پر فائز ہونے کوامام کہتے ہیں ،امام المسلمین حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام امور دینی ودنیوی میں حسبِ شرع تصرف عام کا اختیار رکھتا ہے اور غیر معصیت میںاس کی اطاعت تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہوتی ہے،اس امام کے لئے مسلمان آزاد،عاقل،بالغ،قادر اور قریشی ہونا لازم ہے ہاشمی علوی اور معصوم ہونا اس کی شرط نہیں یہ صرف روافض کا مذہب ہے ہم مسلمانانِ اہل سنت وجماعت کے نزدیک رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بعد خلافت وامامت حضرت صدیق اکبر کی قطعًا ،یقینًااور تحقیقًا ثابت ودرست رُشد وہدایت پر مبنی ہے نہ کہ غصب یا جبر سے حاصل کی ہے اور آپ ہی اسی کے حق دار تھے جس پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صریح ارشادات وسیع ہیں اس کے ساتھ ساتھ سب صحابہ کرام کا اس پر اجماع اورکسی ایک کابھی انکار ثابت نہیں ، اس کے بعد تینوں خلفاء اور آخر میں امام حسن ہیں 
(۹)نواں عقیدہ:ضروریاتِ دین
نصوصِ قرآنیہ جو اپنی مراد پر واضح ہوں اور احادیث ِمشہورہ متواترہ اور اجماعِ امت مرحومہ سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت ذات وصفات اور نبوت ِانبیاء ورسالت ومرسلین ،وحی رب العالمین وآسمانی کتب وملائکہ وجن وبعث حشر ونشر وقیامِ قیامت ،قضاء وقدر،وما کان ومایکون یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہوگا جنت کی لذتیں ،جس کو آنکھوں نے نہ دیکھا اور نہ کانوں نے سنااور جہنم کے عذاب جس کے تصورسے بھی روح کانپے،پل صراط،حوض کوثرکے متعلق جو کچھ ثابت ہے سب پر ایمان لائے اور اس کے خلاف کوئی نئے معنی نہ گھڑے جان لو کہ کوئی حدیث کا انکار کرے اور صرف قرآن کی بات کرے گمراہ ہے اور جو قرآن میں شبہ ڈالے تو حدیث کی پناہ لو اگر حدیث میں شبہ ڈالے تو ائمہ دین کی پناہ لو اس درجہ پر حق وباطل کھل جائے گا
(۱۰)دسواں عقیدہ: شریعت وطریقت
شریعت وطریقت دو مختلف ایک دوسرے سے جدا راہیں نہیں ہیں ،بلکہ بے اتباع ِ شریعت اللہ تعالیٰ تک رسائی ناممکن،شریعت ہی اصل ہے اور حق وباطل کے پرکھنے کی کسوٹی، شریعت راہ کو کہتے ہیں اور شریعتِ محمدیہcکا ترجمہ ہے محمد رسول اللہaکی راہ ،یہی وہ راہ ہے جو صراطِ مستقیم ہے ،یونہی طریق ،طریقہ،طریقت راہ کو کہتے ہیں نہ کہ پہنچ جانے کو،تو یقینًا طریقت بھی راہ ہی کا نام ہے اگر وہ شریعت سے جدا ہو تو بشہادت قرآن خدا تک نہ پہنچائے گی بلکہ شیطان کی طرف لے جائے گی ،جنت کی طرف نہ لے جائے گی بلکہ جہنم کی طرف لے جائے گی ،طریقت میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے وہ شریعت کے اتباع کا صدقہ ہے صوفی وہ جو اپنی خواہشوں کو شرع کے تابع کرے نہ کہ وہ صوفی ہے جو اپنی خواہش کے واسطے شریعت سے لڑائی کرے ،شریعت غذا ہے اور طریقت قوت،جب غذا ترک کی جائے گی تو قوت ختم ہوگی ،شریعت آنکھ ہے اور طریقت نظر آنکھ پھوڑ کر نظر کا رہنا ناممکن، توہین شریعت کفر ہے لہٰذا شریعت پر عمل کر کے ہی طریقت ملتی ہے ان دس عقیدوں کو سمجھ کر اس پر ایمان لاتا ہے وہ گمراہی سے دور ہے اورجو ان میں سے کسی ایک کا بھی انکاری ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہے لہٰذا ان دس عقیدوں کو مضبوطی سے تھامیے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصرہو آمین۔ (ماخوذ فتاوٰی رضویہ:  ۲۹/۳۴۰تا۳۸۹مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ لاہور)
    الداعی الی الخیر: مولانا ابو اسامہ ظفر القادری بکھروی 0344.7519992

ناصر الدین البانی کی کتاب ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘پر ایک نظر

                                                                بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

          ناصر الدین البانی کی کتاب ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘پر ایک نظر
                                                                                               تحریروتحقیق:ابو اُسامہ ظفر القادری بکھروی
علوم احادیث میں جہاں اہل علم نے قابل ستائش خدمات انجام دیں اور حدیث کی تحقیق و تخریج میں طویل وقت صرف کیا۔وہیں چند لوگ ایسے بھی سامنے آئے جنھوں نے احادیث پر عمل کرنے کے دعویٰ کے التزام میں ضعیف و موضوع روایت پر بھی عمل کرنے کو خود کی معراج سمجھ لیاہے۔چاہے اس روایت کا راوی متروک الحدیث ،چور،زانی ہی کیوں نہ ہو۔یہ فاسقین سے بھی روایت حاصل کر کے اُسے حدیث کے نام سے موسوم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔کیونکہ ان کے اس جال سے عام بھولے بھالے لوگ جو کہ حدیث کی تحقیق ،جرح و تعدیل سے ناواقف ہیں وہ ان کے دام تزویر میں آسانی سے پھنس سکتے ہیں کہ یہ تو حدیث سے مسئلے کو ثابت کر رہے ہیں۔اور اس کام کی ذمہ داری غیر مقلدین(اہلحدیث)کی جماعت نے اُٹھائی ہے جن کا عزم خود ساختہ اور جعلی حدیث کے جھانسہ میں عوام الناس کو راہ راست سے بھٹکانا ہے۔
انہی شخصیات میں غیر مقلدین کے ایک بڑے محقق جناب ناصر الدین البانی بھی ہیں۔اور موصوف وہ طوفانی محقق ہیں کہ جن کی طوفانی تحقیق نے احادیث صحاح کی مستحکم و مضبوط سندوں کو متزلزل کر کے زمرہ صحاح سے نکال پھینکا اور واہی تباہی راویوں کی روایتوں کو یکجا کر کے کمزور سندوں والی حدیثوں کا ذخیرہ جمع کر دیا اور اسکا نام رکھا’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘۔
محقق ناصر الدین البانی نے محدثین و فقہاء کی قدیم روش سے ہٹ کر تحقیق کی ایک جدا راہ نکالی اور کتب صحاح کی احادیث کو دو حصوں میں بانٹ دیا،ایک احادیث صحیحہ جو قابل عمل ہیں دوسرے احادیث ضعیفہ جو مردود و باطل ہیں۔جماعت غیر مقلدین میں ان کی بڑی پزیرائی ہوئی اور آج پوری جماعت میں ان کی تحقیق کا سکہ بڑی دھوم دھام سے رواں دواں ہے۔
تحقیق حدیث کے نام پر تحریف و تلبیس اور ائمہ حدیث ،ماہرین فن،جرح و تعدیل کی روایات ثابتہ ،ائمہ سے انحراف اور فکری کج روی کی ایک جھلک قارئین کی نذر کروں گا ۔ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ محقق موصوف نے تحقیق حدیث کے نام پر کس ہوشیاری و سفاکی کے ساتھ ان ضعیف راویوں کی روایات کو اپنی صحیح میں داخل کر دیا جن کے ضعف پر ائمہ حدیث کا اجماع ہے اور  جن کو ائمہ فن نے ناقابل اعتبار و احتجاج،متروک،مردود تسلیم کیا ہے۔ البانی صاحب نے اپنی کتاب ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ میں درج ذیل ضعیف و مردود راویوں کی روایتوں کو درج کیا ہے کہیں احتجاج کے طور پر تو کہیں استشہاد و متابعات کے طریقے پر۔
ان راویوں کے نام اور ساتھ میں البانی صاحب کی کتاب کا حوالہ لگا دیا گیا ہے ملاحظہ فرمایئے:
1)فرات بن السائب:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ‘‘۱/۷۹
امام نسائی کتاب الضعفاء والمتروکین طبع بیروت رقم ۴۸۸ میں فرماتے ہیں: متروک الحدیث۔
اسی طرح امام بخاری علیہ الرحمہ نے ’’تاریخ الکبیر‘‘ ۷/۱۲۹،اورکتاب ’’والضعفاء والمتروکین رقم ۲۹۷ طبع بیروت‘‘میں،ابن ابی حاتم نے’’الجرح والتعدیل‘‘۷/۷۹میں،امام ذہبی علیہ الرحمہ نے’’المیزان‘‘۳/۳۴۰ میں متروک الحدیث لکھا ہے۔
2)جابر الجعفی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘۱/۸۷
۱)امام نسائی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں!جابر بن یزید الجعفی متروک ،کوفی،کتاب الضعفاء ۹۸ طبع بیروت۔
۲)اسی طرح یحییٰ بن معین التاریخ ۳/۲۸۶
۳)ابن حنبل فی’’ عللہ‘‘ ۱/۶۱ (۴)امام بخاری نے ’’تاریخ کبیر‘‘میں ۱/۲۱۰،’’ تاریخ الصغیر‘‘ ۲/۹ والضعفاء الصغیر ۲۵ (۵)البسوی فی ’’معرفۃ والتاریخ‘‘ ۳/۳۶
۶)العقیلی فی ’’الضعفاء الکبیر ترجمہ‘‘ ۲۴۰ (۷)ابن ابی حاتم فی’’ الجرح والتعدیل ‘‘۱/۴۹۷
۸)ابن حبان فی ’’المجروحین‘‘ (۹)ابن عدی فی ’’الکامل فی الضعفاء‘‘ ۲/۵۳۷
۱۰)الدارقطنی فی’’الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۱۴۲ (۱۱)الذہبی فی’’المیزان‘‘۱/۳۷۹
3)أصرم بن حوشب:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘۱/۱۲۲
۱)امام نسائی نے کتاب الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۶۶ کے تحت فرمایا متروک الحدیث۔
۲)ابن حنبل فی عللہ ۱/۲۴۲ (۳)البخاری فی ’’التاریخ الکبیر‘‘۱/۵۶ و التاریخ الصغیر ۲/۲۹۰ والضعفاء الصغیر ترجمہ نمبر ۲۱ (۴)العقیلی فی’’الضعفاء الکبیر ترجمہ‘‘ ۱۴۲
۵)ابن ابی حاتم فی’’ الجرح والتعدیل ‘‘۱/۳۳۶ (۶)ابن حبان فی المجروحین ۱/۱۸۱
(۷)ابن عدی فی ’’الکامل فی الضعفاء ‘‘۱/۳۹۴
۸)الدارقطنی فی الضعفاء والمتروکین ترجمہ۱۱۶ (۹)الذہبی فی ’’المیزان‘‘۱/۲۷۲
۱۰)ابن حجر عسقلانی فی اللسان المیزان ۱/۱۹۳
4)لیث بن أبی سلیم:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘۲/۶۳۰،۳/۲۹،۵/۱۸
۱)امام نسائی فرماتے ہیں ضعیف دیکھئے الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۵۱۱
اسی طرح درج ذیل محدثین نے بھی اسکو ضعیف قرار دیا ہے:
۱)یحییٰ بن معین فی’’تاریخہ‘‘۲/۵۰۱ (۲)بخاری فی ’’التاریخ الکبیر‘‘۴/۲۴۶
۳)العقیلی والضعفاء الکبیر ترجمہ ۱۵۶۹ (۴)ابن أبی حاتم فی’’الجرح والتعدیل‘‘ ۳/۱۷۷
(۵)ابن حبان فی ’’المجروحین‘‘۲/۲۳۱
۶)ابن عدی فی’’الکامل ۶/۲۱۰۵ (۷)الذہبی فی المیزان ۳/۴۲۰
۸)ابن حجر عسقلانی فی التہذیب التہذیب ۸/۴۶۵ و فی تقریب ۲/۱۳۸
5)اسماعیل بن سلیمان ألازرق التمیمی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۲/۶۳۱
امام نسائی فرماتے ہیں!متروک الحدیث ،دیکھئے:کتاب الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۳۷ درج ذیل محدثین نے بھی اسماعیل بن سلیمان ألارزق کو ضعیف قرار دیا ہے:
۱)یحییٰ بن معین فی’’تاریخہ‘‘۳/۲۸۶ (۲)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۱/۳۵۷
۳)البسوی فی المعرفۃ والتاریخ ۳/۳۶ (۴)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ ۹۲
۵)ابن أبی حاتم فی ’’الجرح والتعدیل‘‘۱/۱۷۶
۶)ابن حبان’’المجروحین۱/۱۲۰ (۷)ابن عدی’’الکامل فی الضعفاء‘‘۱/۲۷۶
۸)الدارقطنی فی’’الضعفاء والمتروکین ترجمہ۷۶ (۹)الذہبی فی’’المیزان‘‘۱/۲۳۲
۱۰)ابن حجر عسقلانی فی’’التہذیب‘‘۱/۳۵۴ وفی تقریب التہذیب ۱/۷۰
6)یزید بن ربیعہ الدمشقی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘۱ /۷۷،۲/۶۳۱
امام نسائی فرماتے ہیں!متروک الحدیث۔دیکھئے:الضعفاء والمتروکین ترجمہ۶۴۳۔
درج ذیل محدثین نے بھی ضعیف قرار دیا ہے:
۱)البخاری فی’’التاریخ الکبیر ۴/۳۳۲ والتاریخ الصغیر ۲/۱۵۸
۲)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ۱۹۸۹ (۳)ابن أبی حاتم فی الجرح والتعدیل ۴/۲۶۱
۴)ابن حبان فی المجروحین۳/۱۰۴ (۵)ابن عدی فی الکامل ۷/۲۷۱۴
۶)الدارقطنی فی ’’الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۵۹۰ (۷)الذہبی فی’’المیزان‘‘۴/۴۲۲
۸)ابن حجر عسقلانی فی’’اللسان المیزان ۶/۲۸۶
7)یحییٰ بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن موھب التیمی المدنی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘۲/۶۳۶
درج ذیل محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
۱)یحییٰ بن معین فی’’التاریخ‘‘۳/۲۸۰
(۲)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۴/۲ و’’ تاریخ الصغیر ‘‘۲/۴ ’’والضعفاء الصغیر ‘‘۱۲۰
۳)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ ۲۰۴۰
(۴)ابن ابی حاتم فی’’الجرح والتعدیل‘‘۴/۲/۱۶۷
۵)ابن حبان فی’’المجروحین‘‘۳/۱۲۱ (۶)ابن عدی فی ’’الکامل‘‘۷/۲۲۵۹
۷)الذہبی فی ’’المیزان الاعتدال‘‘ ۴/۳۹۵
۸)ابن حجر عسقلانی فی ’’التہذیب‘‘ ۱۱/۲۵۲ و فی’’التقریب التہذیب‘‘ ۲/۳۵۳
8)عباد بن کثیر الرملی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۲/۶۱۷
۱)امام نسائی فرماتے ہیں ’’لیس بثقۃ‘‘درج ذیل محدثین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
۲)یحییٰ بن معین فی’’التاریخ‘‘۴/۸۶
۳)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۲/۲۷۰ و’’ تاریخ الصغیر ‘‘۲/۴ ’’والضعفاء الصغیر ‘‘۹۱
۴)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ ۱۳۹۶
۵)ابن ابی حاتم فی’’الجرح والتعدیل‘‘۳/۲۱۳
۶)ابن حبان فی’’المجروحین‘‘۲/۱۸۹ (۷)ابن عدی فی ’’الکامل‘‘۵/۱۶۶۴
۸)الدار قطنی فی ’’الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۴۲۴
۹)الذہبی فی ’’المیزان‘‘۲/۳۸۵
۱۰)ابن حجر عسقلانی فی ’’التہذیب‘‘ ۵/۱۲۷ و فی’’التقریب التہذیب‘‘ ۱/۳۹۸
9)اسماعیل بن عیاش:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۴/۵،۵/۲۱
۱)امام نسائی فرماتے ہیں:ضعیف،دیکھئے:’’الضعفاء والمتروکین ‘‘ترجمہ ۳۴
درج ذیل محدثین نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔
۲)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۱/۳۶۹ (۳)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ۱۰۲
۴)تہذیب الکمال ۳/۱۶۳ (۵)ابن ابی حاتم فی ’’الجرح والتعدیل‘‘۲/۱۹۱
۶)یحییٰ بن معین فی’’التاریخ‘‘۲/۳۶ (۷)ابن عدی فی ’’الکامل فی الضعفاء‘‘۱/۲۸۸
۸)الذہبی فی ’’المیزان الاعتدال‘‘۱/۲۴۰
۹)ابن حجر عسقلانی فی ’’التقریب‘‘ ۱/۹۸ترجمہ۴۷۴ و فی’’ التہذیب‘‘ ۱/۳۲۱
10)قیس بن ربیع کوفی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۴/۷
۱)امام نسائی فرماتے ہیں:’’متروک الحدیث ‘‘ الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۴۹۹
دیگر محدثین نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے۔دیکھئے:درج ذیل کتب۔
۲)یحییٰ بن معین فی’’التاریخ‘‘۲/۴۹۰ (۳)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۴/۱۵۶
۴)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ۱۵۲۷ (۵)ابن ابی حاتم فی ’’الجرح والتعدیل‘‘۷/۹۶
۶)ابن حبان فی’’المجروحین‘‘۲/۲۱۸ (۷)ابن عدی فی ’’الکامل‘‘۶/۲۰۶۳
۸)الذہبی فی ’’المیزان الاعتدال‘‘۳/۳۹۳
۹)ابن حجر ’’تہذیب التھذیب‘‘ ۸/۳۹۱ و ’’التقریب ‘‘ ۲/۱۲۸
11)عبد الرحمن بن زیاد بن أنعم الافریقی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۴/۴۴۵
۱)امام نسائی فرماتے ہیں:’’ضعیف ‘‘ الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۳۶۱
درج ذیل محدثین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
۲)یحییٰ بن معین فی’’التاریخ‘‘۲/۴۹۰ (۳)محمد بن عثمان فی ’’سوالاتہ‘‘ ترجمہ۳۳۰
۴)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۳/۲۸۳ و’’ التاریخ الصغیر ‘‘۲/۱۲۳ ’’والضعفاء الصغیر ‘‘۷۰
۵)البسوی فی’’المعرفۃ والتاریخ‘‘ ۲/۲۳۳
(۶)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ۹۲۷ (۷)ابن ابی حاتم فی ’’الجرح والتعدیل‘‘۲/۲۳۴
۸)ابن حبان فی’’المجروحین‘‘۲/۵۰ (۹)ابن عدی فی ’’الکامل‘‘۴/۱۵۹۰
۱۰)الدار قطنی فی ’’الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۳۳۷
۱۱)الذہبی فی ’’المیزان الاعتدال‘‘۲/۵۶۲ (۱۲)المغنی ۲/۳۸۰
۱۳)ابن حجر عسقلانی فی ’’تقریب التہذیب‘‘ ۱/۵۶۹و ’’تہذیب‘‘ ۶/۱۷۳
12)نصر بن طریف أبوجزی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۴/۴۴۶
۱)امام نسائی فرماتے ہیں:’’متروک الحدیث ‘‘ الضعفاء والمتروکین ترجمہ۵۹۳
درج ذیل محدثین نے بھی اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔دیکھئے:
۲)یحییٰ بن معین فی’’تاریخہ‘‘۴/۹۱ (۳)محمد بن عثمان فی ’’سؤالاتہ‘‘ ترجمہ۳۷
۴)احمد بن حنبل فی’’عللہ‘‘۱/۵۳
۵)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۴/۱۰۵ و’’ تاریخ الصغیر ‘‘۲/۱۵۷
۶)البسوی فی’’المعرفۃ والتاریخ‘‘ ۲/۱۲۳ (۷)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ ۱۸۴۹
۸)ابن ابی حاتم فی ’’الجرح والتعدیل ۴/۴۶۶
۹)ابن عدی فی الکامل ۷/۲۴۹۶ وفی المجروحین ۳/۵۲
۱۰)دارقطنی فی الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۵۴۴
۱۱)ابن حجر فی اللسان المیزان ۶/۱۵۵
13)عبد اللہ بن خراش:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۵/۴۴۶
۱)امام نسائی فرماتے ہیں ’’لیس بثقۃ‘‘الضعفاء والمتروکین ترجمہ ۳۲۶
اسکے علاوہ درج ذیل محدثین نے اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔
۲)امام بخاری ’’تاریخ الکبیر‘‘۳/۸۰
۳)العقیلی نے ’’الضعفاء الکبیر ترجمہ ۷۹۷ میں
۴)ابن عدی نے ’’الکامل‘‘۴/۱۵۲۵ میں الذہبی نے ’’المیزان‘‘۲/۴۲۳ میں
14)الربیع بن صبیح البصری:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۶/۲۲۷
اسکے ضعف کے لیے دیکھئے درج ذیل کتب۔
۱)یحییٰ بن معین فی’’تاریخہ‘‘۴/۹۱
۲)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۱/۲۷۸ والضعفاء والمتروکین ترجمہ ۱۱۶
۳)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ ۴۸۳ ۴)ابن حبان فی’’المجروحین‘‘۱/۲۹۶
۵)الذہبی فی ’’المیزان‘‘ ۲/۴۱
(۶)ابن حجر عسقلانی فی ’’التہذیب‘‘ ۳/۲۴۷ و فی’’التقریب التہذیب ‘‘۱/۲۴۵
15)اسماعیل بن مسلم مکی:
’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ ۶/۵۰۵
۱)امام نسائی فرماتے ہیں:’’متروک الحدیث ‘‘ الضعفاء والمتروکین ترجمہ۳۶
درج ذیل محدثین نے بھی اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔
۲)یحییٰ بن معین فی’’تاریخہ‘‘۴/۷۰
۳)البخاری فی’’التاریخ الکبیر‘‘۱/۳۷۲ و’’ تاریخ الصغیر ‘‘۲/۸۴ ’’والضعفاء الصغیر ‘‘۱۷
۴)البسوی فی’’المعرفۃ والتاریخ‘‘ ۳/۶۶
۵)العقیلی فی الضعفاء الکبیر ترجمہ ۱۰۴ (۶)ابن أبی حاتم فی الجرح والتعدیل ۱/۱۹۸
۷)ابن حبان فی ’’المجروحین ۱/۱۹۸ (۸)ابن عدی’’الکامل فی الضعفاء ۱/۲۷۹
۹)الدارقطنی فی ’’الضعفاء والمتروکین ‘‘ترجمہ ۷۷
۱۰)الذہبی فی’’المیزان الاعتدال‘‘۱/۲۴۸
۱۱)ابن حجر عسقلانی فی تقریب ۱/۹۹ و تہذیب ۱/۳۳۱
۱۲)’’تہذیب الکمال ‘‘۳/۱۹۸ ترجمہ ۴۸۳
٭٭٭٭ ٭٭٭٭ ٭٭٭٭

































































































































حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دُ ور سے دُرود و سلام سماعت فرمانا



     حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دُ ور سے دُرود و سلام سماعت فرمانا
       
                                                                              تحقیق و تحریر:ابو اسامہ ظفرالقادری بکھروی
نحمدہ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم۔امابعد!
اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ دور و نزدیک سے درود و سلام سماعت فرماتے ہیں۔حدیث شریف ملاحظہ فرمایئے:
۱) ’’قال الطبرانی حدثنا یحییٰ بن ایوب العلاف حدثنا سعید بن ابی مریم حدثنا یحیی بن ایوب عن خالد بن یزید عن سعید بن ابی ھلال عن ابی الدرداء قال :قال رسول اللّٰہ ﷺ اکثر وا الصّلوٰۃ علی یوم الجمعۃ فانہ یوم مشھود تشھدہ الملائکۃ لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہٗ ،حیث کان ۔قلنا و بعد وفاتک؟قال وبعد وفاتی۔ان اللّٰہ حرم علی الارض ان تأکل اجساد الانبیاء‘‘
ترجمہ: بسند مذکور:رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں !جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ یہ حاضری کا دن ہے ۔اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔تم میں کوئی شخص بھی مجھ پر درود شریف پڑھتا ہے اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔ہم نے عرض کی:آپ کے وصال کے بعد بھی؟فرمایا! ہاں وصال کے بعد بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے اجسام کھانا حرام فرما دیا ہے
(جلاء الافھام ص نمبر ۱۲۷مطبوعہ کویت)
۲)امام حافظ محمد عبد اللہ بن ناصر الدین دمشقی نے بھی امام طبرانی کے حوالہ سے یہی الفاظ نقل کیے ہیں:’’لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان‘‘
(صلاۃ الکیٔب بوفاہ الحبیب ص ۱۸۷)
۳)حضرت امام محمد بن یوسف الصالح الشامی نے امام طبرانی کے حوالہ سے یہی الفاظ نقل کیے ہیں: (سبل الھدیٰ والرشاد ۱۲/۳۵۸)
۴)علامہ موسیٰ محمد علی صاحب فرماتے ہیں!’’لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان‘‘
(حقیقۃ التوسل ص۵۴۰ طبع بیروت)
۵)امام حافظ محمد بن عبد الرحمن السخاوی نے بھی اس روایت کو نقل کیالکھتے ہیں!
’’وأخرجہ الطبرانی فی ’’الکبیر‘‘ بلفظ’’أکثروا الصلاۃ علی یوم الجمعۃ،فانہ یوم مشھود تشھد الملائکۃ،لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان۔قلنا وبعد وفاتک؟ قال:وبعد وفاتی،ان اللہ تعالیٰ حرم علی الارض أن تاکل أجساد الانبیاء‘‘۔
(القول البدیع ۳۳۴ طبع دوم المدینۃ المنورہ السعودی العربیۃ)
۶)علامہ ابن حجر ھیتمی المکی نے بھی طبرانی کے حوالہ سے اس روایت کونقل کیا ہے:
(الجوھر المنظم ۲۱ طبع مصر)
۷)شارح بخاری امام شمس الدین محمد قسطلانی نے بھی انھی الفاظ کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا ہے:
  (مسالک الحنفاء ۲۶۲)
۸)امام یوسف بن اسماعیل نبھانی نے بھی اس روایت کو انھی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے
(حجۃ اللہ علی العالمین ص۷۱۳)
۹)مولانا محمد انوار اللہ قادری فاروقی حیدر آبادی خلیفہ مجاز الحاج امداد اللہ مہاجر مکی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے: (انوار احمدی ص۷۶)
۱۰)علامہ ابن حجر مکی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے: (الدر المنضود ص۱۱۷)
 سند کا تعارف:
۱۔الطبرانی ابو القاسم ،سلیمان بن احمد بن ایوب:
اس روایت کے پہلے راوی امام طبرانی ہیں۔جو تمام کے نزدیک ثقہ ہیں:
۲۔یحییٰ بن ایوب العلاف بن بادی الخولانی مولاھم ابو زکریا المصری:
امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں!’’قال النسائی صالح،لابأس بہ‘‘
(تھذیب التھذیب ۱۱/۱۸۵)
یحییٰ بن ایوب العلاف المصری کا ترجمہ درج ذیل کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے:
۱)سیر اعلام النبلاء ۱۳/۴۵۳ (۲)الکاشف ۲/۳۶۱ الترجمہ ۱۶۳۵
۳)تہذیب التہذیب ۴/۱۴۹ (۴)العبر ۲/۸۳
۵)المعجم المشتمل الترجمہ ۱۱۳۴ (۶)تاریخ الاسلام ۲۳۴
۷)نھایۃ السؤل۴۲۳ (۸)تقریب التھذیب الترجمہ ۷۵۵۹
۹)شذرات الذھب ۲/۲۰۲ (۱۰)تھذیب الکمال ۳۱/۲۳۰
۱۱)خلاصۃ تذھیب الکمال ۴۲۱ (۱۲)تذھیب تھذیب الکمال ۹/۴۱۸ الترجمہ۷۵۵۵
۳۔سعید بن ابی مریم ھو سعید بن الحکم بن محمد سالم الجمعی المصری:
امام ذہبی ’’تذکرۃ الحفاظ۱/۲۹۸‘‘ طبقہ ۷ میں لکھتے ہیںکہ!’’امام ابودائود فرماتے ہیں:یہ میرے نزدیک حجت ہیں۔عجلی کہتے ہیں ثقہ ہیں۔ابن یونس کہتے ہیں مشہور فقیہ تھے۔۱۴۴ھجری میں پیدا ہوئے اور ۲۲۴ھجری میں وفات پائی میں(امام ذہبی) کہتا ہوں ثقہ اور کثیر الحدیث تھے۔
ان کا شاندار ترجمہ دیکھنے کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمایئے:
۱)تاریخ الکبیر للبخاری ۳/الترجمہ ۵۴۷ (۲)تاریخ الصغیر للبخاری ۲/۳۵۵
۳)ثقات ابن حبان ۱/۱۵۶ (۴)ثقات العجلی ۱۸
۵)تہذیب الکمال ۱۰/۳۹۱ (۶)شذرات الذھب ۲/۵۳
۷)الکنی لمسلم ۹۸ (۸)المعرفۃ لیعقوب ۱/۲۰۷
۹)الجرح والتعدیل ۴/۱۳ ،الترجمہ۴۹ (۱۰)رجال بخاری للباجی ۱۵۵
۱۱)السابق واللاحق ۲۹۹ (۱۲)الجمع لابن القیسرانی ۱/۱۶۴
۱۳)المعجم المشتمل الترجمہ ۳۶۰ (۱۴)تاریخ اسلام ۱۹۸
۱۵)سیر أعلام النبلاء ۱۰/۳۲۷ (۱۶)الکاشف۱/۴۳۲ ،الترجمہ۱۸۶۸
۱۷)العبر ۱/۳۹۰ (۱۸)تذھیب التھذیب ۲/۱۶
۱۹)اکمال مغلطائی ۲/۸۱ (۲۰)نھایۃ السؤل ۱۱۵
۲۱)حسن المحاضرہ ۱/۳۷۶ (۲۲)خلاصۃ الخزرجی۱/الترجمہ ۲۴۳۳
۴)یحییٰ بن ایوب ابو العباس الغافقی المصری:
یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’ثقہ،،
(تاریخ ابن معین روایۃ الدارمی۱؍۱۹۶رقم۷۱۹،وابن محرزص۳۲،وابن طہمان رقم۱۲۱)
اس کے علاوہ یحییٰ بن ایوب کی توثیق درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں:
۱)تقریب التہذیب۲؍۲۹۷رقم ۷۵۳۸ (۲)تہذیب التہذیب۱۱؍۱۸۶
۳)میزان الاعتدال۴؍۳۶۲رقم۹۴۶۲ (۴)العبر۱؍۱۸۶ طبع بیروت
۵)الکاشف۲؍۳۶۲رقم۶۱۳۷ (۶)تذکرۃ الحفاظ۱؍۱۶۷رقم۲۱۲
۷)سیر اعلام النبلاء۸؍۵رقم۱ (۸)رجال صحیح مسلم لابن منجویہ صفحہ۱۹۳
۹)الثقات لابن حبان۷؍۶۰۰رقم۱۱۶۵۶ (۱۰)الثقات للعجلی۲؍۳۴۷رقم۱۹۶۲
۱۱)ثقات ابن شاہین الترجمہ۱۵۹۴ (۱۲)طبقات الخلیفۃ۱؍۵۴۳رقم۲۷۹۵
۱۳)تاریخ الکبیر للبخاری۸؍۲۶۰رقم۲۹۱۹ (۱۴)الکنی والاسماء للمسلم۱؍۲۴۹۱۶۱۰
۱۵)التعدیل والتجریح للباجی۳؍۱۲۰۳رقم۱۴۴۸ (۱۶)تہذیب الکمال۳۱؍۲۳۳رقم۶۷۹۲
۱۷)اقوال الامام احمد بن حنبل فی رجال الحدیث۴؍۱۰۸رقم۳۴۶۶
۵)خالد بن یزید الجمعی أبو عبد الرحیم البربری ثم المصری:
امام ابن حجر عسقلانی لکھتے’’تھذیب التھذیب ۳/۱۲۹ میں لکھتے ہیں!’’قال ابو زرعہ والنسائی ثقہ وقال أبو ھاتم لاباس بہ۔۔۔۔ذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال العجلی ثقۃ وقال یعقوب بن سفیان مصری ثقۃ‘‘۔
خالد بن یزید کا شاندار ترجمہ دیکھنے کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمایئے:
۱)تاریخ یحییٰ بروایۃ الدوری ۲/۱۴۶    (۲)ابن طھمان رقم ۳۷۱
(۳)ابن جنید ۲۵ (۴)تاریخ الکبیر للبخاری ۳/۱۸۰ ،الترجمہ ۶۱۲
(۵)المعرفۃ لیعقوب ۱/۱۲۰ (۶)أبو زرعۃ الرازی ۳۶۱
۷)الجرح والتعدیل ۳/۳۵۸،الترجمہ ۱۶۱۹(۸)ثقات ابن حبان ۱۱۵
۹)اسماء دار قطنی الترجمہ ۳۷۲ (۱۰)سنن دارقطنی ۱/۳۰۵
۱۱)رجال بخاری للباجی ۵۴ (۱۲)الجمع لابن القیسرانی ۱/۱۲۱
۱۳)سیر أعلام النبلاء ۹/۴۱۴ (۱۴)تذھیب التھذیب ۱/۱۹۵
۱۵)الکاشف۱/۳۷۰ ،الترجمہ ۱۳۶۷ (۱۶)اکمال مغلطائی ۱/۳۲۴
۱۷)نھایۃ السؤل ۸۵     (۱۸)خلاصۃ الخزرجی ۱/الترجمہ ۱۸۱۶
۱۹)شذرات الذھب ۱/۲۰۷ (۲۰)تھذیب الکمال ۸/۲۰۸
۲۱)تذھیب تھذیب الکمال ۳/۱۱۳ ،الترجمہ ۱۶۸۵
۶)سعید بن ابی ھلال اللّیتی أبو العلاء المصری:
تہذیب الکمال ۱۱/۹۶ میں لکھتے ہیں!’’قال أبو حاتم لا بأس بہ ۔ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات و ثقہ ابن سعد،والعجلی وابن خزیمہ والدارقطنی والبیہقی والخطیب وابن عبد البر وغیر ھم وقال الساجی صدوق‘‘
ترجمہ:ابو حاتم نے فرمایا ’’لابأس بہ ‘‘ابن حبان نے کتاب الثقات میں اس کا ذکر کیا اور ابن سعد،العجلی،ابن خزیمہ،دار قطنی،بیہقی،خطیب بغدادی اور ابن عبد البر وغیرہ نے ثقہ فرمایا۔امام ساجی نے کہا سچا ہے
سعید بن ابی ھلال کا مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں دیکھئے:
۱)طبقات ابن سعد ۷/۵۱۴ (۲)تاریخ الکبیر للبخاری ۳/الترجمہ ۱۷۳۶
۳)ثقات العجلی صفحہ ۱۹     (۴)ابو زرعہ الرازی ۳۶۱
۵)میزان الاعتدال ۲/۱۶۲ ،الترجمہ۳۲۹۰ (۶)تذھیب التہذیب ۲/۳۰
۷)الکاشف ۱/۴۴۵،الترجمہ ۱۹۷۰ (۸)سیر أعلام النبلاء ۶/۳۰۳
۹)تاریخ الاسلام ۵/۲۵۶ (۱۰)الجمع لابن القیسرانی ۱/۱۷۲
۱۱)السابق واللاحق ۳۱۵ (۱۲)رجال للبخاری للباجی ۱۵۹
۱۳)رجال صحیح مسلم لابن منجویہ ۶۰ (۱۴)سنن دار قطنی ۱/۳۰۵
۱۵)وفیات ابن زبر ص۴۲ (۱۶)ثقات ابن حیان ۱/۱۶۳
۱۷)المراسیل ص ۷۵ (۱۸)الجرح والتعدیل ۴/۷۱،الترجمہ ۳۰۱
۱۹)تاریخ أبی زرعہ الدمشقی ۴۴۵ (۲۰)المعرفۃ للیعقوب ۱/۱۲۱
۲۱)الاکمال مغلطائی ۲/۹۸ (۲۲)مراسیل العلائی ۲۴۵
۲۳)نھایۃ السول ۱۲۰ (۲۴)تھذیب التھذیب ابن حجر ۴/۹۴
۲۵)خلاصۃ الخزرجی ۱/الترجمہ ۲۵۵۳ (۲۶)شذرات الذھب ۱/۱۹۱
۷)حضرت ابی الدرداء رضی اللّٰہ عنہ:
تمام صحابہ بالاتفاق ثقہ ہیںلہذا یہ حدیث صحیح ہے ۔اور کم از کم حسن درجہ کی ہے۔جس میں یہ صراحت موجود ہے کہ نبی ﷺ ہمارا درود و سلام خود سماعت فرماتے ہیں بعد از وصال بھی۔
حضور ﷺ کا درود و سلام سماعت فرمانا اور جواب عطا فرمانا:
’’حدثنا محمد بن عوف نا المقری نا حیوۃ عن ابی صخر حمید بن زیاد عن یزید بن عبد اللّٰہ بن قسیط عن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال ما من احد یسلم علی الا رد اللّٰہ علی روحی حتی ارد علیہ السلام‘‘۔
ترجمہ:سند مذکور۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا! کوئی ایسا نہیں جو مجھے سلام کرے مگر اللہ تعالیٰ میری روح کو واپس لوٹا دیتا ہے۔تاکہ میں اس کے سلام کاجواب دوں۔
۱)سنن ابو داؤد ۱/۲۸۶ (۲)مسند احمد بن حنبل ۲/۵۲۷
۳)شعب الایمان ۲/۲۱۷ (۴)مسند اسحاق بن راھویہ ۱/۴۵۳
۵)سنن الکبریٰ بیہقی ۵/۲۴۵ (۶)سنن الصغیر ۲/۲۱۰
۷)المعجم الاوسط للطبرانی ۳/۳۸۷(۸)تاریخ اصبھان لابی نعیم ۲/۳۵۳
۹)الرسائل القشیریہ لابی قاسم ص۱۶(۱۰)الترغیب والترھیب ۲/۴۹۹
۱۱)فضائل الاعمال للضیاء المقدسی ۷۹۰ (۱۲)القول البدیع ۳۲۸
اس حدیث کا صحیح و حسن ہونا:
۱…امام سخاوی فرماتے ہیں!’’باسناد حسن،بل صححہ النووی‘‘
(القول البدیع ۳۲۸)
۲…امام نووی فرماتے ہیں!’’رواہ ابوداؤد بسند صحیح‘‘
اسکو ابو دائود نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
(المجموع شرح المھذب للنووی ۸/۲۷۲)
مزید فرماتے ہیں!
’’وروینا فیہ ایضاً باسناد صحیح عن ابی ھریرۃ‘‘حضرت ابو ھریرہ سے اس بارے میں صحیح سند سے روایت کی گئی ہے۔ (الاذکار ۱۰۶)
۳…امام زرقانی فرماتے ہیں!’’وقد روٰی ابوداؤد باسناد صحیح‘‘
 اسے ابو دائود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے (زرقانی علی المواھب ۱۲/۲۰۲)
۴…حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں!’’رواہ ابوداؤد و احمد و بیہقی وسندہ حسن‘‘
اسکی سند حسن ہے اور اس کو ابو دائود ،امام احمد بن حنبل اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے
(شرح شفاء علی قاری ۲/۱۴۲)
۵…حافظ ابن حجر مکی فرماتے ہیں!’’وسند ھا حسن‘‘۔اسکی سند حسن ہے۔
ْْْْ(الدر المنضود ص۱۲۱)
۶…ابن قیم فرماتے ہیں!’’وقد صح اسناد ھذا الحدیث‘‘
اور اس حدیث کی سند صحیح ہے (جلاء الافھام ۳۳)
۷…علامہ تقی الدین سبکی فرماتے ہیں!’’وھذا اسناد صحیح‘‘
اور یہ سند صحیح ہے (شفاء السقام ص۴۱)
۸…حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں!’’رواتہ ثقات‘‘اسکے راوی ثقہ ہیں
(فتح الباری پارہ۳/۲۷۹ جلد ۳ ص ۲۷۹)
۹…اسی طرح علامہ شوکانی نے ’’تحفۃ الذاکرین ۲۸‘‘ میں
۱۰…امام جلال الدین سیوطی نے ’’مناھل الصفاء ص۲۰۵‘‘ میں
۱۱…امام قاسم بن قطلوبغا نے’’التعریف والاخبار ص۱۰۵ ‘‘(قلمی نسخہ) میں
۱۲…علامہ مجدد الدین فیروز آبادی نے’’الصلات والبشر ۱۰۴‘‘ میں
۱۳…امام محمد بن یوسف الشامی نے’’سبل الھدیٰ ۱۲/۲۵۶‘‘میں
۱۴…علامہ سمھودی نے’’وفا ء الوفا ۲/۴۰۳ ‘‘میں
۱۵…علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے’’السراج المنیر۳/۲۷۹‘‘میں
۱۶…مفتی عبد العزیز بن باز نجدی نے’’مجموع فتاویٰ و مقالات ۲/۳۹۴‘‘ میں
۱۷…مولوی اسماعیل سلفی (غیر مقلد)نے’’تحریک آزادی فکر ص۴۱۳‘‘میں  اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
سند کا تعارف:
۱۔محمد بن عوف بن سفیان الطائی ابو جعفر الجمعی:
امام ابو حاتم ان کو صدوق اور نسائی ثقہ کہتے ہیںامام ابن حبان انکو ثقات میں لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ صاحب حدیث اور اہل حفظ تھے امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ وہ اہل شام کی صحیح اور ضعیف سب حدیثوں کے عالم تھے۔محدث مسلمہ فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ تھے امام خلال فرماتے ہیں کہ وہ اپنے زمانہ میں امام حافظ اور علم و معرفت میں مشہور تھے:
(تھذیب التھذیب ۹/۳۸۳،۳۸۴)
محمد بن عوف کا شاندار ترجمہ دیکھنے کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمایئے:
۱)الجرح والتعدیل ۸/۵۲ ،الترجمہ ۲۴۱ (۲)ثقات ابن حبان ۹/۱۴۳
۳)السابق واللاحق ۳۴۵ (۴)سیر أعلام النبلاء ۶۱۳۸۲
۵)الکاشف ۲/۲۰۸ ،الترجمہ ۵۰۹۸ (۶)العبر ۲/۵۰
۷)تاریخ الاسلام ذہبی ۱۳۵ (۸)تقریب التھذیب ۲/۱۹۷
۹)المعجم المشتمل الترجمہ ۹۳۰ (۱۰)شذرات الذھب ۲/۱۶۳
۱۱)تسمیۃ شیوخ ابی دائود للجیانی ص۹۲ (۱۲)تھذیب الکمال ۲۶/۲۳۶
۲۔عبد اللہ بن یزید القرشی العدوی ابو عبد الرحمن المقری ٔ:
امام ابو حاتم ان کو صدوق اور امام نسائی اور خلیلی ان کو ثقہ کہتے ہیںعلامہ ابن سعد ان کو ثقہ اور کثیر الحدیث کہتے ہیںامام ابن حبان ان کو ثقات میں لکھتے ہیں اور محدث ابن قانع ان کو ثقہ کہتے ہیں (تھذیب التھذیب ۶/۸۴)
مزید تفصیلات دیکھنے کے لیے المقری ٔ کا ترجمہ درج ذیل کتابوں میں دیکھئے:
۱)طبقات ابن سعد ۵/۵۱۰ (۲)تاریخ الدوری ۲/۳۳۸
۳)طبقاتہ ۲۲۷ (۴)تاریخ الکبیر بخاری ۵/۲۲۸،الترجمہ ۷۴۵
۵)تاریخ الصغیر بخاری ۲/۳۲۶(۶)الجرح والتعدیل ۵/۲۰۱،الترجمہ ۹۳۹
۷)ثقات ابن حبان ۸/۳۴۲ (۸)الکندی ۳۰۲
۹)تھذیب الکمال ۱۶/۳۲۰ (۱۰)رجال صحیح مسلم لابن منجویہ ۹۹
۱۱)السابق واللاحق ۴۹(۱۲)المعجم المشتمل ،الترجمہ ۵۱۴
۱۳)الجمع لابن القیسرانی ۱/۲۸۱ (۱۴)معجم البلدان ۱/۶۲۴
۱۵)سیر أعلام النبلاء ۱۰/۱۶۶ (۱۶)الکاشف ۱/۶۰۹
۱۷)تذکرۃ الحفاظ ۱/۲۸۱ (۱۸)تذھیب التھذیب ۲/۱۹۵
۱۹)العقد الثمین ۵/۲۹۸ (۲۰)نھایۃ السول ۱۹۳
۲۱)تقریب التھذیب ۱/۴۶۲ خلاصۃ الخزرجی ۲/الترجمہ ۳۹۲۱
۳۔حیوۃ بن شریح بن یزید الحضرمی أبو العباس:
حیوۃ بن شریح بڑے صاحب کرامات بزرگ اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں۔امام ابن معین اور یعقوب بن شبیتہ ان کو ثقہ اور کثیر الحدیث کہتے ہیں۔محدث ابن حبانان کو ثقات میں لکھتے ہیں (تھذیب التھذیب ۳/۷۱)
حیوۃ بن شریح کا شاندار ترجمہ درج ٰذیل کتابوں میں ملاحظہ فرمائیے:
۱)تذکرۃ الحفاظ ۱/۱۷۴ (۲)تاریخ الکبیر بخاری ۳/۱۲۱،الترجمہ۴۰۵
۳)سوالات ابن الجنید لابن معین ۱۶ (۴)المعرفۃ والتاریخ ۱/۱۲۰
۵)الجرح والتعدیل ۳/۳۰۷،الترجمہ ۱۳۶۷(۶)ثقات ابن حبان ۱۰۸
۷)أسماء دار قطنی ،الترجمہ ۲۵۷ (۸)رجال بخاری للباجی ۵۰
۹)شیوخ أبی داؤد للجیانی ۸۰ (۱۰)الجمع لابن القیسرانی ۱/۱۱
۱۱)المعجم المشتمل الترجمہ ۳۰۹ (۱۲)المعلم لابن خلفون ۷۳
۱۳)تاریخ الاسلام ذہبی ۱۹۵ (۱۴)سیر أعلام النبلاء ۱۰/۶۶۸
۱۵)العبر ۱/۳۹۰ (۱۶)تذھیب التھذیب ۱/۱۸۴
۱۷)الکاشف ۱/۲۶۳ (۱۸)اکمال مغلطائی ۱/۳۰۶
۱۹)نھایۃ السول ۸۰ (۲۰)تھذیب الکمال ۷/۴۸۲
۲۱)شذرات الذھب ۲/۵۳(۲۲)خلاصۃ الخزرجی ۱/الترجمہ ۱۶۹۷
۴۔حمید بن زیاد وھو ابن أبی المخارق المدنی أبو صخر الخراط:
امام بغوی ان کو صالح الحدیث اور امام دار قطنی ثقہ کہتے ہیںمحدث ابن حبان ان کو ثقات میں لکھتے ہیںامام ابن معین اور امام احمد بن حنبل ان کے متعلق ’’لا بأس بہ‘‘ کہتے ہیں
محدث ابن عدی ان کو صالح الحدیث کہتے ہیں (تھذیب التھذیب ۳/۴۱،۴۲)
ابو صخر حمید بن زیاد کا مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں دیکھا جا سکتا ہے:
۱)طبقات ابن سعد ۹/۲۴۲ (۲)تاریخ یحییٰ بن معین الدوری ۲/۱۳۶
۳)تاریخ دارمی رقم ۲۶۰ (۴)سوالات ابن الجنید ۵۴
۵)طبقات خلیفۃ ۲۹۵ (۶)تاریخ الکبیر للبخاری ۲/۳۵۰،الترجمہ ۲۷۱۲
۷)الکنی لمسلم ۵۵ (۸)ثقات العجلی ۱۲
۹)الجرح والتعدیل ۳/۲۲۲،الترجمہ،۹۷۵
(۱۰)الکنی للدولابی ۲/۱۱ (۱۱)ثقات ابن حبان ۱۰۵
۱۲)الجمع لابن القیسرانی ۱/۹۱ (۱۳)أنساب للسمعانی ۵/۶۹
۱۴)تاریخ الاسلام ۶/۵۸ (۱۵)میزان الاعتدال ۱/۶۱۲،الترجمہ۲۳۲۸
۱۶)تذھیب التھذیب ۱/۱۷۹ (۱۷)الکاشف ۱/۲۵۶
۱۸)تھذیب الکمال ۷/۳۶۶،الترجمہ ۱۵۲۶
۱۹)اکمال مغلطائی ۱/۲۹۶،۲۹۷ (۲۰)نھایۃ السول ۷۸
۲۱)خلاصۃ الخزرجی ۱/۱۶۴۶
۵۔یزید بن عبد اللہ بن قسیط بن أسامۃ بن عمیر اللیثی ابو عبد اللہ المدنی:
امام ابن معین ان کو’’ لیس بہ بأس‘‘ اور امام نسائی ثقہ کہتے ہیںامام ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیںامام ابن عدی ان کو مشہور اور صالح الروایات کہتے ہیںمحدث ابراہیم بن سعد فرماتے ہیں کہ وہ فقیہہ اور ثقہ تھے۔علامہ ابن سعد ان کو ثقہ اور کثیر الحدیث کہتے ہیںامام ابن معین ان کو صالح کہتے ہیںامام ابن عبد البر ان کو ثقہ من الثقات کہتے ہیں
(تھذیب التھذیب ۱۱/۳۴۲،۳۴۳)
یزید بن عبد اللہ کا ترجمہ اور توثیق درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں:
۱)تاریخ الدارمی الترجمہ ۸۸۹    (۲)تاریخ ابن طھمان الترجمہ ۳۴۶
۳)طبقات ابن سعد ۹/۲۰۴               (۴)تھذیب الکمال ۳۲/۱۷۷،الترجمہ ۷۰۱۵
۵)تاریخ خلیفۃ ۳۵۴         (۶)علل أحمد ۱/۳۰۲(۷)تاریخ الکبیر للبخاری ۸/۳۴۴،الترجمہ ۳۲۵۷
۸)المعرفۃ للیعقوب ۱/۴۴۸ (۹)ثقات ابن حبان ۵/۵۴۳
۱۰)الکامل لابن عدی ۳/۲۴۵ (۱۱)الجرح والتعدیل ۹/۲۷۳،الترجمہ ۱۱۵۲
۱۲)ثقات ابن شاہین ۱۵۵۷             (۱۳)رجال صحیح مسلم لابن منجویہ ۲۰۰
۱۴)التعدیل والتجریح للباجی ۳/۱۲۳۱(۱۵)السابق واللاحق ۵۴
۱۶)الکامل فی التاریخ ۵/۲۴۹       (۱۷)الجمع القیسرانی ۲/۵۷۵
۱۸)سیر أعلام النبلاء۵/۲۶۶      (۱۹)تاریخ الاسلام ۵/۱۸۷
۲۰)الکاشف ۲/۳۸۶،الترجمہ۳۶۲۹
(۲۱)میزان الاعتدال ۴/۴۳۰،الترجمہ۹۷۱۹
۲۲)معرفۃ التابعین ۴۷   (۲۳)تذھیب التھذیب ۴/۱۷۸
۲۴)نھایۃ السول ۴۶۸  (۲۵)تقریب التھذیب ۲/۳۲۶،الترجمہ۷۷۶۵
۲۶)شذرات الذھب ۱/۱۶۰
۶۔حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ﷺ:
بالاتفاق تمام صحابہ ثقہ اور سچے ہیںمعلوم ہوا یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں چاہے کوئی کہیں سے بھی سلام عرض کرے:
اس صحیح روایت کے تحت تمام شارحین نے تصریح و اعلان کیا ہے کہ کہیں سے بھی کوئی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں سلام عرض کرے آپ ﷺ اسے خود سماعت فرماتے ہیں۔اور سلام کا جواب بھی عنایت فرماتے ہیں۔اور اگر کسی نے اسے مزار عالی کے قرب کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوشش کی تو اس کا واضح ردّ کیا اور لکھا اسے عموم پر ہی رکھنا لازم ہے اس کے مخصوص ہونے پر کوئی دلیل نہیں
۱۔امام زرقانی اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیتے ہوئے اس کے عموم کو ان کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں!’’وقد روٰی ابوداؤد باسناد صحیح من حدیث ابی ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ قال (ما من مسلم یسلم علی) فی ای محل کان‘‘
(زرقانی علی المواھب ۱۲/۲۰۲)
ترجمہ:امام ابو دائود نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرمان نبوی روایت کیا ہے(جو بھی مجھ پر سلام کہے)یعنی خواہ وہ کسی بھی مقام پر ہو
۲۔حضرت مُلا علی قاری حنفی فرماتے ہیں!’’حدیث کے ظاہر میں اطلاق ہے جو تمام اوقات اور مقامات کو شامل ہے‘‘ (شرح الشفاء ۲/۱۴۲)
۳۔علامہ ابن عبد الھادی نے بھی عموم ہی لکھا ہے (الصارم المنکی ۱۹۷)
۴۔علامہ عبد الحی لکھنوی نے اس سے مراد عموم ہی لیا ہے (السعی المشکور ۴۵۱)
۵۔امام احمد خفاجی نے بھی مراد عموم ہی لیا ہے (نسیم الریاض ۵/۷۹)
۶۔امام ابن عساکر کا استدلال بھی یہی ہے (نسیم الریاض ۵/۸۰)
۷۔امام جلال الدین سیوطی بھی یہی فرماتے ہیں (القول البدیع ۳۱۶)
عند قبری حدیث کا حصہ نہیں:
دیوبندی مکتبہ فکر کے ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی کتاب ’’مقام حیات ‘‘اور مولانا سرفراز صفدر نے اپنی کتاب’’تسکین الصدور‘‘ میں یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کا حصہ ’’  عند قبری‘‘ بھی ہے۔حالانکہ محدثین کرام نے ان الفاظ کو حدیث کا حصہ نہیں مانا ہے محدثین کی تصریحات ملاحظہ فرمایئے:
۱۔امام سخاوی فرماتے ہیں!’’شیخ موفق ابن قدامہ نے ’’مغنی‘‘میں اس حدیث کا ذکر کیا اور ان الفاظ کا اضافہ کیا(میری قبر کے پاس)لیکن مجھے یہ الفاظ کسی حدیث میں نہیں ملے اور علم حقیقی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے (انبا ء الاذکیا )
۲۔شیخ ابن عبد الھادی نے بھی اسکی تردید کی ہے (الصارم المنکی ۱۱۵)
۳۔حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کا انکار کیا ہے (مسالک الحنفاء ۲۰۵)
۴۔حافظ ابن حجر مکی نے بھی اسکی تردید کی ہے (الدر المنضود ص۱۵۲)

حدیث کا معنی:
۱۔امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ اس حدیث کا معنی بیان فرماتے ہیں!’’انہ یستغرق فی امور الملاء الاعلی فاذا سلم علیہ رجع فھمہ یسجیب من سلم علیہ‘‘
(فتح الباری ۶/۳۷۹)
ترجمہ:آپ ﷺ امور ملا ء اعلی میں مصروف ہوتے ہیں ۔جب کوئی سلام کہتا ہے تو آپ ﷺ کا فہم و توجہ لوٹ آتی ہے تاکہ سلام کہنے والے کا جواب دیں
امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں!
’’ان تکون الروح کنایۃ عن السمع ویکون المراد ان اللّٰہ یرود علیہ سمعہ الخارق للعادۃ حیث یسمع المسلم وان بعد قطرہ و یرد علیہ من غیر احتیاج الی واسطۃ مبلغ ولیس الرد سمعہ المعتاد‘‘۔ (انباء الاذکیاء ص ۱۳)
ترجمہ:روح لوٹا نے سے سلام کا سننا مراد ہے۔تو یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بطور معجزہ آپ ﷺ کا سننا لوٹا دیتا ہے کہ آپ ﷺ کہنے والوں کا سلام سنتے ہیں۔خواہ وہ کہیں بھی ہوتو آپ بلا واسطہ اس کا جواب دیتے ہیںیہاں لوٹانے سے مراد عادی اور معمول کے مطابق لوٹا نا نہیں
۳۔اسی طرح شیخ ابن عبد الھادی نے بھی یہ ہی معنی مراد لیا ہے (الصارم المنکی ۲۲۶ )
۴۔یہ ہی معنی شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے بھی لیے ہیں (اشعۃ اللمعات ۱/۴۰۷)
۵۔یہی معنی ابن حجر مکی علیہ الرحمہ نے بھی لیے ہیں (الفتاویٰ الکبری ۲/۱۱۳)
۶۔امام زین العابدین ابو بکر المراغی نے ’’تحقیق النضرہ ۱۱۶‘‘ میں
۷۔مُلا علی قاری حنفی نے ’’شرح الشفاء ۲/۱۴۲‘‘میں
۸۔امام سخاوی نے’’القول البدیع ۳۹۹‘‘میں
۹۔مولانا انور شاہ کشمیری نے’’فیض الباری ۲/۶۵‘‘میں
۱۰۔مولانا شبیر احمد عثمانی نے’’فتح الملھم ۲/۳۸۹‘‘میں
۱۱۔مولاناخلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے’’بذل المجھود ۳/۲۰۷ ‘‘میں اس حدیث کے یہی معنی لکھے ہیں
اس موضوع پر ہمارے سامنے دلائل کے انبار ہیں مگر طوالت کے خوف سے مختصراً عرض کرتا ہوں
روضہ اقدس پر تمام لوگوں کا درود وسلام سننے والا فرشتہ:
امام طبرانی نقل کرتے ہیں کہ ابن حمیری کا بیان ہے مجھے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بلا کر فرمایا !کیا میں تمہیں اپنے حبیب ﷺ کا فرمان سنائوں؟ میں نے عرض کیا ضرور سنائیں تو بتایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! عمار!! ان اللّٰہ اعطیٰ ملکاً من الملائکۃ السماع الخلائق کلھا فھو قائم عند قبری الی ان تقوم الساعۃ فلیس احدا یصلی علی صلاۃ و فی روایۃ البزار فلا یصلی علی احد الی یوم القیامۃ الا ابلغنی باسمہ واسم ابیہ ۔ھذا فلاں بن فلاں قد صلی علیک۔
ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جسے خدا نے تمام مخلوق کی بات سن لینے کی طاقت عطا فرمائی ہے۔قیامت تک وہ میری قبر منورہ پر کھڑا ہے جو کوئی بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے یہ فرشتہ مجھ کو وہ درود پہنچا دیتا ہے ۔اور بزار کی روایت میں ہے کہ جو کوئی مجھ پر قیامت تک کے لیے درودپڑھتا ہے تو وہ فرشتہ اس آدمی کے نام اور اس کے باپ کے نام کے ساتھ (یہ عرض کرتے ہوئے)کہ فلاں بن فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے مجھے پہنچا دیتا ہے
تخریج حدیث:
۱)مسند البزار ۴/۴۷ (۲)التاریخ الکبیر للبخاری ۶/۴۱۶
۳)الکامل ابن عدی ۶/۱۷۰(۴)کتاب المعجم ابن الاعرابی ۱/۲۶۰
۵)الترغیب والترھیب۲/۳۱۹(۶)طبقات الشافعیہ السبکی ۱/۱۶۹
۷)المعجم الکبیر طبرانی بحوالہ القول البدیع ص۲۵۱
۸)تاریخ دمشق بحوالہ القول البدیع ۲۵۱
۹)مسند امام حارث(بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث ۲/۹۶۳ برقم ۱۰۶۳
۱۰)کتاب الصلوٰۃ ابن ابی عاصم صفحہ ۴۳ برقم ۵۱
۱۱)الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم ۶/۲۹۶ برقم ۱۶۴۴
۱۲)الضعفاء الکبیر للعقیلی ۳/۲۴۹
۱۳)القند فی ذکر علماء سمر قند النسفی ۵۵۰
۱۴)القول البدیع السخاوی ص ۲۵۱
۱۵)مجمع الزوائد حدیث ۱۷۲۹۲
یہ روایت حسن ہے:
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہر مسلک کے اہل علم کے ہاں معتبر ہے۔طوالت سے بچنے کے لیے ہم یہاں دیوبندی، نجدی ،غیر مقلدین کے صرف ایک ایک عالم کا حوالہ پیش کرتے ہیں:
۱۔سعودی کمیٹی کی تیار کردہ کتاب’’نضرۃ النعیم‘‘ میں اس حدیث کو درج کر کے اس کے حاشیہ میں لکھا ہے!’’رواہ الطبرانی والبزار وحسنہ الالبانی،انظر سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ برقم (۱۵۳۰)وایضاً  صحیح الجامع الصغیر برقم(۲۱۷۲)
ترجمہ:اسے امام طبرانی اور بزار نے روایت کیا اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے
دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (۱۵۳۰ )اور صحیح جامع الصغیر(۲۱۷۲)
(نضرۃ النعیم فی مکارم الاخلاق الرسول الکریم /۵۶۸)
۲۔مفتی کفایت اللہ دیوبندی دہلوی نے اس کو معتبر قرار دیا ہے (کفایت المفتی ۱/۱۶۸)
۳۔نواب صدیق حسن بھوپالی نے لکھا یہ حدیث حسن ہے (نزل الابرار ۱۸۶)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ ایک فرشتہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کی آوازیں سننے کی طاقت عطا فرمائی ہے۔جب ایک فرشتہ مدینہ شریف میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر کھڑا ہو کر ساری کائنات کی آوازیں سن سکتا ہے تو پھر باعث تخلیق کائنات تمام مخلوق کے سردار ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی سماعت کے بارے میں شک کرنا اور اس کو شرک کہنا کہاں کی مسلمانی ہے۔جبکہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں!
’’ان اللّٰہ قد رفع لی الدنیا فأنا انظر الیھا والی ماھو کائن فیھا الی یوم القیامۃ کانما انظر الی کفی ھذا‘‘
ترجمہ:بے شک اللہ عزوجل نے ساری دنیا میرے سامنے کر دی ہے تو میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھتا ہوں
۱)المعجم الکبیر لطبرانی کذا فی کنز العمال ۱۱/۴۲۰
(۲)کتاب الفتن النعیم بن حماد  ۱/۱
۳)حلیۃ الاولیاء ابی نعیم ۶/۱۰۱
۴)الترغیب والترھیب ۲/۲۱۱
دوسرے مقام پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد ہے!
’’انی ارٰی مالا ترون واسمع مالا تسمعون وفی روایۃ وانی اسمع لا طیط السمآء‘‘ترجمہ:میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے اور ایک روایت میں ہے!’’میں اس وقت آسمان کی چرچراہٹ سن رہا ہوں‘‘
(جامع ترمذی ۲/۵۷،مسند احمد ۵/۳۱۷۳،ابن ماجہ ۳۰۹،المستدرک حاکم ۲/۵۱۰،کنز العمال ۱۰/۳۶۴،معجم الکبیرللطبرانی ۳/۲۰۱)
اسی طرح تقریباً درجن بھر کتب میںیہ روایت موجود ہے۔
قبر کے قریب سلام سننا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز:
اگر مخالفین کی یہ بات مان لی جائے کہ آپ ﷺ مزار اقدس کے پاس پڑھے جانے والے درود و سلام کو سنتے ہیں لیکن دور سے پڑھے جانے والے درود وسلام کو خود نہیں سن سکتے تو اب یہ سوال پیدا ہو گا کہ یہ مقام تو ہر مومن کو حاصل ہے کہ وہ اپنی قبر پر آنے والے زائر کو پہچان لیتے ہیں اور اسکے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذیشان ہے!’’ما من احد کم یمر بقبر اخیہ المومن کان یعرفہ فی الدنیا یسلم علیہ الا عرفہ ورد علیہ السلام‘‘
                                                                                         (نسیم الریاض شرح الشفا ۳/۵۰۰)
ترجمہ:تم میں کوئی جب اپنے مومن بھائی کی قبر کے پاس سے گزرے اور وہ دنیا میں اسے جانتا ہو تو وہ اس کو پہچانتا ہے۔اور اس کو جواب دیتا ہے
اگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی صرف زائر کا سلام سنیں اور جواب دیں تو پھرآپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خصوصیت کیا ہے؟اس طرح تو عام مومن اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں کوئی فرق نہ رہ جائے گا؟لہذا اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے اللہ کریم اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل حق پر استقامت عطا فرمائے آمین!

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا

                                                                 ٭بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم٭
                               
                                        {نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا}
                                       تحریر وتحقیق:ابو اسامہ ظفر القادری بکھروی

سوال:کیا فرماتے  ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ نماز جنازہ پڑھنے کے بعد دعا مانگنا شرعًا جائز ہے یا ناجائز،اور اگر جائز ہے تو جائز کی کون سی صورت ہے فرض ،واجب ،سنت یا مستحب و مباح ہے ایک فیصل آباد کے مولوی(محمد اعظم ہاشمی جامعہ حنفیہ امداد ٹاؤن فیصل آباد)کا فتوٰی بھی بھیج رہا ہوں جس نے اپنے فتوٰی میں نماز جنازہ کے بعد دعا کو ناجائز قرار دیا ہے اگر دعا کرنا بعد نماز جنازہ ہے تو اس فتوٰی میں دیے گئے دلائل کا جواب بھی تفصیلًا عنایت فرمائیں ،بیّنوا توجروا؛ (سائل:قاضی طاہر محمود ٹیکسلا) الجواب:نحمدہٗ و نصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم:
حضور ﷺ کی شریعت مطہرہ کے اندردعا مانگنے کا کوئی مخصوص وقت متعین نہیں کہ اس وقت دعا قبول ہوگی اور باقی وقت میں اللہ تعالٰی دعا قبول نہیں فرمائے گا بلکہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے [اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ]ترجمہ:دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (سورۃ البقرۃ آیت۱۸۶)
اس آیت مقدسہ میں اللہ تعالٰی نے مطلقًا دعا کرنے کا فرمایا ،اور اہل علم سے مخفی نہیں [اَلْمُطْلَقُ یَجْرِیْ عَلٰی اِطْلَاقِہٖ]تاوقتیکہ دلیل سے مقید کیا جائے
دعا بعد نماز جنازہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک جائز ہے اور وہ اس کو مستحب و مباح کا درجہ دیتے ہیں جیسا کہ مجدد دین وملت اعلٰی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمہ اللہ نے [بذل الجوائز]فتاوی رضویہ جلد ۹ میں لکھا 
حضور ﷺکا ارشاد مبارک ہے [أَکْثِرِ الدُّعَائَ]دعا بکثرت کر:
(۱)اسے امام حاکم نے [المستدرک علی  الصحیحین ۱؍۷۱۱رقم۱۹۳۹]عن ابن عباس سے روایت کیا اورامام حاکم نے صحیح کہا
(۲)المعجم الکبیر ۱۰؍۲۵رقم۱۱۷۴۰(۳)تہذیب الآثارللطبری۶؍۲۴۳رقم ۲۷۴۸
(۴)مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۱؍۴۵رقم ۱۷۳۷۴(۵) کنزالعمال۲؍۷۶رقم۳۲۰۸ (۶)صحیح جامع الصغیر ۱؍۲۶۲رقم۲۰۷۸
(۷)الفردوس بمأ ثور الخطاب۳۵۸۳۵(۸)الفتح الکبیر فی ضم الزیادۃالٰی جامع الصغیر۱؍۲۱۰رقم۲۲۸۲
(۹)تہذیب الآثار مسند ابن عباس۱؍۳۹۵(۱۰)جامع الاحادیث۴؍۲۳۲رقم۴۴۷۴۳
 اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
[اِذَا تَمَنَّی أَحَدُکُمْ فَلْیُکْثِرْ، فَاِنَّمَا یَسْأََلُ رَبَّہٗ عَزَّوَجَلَّ]
 ترجمہ:جب تم میں کوئی دعا کرے تو بکثرت کرے کہ اپنے رب سے ہی سوال کر رہا ہے
(۱)مجمع الزوائد ۱۰؍۱۵۰رقم ۱۷۲۲۰ رجالہ رجال الصحیح مطبوعہ مکتبہ القدسی قاہرہ
(۲)المعجم الاوسط للطبرانی۲؍۳۰۱رقم۲۰۴۰مطبوعہ قاہرہ
(۳)مسند عائشہ لابی داؤد ۱؍۹۹رقم۹۵ (۴)مصنف ابن ابی شیبۃ ۱۰؍۲۷۴رقم۲۹۹۸۲
(۵)شرح السنۃ للبغوی ۵؍۲۰۸رقم۱۴۰۳ (۶)غریب الاثر لابی عبید ابن سلام۲؍۱۴
(۷)کنزالعمال۲؍۷۲رقم۳۱۷۶ (۸)العلل دارقطنی۱۴؍۱۶۲رقم۳۵۰۴
(۹)النھایہ فی غریب الاثر۴؍۸۰۴ (۱۰)صحیح جامع الصغیر۱؍۱۳۸رقم۴۳۸
(۱۱)المنتخب من مسند عبد بن حمید ۱؍۴۳۴رقم۱۴۹۶(۱۲)جامع الاحادیث للسیوطی ۲؍۴۸۹رقم۱۶۵۸
ان احادیث میں دعا کثرت سے مانگنے کا حکم واضح ہے اور کسی وقت کی کوئی قید نہیں ،بلکہ رسول ﷺ نے دعا میں کمی کرنے سے منع فرمایا الفاظ یہ ہیں
[لَا تَعْجِزُوْا عَنِ الدُّعَائِ] دعا میں کمی نہ کرو
(۱)کنزالعمال ۲؍۶۱۲رقم۴۸۸۳ (۲)فتح القدیر للشوکانی ۱؍۲۴۳ (۳)الدر المنثور۲؍۲۶۵
(۴)تفسیر مظہری ۱؍۲۰۰ (۵)المستدرک للحاکم ۱؍۶۷۱رقم ۱۸۱۸ ھذا حدیث صحیح الاسناد
(۶)صحیح ابن حبان ۳؍۱۵۱رقم۸۷۱ (۷)جامع العلوم و الحکم ۱؍۳۹۲ (۸)جامع الأحادیث ۱۶؍۲۱۸رقم۱۶۶۳۷
(۹)تاریخ أصبھان۱؍۲۳۰(۱۰)تحفۃ الذاکرین للشوکانی۱؍۳۳ (۱۱)الترغیب والترہیب للالبانی۲؍۳۱۵رقم۲۵۲۴
(۱۲)مختصر تلخیص الذہبی۱؍۳۷۳رقم۱۱۹
لہٰذا دعا تو ہر وقت کی جاسکتی ہے چاہے نماز کے اندر ہو یا باہر شرع میں اس کی ممانعت موجود نہیں کہ نماز جنازہ کے بعد دعا جائز نہیں ،حالانکہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے
[فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ٭وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ]
ترجمہ:تو جب تم نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو(پارہ۳۰سورۃ الم نشرح آیت ۷،۸)
اس آیت مقدسہ کی تفسیر صحابہ و تابعین نے یہ کی ہے کہ:کوئی بھی نماز ہو اس سے فارغ ہو کر اللہ تعالٰی سے دعا کرو دیکھئے
[جامع البیان فی تفسیر القرآن للطبری جلد۲۴صفحہ۴۹۷،۴۹۸رقم۳۷۸۸۸تا۳۷۸۹۶]
اب ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ نبی ﷺ نے خاص نماز جنازہ کے بعد دعا کا حکم فرمایا جیسا کہ دیو بندی فتوٰی میں بھی اس حدیث کونقل کیا گیامگر ساتھ ہی جو دوسری روایت تھی اس کو جوڑ دیا گیا جو کہ غلط ہے اس روایت میں نماز جنازہ کے اندر دعا کا فرمایا گیا ہماری والی روایت میں نماز جنازہ کے بعد اور یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ نماز جناز ہ کے اندر دعا والی زید بن اسلم سے مرسل روایت ہے ،ہماری روایت یہ ہے
ُ [عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺیَقُوْل اِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیَّتِ فَأَخْلِصُوْا لَہُ الدُّعَائَ]
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا،کہ جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھ چکو ،تو اس کے لئے خالص دعا کرو
(۱)سنن ابو داؤد ۲؍۱۰۰رقم۳۱۹۹ (۲)سنن ابن ماجہ ص۱۰۹رقم ۱۴۹۷
(۳) صحیح ابن حبان۷؍۳۱رقم۳۰۷۶،۳۰۷۷
(۴)سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۰ (۵)تفسیر قرطبی ۸؍۲۲۲ (۶)شرح الطحاویۃ ۱؍۳۷۷
(۷)تفسیر اللباب لابن عادل۱؍۲۶۵۹ (۸)معرفۃ السنن والآثار للبیہقی۵؍۳۰۳رقم۲۲۸۰
(۹)تحفۃ الأحوذی۳؍۸۴ (۱۰)شرح ابی داؤد للعینی۶؍۱۴۳
(۱۱)البدرالمنیر فی تخریج الأحادیث والآثار فی شرح الکبیر۵؍۲۶۹
(۱۲)بلوغ المرام۱؍۲۰۵رقم۵۶۸(۱۳)صحیح کنوز السنۃ النبویۃ۱؍۱۴۲
(۱۴)کنزالعمال۱۵؍۵۸۳رقم۴۲۲۷۹
(۱۵)مشکٰوۃ المصابیح۱؍۳۷۷رقم۱۷۴ (۱۶)الشرح الکبیر لابن قدامۃ۲؍۳۴۷
(۱۷)المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل۴؍۴۳۰ (۱۸)نیل الأوطار۴؍۱۰۵
اس  حدیث کو ناصر الدین البانی نے[سنن ابوداؤداور سنن ابن ماجہ]کی تحقیق میں حسن کہا اور شعیب الأرناؤوط نے[ابن حبان]کی تحقیق میں ’’اسنادہٗ قوی،،کہا دیوبندی مولوی اس حدیث کا معنی یہ کرتے ہیں کہ نماز جنازہ میں خلوص سے دعا کرو حالانکہ [فا]اور [فی]میں ابتدائی طالب علم بھی فرق سمجھتا ہے جبکہ دیوبندی مولوی [فا] کا معنی [فی] کرتا ہے اللہ تعالٰی عقل سلیم عطا فرمائے
اب دیکھئے خود نبی ﷺ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگتے ہیں [عبداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں (یہ روایت طویل ہے)مقام موتہ میں جب کفار سے صحابہ جنگ فرمارہے تھے تو حضور ﷺ نے صحابہ کو شہید ہوتے ملاحظہ فرمایا تو ان پر نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لئے دعا مانگی اور صحابہ کرام کو دعائے بخشش کا حکم دیا الفاظ یہ ہیں
[وَصَلَّی عَلَیْہِ وَدَعَا وَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لَہٗ](۱)فتح القدیر لابن ھمام۳؍۳۶۸ (۲)عمدۃ القاری شرح بخاری۸؍۲۲(۳)نصب الرایۃ ۲؍۲۸۴(۴)شرح ابی داؤد للعینی ۶؍۱۵۳(۵)عون المعبود۹؍۲۰
دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیے[حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی (اس کے بعد)جو دعا مانگی وہ میں نے یاد کرلی الفاظ یہ ہیں] ’’صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺعَلٰی جَنَازَۃَفَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائَہٖ،،
(۱)صحیح مسلم۳؍۵۹رقم۲۲۷۶(۲)صحیح ابن حبان۷؍۳۴۴رقم۳۰۷۵(۳)مسند البزار۷؍۷۲رقم۲۷۳۹(۴)سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۰رقم۷۲۱۶(۵)معجم الکبیر للطبرانی ۱۲؍۴۰۶رقم۴۵۰۷(۶)شرح السنۃ للبغوی۵؍۳۵۶رقم۱۴۹۵(۷)مسند الشامین ۳؍۱۸۲رقم۲۰۳۷(۸)المنتقی لابن الجارود۲؍۹۱رقم۵۲۲(۹)عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۲؍۴۵۴(۱۰)شرح مسلم للنووی۳؍۳۸۳(۱۱)تحفۃ الأحوذی۳؍۸۲(۱۲)تلخیص الحبیر۲؍۲۸۸رقم۷۷۰(۱۳)کنزالعمال۱۵؍۵۸۷رقم۴۲۳۰۱(۱۴)بلوغ المرام۱؍۲۰۴(۱۵)ریاض الصالحین۱؍۴۷۳(۱۶)مشکٰوۃ المصابیح ۱؍۳۷۳رقم ۱۶۵۵(۱۷)البحرالرائق شرح کنز الدقائق۵؍۳۲۲
امام نووی رحمہ اللہ[شرح مسلم ]میں ’’فحفظت،، کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں [أَیْ عَلَّمَنِیْہِ بَعْدَ الصَّلٰوۃ  فَحَفِظْتُہ]ترجمہ:یعنی دعا نماز کے بعد سکھائی،پس انھوں نے اسے یاد کرلیا(شرح صحیح مسلم للنووی ۳؍۳۸۳طبع بیروت)
ان دونوں روایتوں میں حضور ﷺ کا نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا واضح ہے پھر اس کے جواز میں شک کرنا کیسا؟
اب ذرا رسول اللہ ﷺ کے صحابی کا عمل بھی ملاحظہ فرمائیے :
حضرت مستظل بن حصین سے روایت ہے [أَنَّ عَلِیًّا صَلَّی عَلٰی جَنَازَۃٍ بَعْدَ مَا صُلِّیَ عَلَیْہَا]ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھی جانے کے بعد دعا مانگی
(۱)سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۵رقم۶۷۸۷(۲)التمہید لابن عبد البر ۶؍۲۷۵(۳)کنز العمال۱۵؍۷۱۳رقم۴۲۸۴۱(۴)جامع الأحادیث للسیوطی ۲۹؍۴۶۱رقم۳۲۵۶۱ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک اور روایت بھی ہے
[حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنِ الشَیْبَانِیِّ،عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ:صَلَّیْت مَعَ عَلِیٍّ عَلٰی یَزِیْدَ بْنَ الْمُکَفَّفِ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا ،ثُمَّ مَشٰی حَتّیی أَتَاہُ فَقَالَ:أَللّٰہُمَّ عَبْدُکَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔]
ترجمہ:حضرت عمیر بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید بن مکفف رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی آپ نے چار تکبیریں کہیں پھر چلے میت کے پاس آئے اور کہا اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے ۔۔۔۔الخ
(مصنف ابن ابی شیبۃ ۳؍۳۳۱رقم ۱۱۸۳۱اس کی سند صحیح ہے)ان دونوں روایتوں میں جنازہ کے بعد دعا کرنی واضح ہے
اسی طرح جنازہ کے بعد دعا کر نا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے دیکھئے [مصنف عبدالرزاق۳؍۵۱۹رقم۶۵۴۵]
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما سے بھی روایات ہیں دیکھئے
[سنن الکبرٰی بیہقی۹۳۴،کنزالعمال۱۵؍۷۱۷رقم۴۲۸۵۸،المبسوط للسرخسی۲؍۲۷،بدائع الصنائع ۱؍۳۱۱،طبقات الکبرٰی۳؍۳۶۹]
حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا
[اطْلُبُوْا الْخَیْرَ دَہْرَکُمْ کُلَّہٗ وَتَعَرَّضُوْا لِنَفَحَاتِ رَحْمَۃِاللّٰہ ِ]
ترجمہ: ہر وقت،ہر گھڑی،عمر بھر خیر مانگے جاؤ اور تجلیات رحمت الٰہی کی تلاش رکھو
(۱)شعب الایمان للبیہقی ۲؍۳۷۰رقم۱۰۸۳(۲)تفسیر ابن کثیر ۴؍۳۳۰(۳)التمہید لابن عبدالبر۵؍۳۳۹
(۴)الاستذکار ۷؍۴۶۴(۵)جامع الصغیر ۱؍۸۵(۶)الفتح الکبیر ۱؍۱۸۱(۷)الفردوس بمأثورالخطاب۱؍۷۹رقم۲۴۱
(۸)جامع الاحادیث للسیوطی ۴؍۴۹۵رقم۳۶۱۸(۹)کنزالعمال ۲؍۷۴رقم۳۱۸۹(۱۰) الأسماء والصفات للبیہقی ۱؍۳۲۹
(۱۱)سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴؍۳۸۹رقم۱۸۹۰
اب دیکھئے کہ نماز جنازہ کے بعد میت کو دفن کرنا ہوتا ہے لیکن دفن سے پہلے اور جنا زہ کے بعد دعا کرنے کا معمول سلف صالحین کا ہے یہی معمول بہا ہے یعنی اسی پر فتوٰی ہے ملاحظہ فرمائیے ،کشف الغطاء میں ہے
[فاتحہ ودعا برائے میت پیش از دفن درست است و ہمیں است روایت معمولہ کذا فی الخلاصۃ الفقہ۔۔۔]ترجمہ:میت کے لئے دفن سے پہلے فاتحہ و دعا  درست ہے اور یہی روایت معمول بہا ہے ایسا ہی خلاصۃ الفقہ میں ہے ۔
(کشف الغطاء صفحہ ۴۰ فصل ششم نماز جنازہ مطبوعہ دہلی)
علماء دیوبند کے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے دعا کے بارے میں ایک ضابطہ مقرر کیا لکھتے ہیں
[کیا معترض صاحب ہر دعاکے لئے نقل کو شرط کہیں گے]یعنی ہر دع کے لئے علیحدہ ثبوت کی ضرورت نہیں (بوادر النوادر صفحہ ۶۲۳ مطبوعہ لاہور)لہٰذا اس اصول کے تحت  مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں[بعد نماز عیدین کے دعا مانگنا ،گو نبی ﷺ اور ان کے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں مگر چونکہ ہر نماز کے بعد دعا مانگنا مسنون ہے اس لئے بعد نماز عیدین بھی دعا مانگنا مسنون ہوگا ] (بہشتی زیور حصہ نمبر۱۱ صفحہ نمبر۸۵)
اسی طرح [فتاوٰی دارالولوم دیوبند ۵؍۲۲۵] میں ہے’’عیدین کی نمازوں کے بعد مثل دیگر نمازوں کے دعا مانگنا مستحب ہے ہمارے اکابر کایہی معمول رہا ہے ،،
اسی لئے ہم [اہل سنت والجماعت] کہتے ہیں کہ یہاں تو جنازہ کے بعد دعا کا ثبوت بھی ہے تو پھر اس کو بدعت کہنا کیسا ہے؟
مفتی کفایت اللہ دہلوی جس کو دیوبندی مولوی نے چشتی لکھا جو سراسر جھوٹ ہے ان کی کتاب کا جو حوالہ دیا اس پر کہیں بھی چشتی نہیں لکھا  وہ لکھتے ہیں
[اگر لوگ نماز جنازہ کے بعد جمع ہو کر اور اہتمام کرکے دعا نہ کریں بلکہ صفیں توڑ کر علیحدہ ہوجائیں اور اپنے اپنے طور پر ہر شخص تنہا تنہا دعا کرے تو اس میں کسی طور سے نماز جنازہ میں زیادتی کا شبہ نہیں ہو سکتا]  (دلائل الخیرات فی ترک المنکرات مع خیر الصلات صفحہ ۳۳)
اب مولوی صاحب بتائیں کہ اس ہیت کے ساتھ دعا کرنا بعد نماز جنا زہ ان کے نزدیک کس حدیث سے ثابت ہے 
اسی طرح[فتاوٰی دار العلوم دیوبند ۵؍۴۳۴ مطبوعہ ملتان] میں ہے
’’سوال(۳۱۳۴)بعد نماز جنازہ قبل دفن چند مصلیوں کاایصال ثواب کے لئے  سورۃ فاتحہ ایک بار سورۃ اخلاص تین بار آہستہ آواز سے پڑھنا اور امام جنازہ یا کسی نیک آدمی کا دونوں ہاتھ اٹھا کر مختصر دعا کرنا شرعًا ہے یا نہیں
الجواب:۔اس میں کوئی حرج نہیں
ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں جنھیں دیوبندی مولوی صاحب نے چشتی لکھا اسی طرح تقی عثمانی ،خلیل احمد اور سارے دیوبندیوں کو چشتی لکھا جو کہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ جن کتب کا حوالہ ان میں کہیں بھی چشتی نہیں لکھا یہ صرف عوام اہل سنت والجماعت کو دھوکہ دینے کے لئے ہے [بعد نماز (جنازہ)کے اسی طرح اسی جگہ دعا کا کوئی ثبوت نہیں صفیں توڑ کر الگ ہٹ جائے پھر جتنا چاہے دعا کرے] (مخزن فضائل و مسائل حصہ اول صفحہ۹۱)
اسی طرح مولوی عزیز علی شاہ دیوبندی نے بھی لکھا [اپنے اپنے دل میں لوگ علیحدہ علیحدہ دعا مانگیں اس کا ہر وقت اختیار ہے ]    (تحقیق الدعائصفحہ۶۳)
علامہ شمس الحق افغانی دیوبندی لکھتے ہیں [مفتی کفایت اللہ صاحب مرحوم نے تطبیق یوں دی ہے دعا قبل کسر الصفوف(صفیں توڑنے سے پہلے ) منع ہے اور بعد کسر الصفوف جائز ہے میرے نزدیک یہ درست ہے] (الکلام الموزون صفحہ ۹۱)
اسی طرح [خیر الفتاوٰی۳؍۲۲۴] میں ہے ’’علیحدہ طور پر دعا وتلاوت جائز ہے،،یعنی جنازہ کے بعد
اب نئے دیوبندی علماء کا عمل بھی ملاحظہ ہو
(۱)مولوی فضل الرحمن صاحب نے ملک قاسم سیاسی لیڈر کی نماز جنازہ کے بعد دعا مانگی دیکھئے [روز نامہ پاکستان لاہور ۱۹ستمبر ۱۹۹۶ء]کی اشاعت میں باتصویر طور پر موجود ہے کہ وہ ملک قسم کی نمازجنازہ کے بعد دعا مانگ رہے ہیں
(۲)جنرل ضیاء الحق کے جنازے میں شریک  تمام دیوبندی علماء نے خصوصًا مولوی عبدالمالک کاندھلوی شیخ الحدیث جامع اشرفیہ لاہوراور مولوی عبدالقادر آزاد سابق خطیب شاہی مسجد لاہور نے ہاتھ لمبے لمبے کرکے دعا بعد نماز جنازہ کی دیکھئے اس وقت کے اخبارات اور ٹی وی کی کوریج
(۳)مولوی اکرم اعوان دیوبندی ’’دعا نماز جنازہ کے بارے میں ،،لکھتے ہیں
[کبھی مانگتے ہیں کبھی نہیں مانگتے ہیں جیسی صورت حال ہو گزارا کرتے ہیں اور اب تو میرے پاس فرصت نہیں ہوتی جنازوں میں جانے کے لئے بچے ہو آتے ہیں پتا نہیں مانگتے ہیں نہیں مانگتے وہ جانیں اور ان کا کام جانیں] (ماہنامہ المرشد لاہور نومبر ۱۹۹۴ء صفحہ۴۶)
(۴)متحدہ قومی موومنٹ کے معطل رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی نماز جنازہ کے بعد مولانا اسعد تھانوی دیوبندی نے دعا کی دیکھئے اخبارروزنامہ[امت کراچی ۷نومبر۲۰۱۰ء بروز اتوارمیں]
لہٰذا ان دلائل کی روشنی میں دیوبندی علماء کا [دعا بعد نماز جنازہ] کو بدعت کہنا دو وجہ سے صحیح نہیں
(۱)ایک تو یہ کہ ان کا ضابطہ بدعت صحیح نہیں ورنہ اسی ضابطے کے تحت جو اعمال ان کے آتے ہیں انھیں بھی [بدعت] کہیں
(۲)اگر بالفرض آپ کا ضابطہ مانا جائے تو پھر جب حضور ﷺ اور ان کے صحابہ سے یہ عمل ثابت ہے جیسا کہ پہلے گزرا تو اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں
اب ان فقہاء کی عبارات کا جواب دیا جاتا ہے جو اس فتوٰی میں نقل کی گئیں
(۱)و فی المحیط البرہانی:لایقوم الرجل با لدعاء بعد صلٰوۃ الجنازہ
(۲) و فی الفتاوٰی السراجیہ:اذا فرغ من الصلٰوۃ لا یقوم بالدعاء
(۳)و فی الفتاوٰی بزازیہ علی العالمگیریہ:لا یقوم بالدعاء بعد صلٰوۃ الجنازۃ لانہ دعا مرّۃ
(۴)و فی خلاصۃ الفتاوٰی:لا یقوم بالدعاء ۔۔۔۔۔۔بعد صلٰوہ الجنازۃ
(۵)و فی البحرالرائق: لایدعو بعد التسلیم
اب ذرا غور فرمائیے کہ جب قرآن وسنت اور حضور ﷺ اور ان کے صحابہ سے یہ عمل ثابت ہے جیسا کہ پہلے گزرا تو فقہاء کیوں منع فرمانے لگے اگر منع کیا تو کیا شرط لگائی اور کیوں لگائی اللہ تعالٰی عقل سلیم عطا فرمائے تو بات فقہاء کی سمجھ آ جاتی ہے پہلی چار عبارات میں بلفظ [قیام]کے ساتھ منع کیا گیا اب وہ کیا قیام ہے جس کی قید سے فقہاء یہ حکم دے رہے ہیں جب فقہاء کے دلائل کو سمجھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ دعا کے لئے ایسا قیام جو طویل ہو جس سے دفن میں تاخیر ہو تو یہ شرح مطہرہ کو پسند نہیں لہٰذا مختصر دعا سے اور مطلقًا دعا سے فقہاء نے منع نہیں کیا ورنہ دیوبندی علماء بھی فردًا فردًااور مختصر دعا کے قائل ہیں جیسا کہ پیچھے گذرا لہٰذا اس کو اگر مطلق مانا جائے تو دیو بندیوں کے بھی خلاف ہے تو جو جواب ان کا ہوگا وہی ہمارا تسلیم کیا جائے اسی لئے ہم مختصر دعا کرکے میت کو دفن کے لئے لے جاتے ہیں جو جائز ہے
اب رہ گئی پانچویں عبارت تو البحرالرائق میں اسی عبارت میں آگے لکھا ہے [وَعَنْ الْفَضْلِیِّ لَابَأسَ بِہٖ]یعنی اس میں کوئی حرج نہیں(البحرالرائق۵؍۳۳۲  )
چنانچہ مولوی کفایت اللہ صاحب جن کو دیوبندی مولوی صاحب نے چشتی لکھا [خیر الصلٰوۃرسالہ کے صفحہ نمبر ۶۳]پرمولوی خلیل احمد انبیٹھوی کے حوالے سے لکھا کہ ’’جودوسری عبارت جو بطور روایت فضلی سے نقل کی ہے جس میں [لا بأس بہ]مذکور ہے وہ مشیر بجواز ہے ،،
لہٰذا یہ عبارت جواز کے حق میں ہے اب صرف مرقاۃ شرح مشکٰوہ کی عبارت کا جواب رہ گیا جو کہ فتوٰی کے صفحہ نمبر ۲ پر ہے تو اس  کا جواب یہ ہے اس عبارت میں ہے
[لا یدعو للمیت بعد الجنازۃ لانہٗ یشبہ الزیادۃ فی الصلٰوۃ الجنازۃ]  یعنی نماز جنازہ کے بعد اس طرح دعا نہ کی جائے جو جنازہ میں زیادتی کا شبہ دے
صفوف کو توڑ کر دعامانگنا اس شبہے کو زائل کردیتا ہے لہٰذا جیسا کہ علماء دیوبند نے بھی یہی تطبیق دی ہے ورنہ کسی نے مطلقًا دعا کو ناجائز نہیں لکھا لہٰذا دیوبندی مفتیوں کے فتاوٰی کا کوئی اعتبار نہیں جب کہ قرآن و سنت نبی ﷺ کا قول و فعل صحابہ کا عمل اور فقہاء کا معمول بہا کہنا موجود ثابت ہے تو ان علماء کا بدعت بدعت کی رٹ لگانا اور جھوٹے چشتی بننا اور فقہاء کی عبارات کو کتر بیونت کر کے پیش کرنا ،سادہ عوام کو گمراہ کرنا ہے اور [پکی روٹی ] جیسی کتاب کا حوالہ دینا،مولوی عبدالحئی لکھنوی کا فیصلہ سنانا ،یہ سب دیوبندی ہی تو ہیں اہل سنت والجماعت کے لئے یہ کیسے قبول ہوسکتا ہے لہٰذا نماز جنازہ کے بعد دعا کو واجب کہنا اور اس بنا ء پر اس کو بدعت کہنا یہ سب جھوٹ کے سوا کچھ نہیں اہل سنت والجماعت کا کوئی مستند عالم اس کو فرض ،واجب نہیں کہتا بلکہ مستحب و مباح کہتا ہے جو الحمد للہ ثابت ہے اللہ تعالٰی حق کو واضح ہوجانے کے بعد اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
  {  وما توفیقی الا باللّٰہ العلی العظیم}
خادم العلماء اہل السنۃ والجماعۃ ابو اسامہ ظفر القادری بکھروی خطیب مرکزی جامع مسجد [الفاروق]۲۰ایف واہ کینٹ مورخہ۲۵مئی ۲۰۱۲ء
 






مروجہ قسطوں کے کاروبار کی شرعی حیثیت

                                                            بسم اللّٰہ الرحمٰن الرّحیم۔
        مروجہ قسطوں کے کاروبار کی شرعی حیثیت 

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ آج کل قسطوں کا کاروبار عروج پر ہے مروجہ صورت یہ ہے کہ کوئی چیزنقد بالفرض (۵۰۰۰ )پانچ ہزارروپے کی ہے تو قسطوں میں (۵۵۰۰)پانچ ہزار پانچ سو روپے کی دیتے ہیں ان دونوں قیمتوں میں ایک قیمت طے کرلی جائے تو کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں ؟غیرمقلدین اس کو ناجائز کہتے ہیںجیسا کہ’’ الحدیث شمارہ نمبر۴۰ستمبر۲۰۰۷ص۲۵تا۴۴‘‘میں تحریر کیا گیا ہے مہربانی فرماکران کے دلائل کا جواب بھی مرحمت فرمائیے تاکہ اہل سنت وجماعت کے لوگوں کے ذہنوں میں کوئی ابہام نہ رہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عظیم عطاء فرمائے (سائل :راجہ خلیل احمد نقشبندی واہ کینٹ)
الجواب: الحمد للّٰہ ربّ العالمین،والصّلوٰۃ والسّلام علیٰ سیّد الانبیاء والمرسلین،وعلیٰ اٰ لہٖ واصحابہٖ واہل بیتہٖ وازواجہٖ اجمعین:امابعد
کاروبار میں اصل اباحت ہے یعنی اس کی اصل جواز پر ہے جب تک شریعت مطہرہ کاروبار کے کسی معاملے کو منع نہ کرے تو وہ حلال ہی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے
 [وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا] (البقرۃ ۲۷۵)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے کاروبار کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے
سود کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا جبکہ شریعت اسلامیہ نے واضح طور پر سود کی صورتیں بیان کردیں ہیںنقد وادھار کے فرق کو شریعت نے حرام یا سود قرار نہیں دیا ہے اس لئے یہ جائز ہے اور مروجہ کاروبار کی جوصورت بیان کی گئی ہے وہ جائز ہے انشاء اللہ آئندہ صفحات میں اس کا واضح بیان ہوگا اور غیر مقلدین کے دلائل جوکہ ’’ الحدیث شمارہ نمبر۴۰ستمبر۲۰۰۷ص۲۵تا۴۴‘‘ میں ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلد نے دیے ہیں ان کا مکمل جواب بھی دیا جائے گا ان صاحب نے شریعت مطہرہ کے دلائل دیتے ہوئے جو کتر بیونت کی اس کی بھی وضاحت کردی جائے گی تاکہ حق کے متلاشی کو کوئی شک وشبہ نہ رہے اور حق واضح ہوجائے ،باطل بھی واضح ہوجائے
اسلام ایک دین فطرت ہے اللہ تعالیٰ نے یہ ہمیں ایک ایسا ضابطہ حیات دیا ہے جوانسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے اس میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے صرف خلوص نیت کے ساتھ علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے حق بات طلب کرے تو اس کو اس کا حل مل جاتا ہے معاشی جدوجہد جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے اس کے حوالے سے بھی اسلام نے جابجا راہنمائی فرمائی ہے اسلام نے کاروبارکوجائز و مباح اورحرام وممنوع قرار دے کر اس کی تقسیم کرکے ہرفرد کو معاشی استحصال سے محفوظ فرمایا ہے اس طرح اگر اسلامی اصولوں پر عمل کیا جائے تو لین دین یعنی کاروبار کے ہرقسم کے نقصان سے بچا جاسکتا ہے خریدار کا کوئی چیزخریدکر رقم قسطوں میں ادا کرنا کوئی نیا طریقہ یا نیا کاروبار نہیں بلکہ یہ’’ بیع تقسیط‘‘ ہے اور صرف اس دور میں اس کا رجحان بڑھ گیا ہے جبکہ فقہ حنفی کے علماء نے اس کو جائز قرار دیا ہے اور لوگ اس پر عمل کررہے ہیں لیکن غیر مقلدین فقہ حنفی کی مخالفت کی بنا ء پر اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں جبکہ فی الواقعہ یہ جائز ہے آئیے اس بات کا تحقیقی جائزہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے
مروجہ قسطوں کا کاروبار جائز ہے:
کاروبار میں اصل اباحت ہے یعنی اس کی اصل جواز پر ہے جب تک شریعت مطہرہ کاروبار کے کسی معاملے کو منع نہ کرے تو وہ حلال ہی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے
[وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا] (البقرۃ ۲۷۵)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے کاروبار کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے
اسی بارے میں سیدنا عبداللہ بن عباسhفرماتے ہیں
[کَانَ اَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِیَاْکُلُوْنَ اَشْیَائَ وَیَتْرُکُوْنَ اَشْیَائَ تَقَذُّرًا، فَبَعَثَ اللّٰہُ تَعَالیٰ نَبِیُّہٗ وَاَنْزَل کِتَابَہٗ وَاَحَلَّ حَلَالَہٗ وَحَرَّمَ حَرَامَہٗ فَمَااَحَلَّ فَہُوَ حَلَاَلٌوَمَا حَرَّمَ فَہُوَ حَرَامٌ وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَہُوَ عَفْوٌ ۔۔۔۔الٓاخر ]
ترجمہ:اہل جاہلیت کچھ چیزیں کھاتے تھے اور کچھ کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیa کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتاب نازل کی اور حلال کو حلال ،اور حرام کو حرام قرار دیا ،تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا وہ حلال ہے اور جس کو اس نے حرام قرار دیا وہ حرام ہے اور جس سے اس نے خاموشی اختیار کی وہ معاف(جائز) ہے
(۱)سنن ابوداؤد تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید:  ۲/۲۸۲رقم۳۸۰۰قال الالبانی صحیح الاسناد
(۲)المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۴/۱۱۵رقم۷۱۱۳قال الحاکم صحیح الاسناد
(۳)شرح مشکل الآثار للطحاوی:  ۲/۲۲۸رقم۷۵۴
(۴)الاحادیث المختارۃ للضیاء المقدسی:  ۴/۶۱رقم۵۰۴
(۵)فتح الباری ابن حجر عسقلانی: ۹/۶۵۵
(۷)شرح صحیح بخاری لابن بطال:  ۵/۴۴۰
(۸)جامع العلوم والحکم لابن رجب:  ص۲۷۷
aفقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدیm کا فتوٰیa
فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدیm’’فتاوٰی فیض الرسول‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
[کوئی بھی سامان اس طرح بیچنا کہ اگر نقدقیمت فورًااداکرے تو تین سو قیمت لے اور اگر ادھار سامان کوئی لے تو اس سے تین سو پچاس روپیہ اسی سامان کی قیمت لے یہ شریعت میں جائز ہے ،سود نہیں ہے ،نقد اور ادھار کاالگ الگ بھاؤ رکھنا شریعت میں جائز ہے مگر یہ ضروری ہے کہ سامان بیچتے وقت ہی یہ طے کردے کہ اس سامان کی قیمت نقد خریدو تو اتنی ہے اور ادھار خریدو تو اتنی ہے ۔یہ جائز نہیں کہ تین سو روپیہ میں فروخت کردیا اب اگر قیمت ملنے میں ایک ہفتہ کی دیر ہوگئی تو اس سے پچیس یا پچاس زیادہ لے ،ایسا کرے گا تو سود ہوگا۔فقط  واللہ تعالیٰ اعلم  ]
(فتاوٰی فیض الرسول  : ۲/۳۸۱،۳۸۰مطبوعہ لاہور)
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ حرانی :
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ حرانی اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہ حرانی سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جسے ایک ایسے تاجر کی احتیاج ہوئی جس کے پاس ایک کپڑا تھا اس نے کہا کہ یہ کپڑا مجھے دے دو تاجر کہنے لگا اس کی موجودہ قیمت تو تیس ہے لیکن میں اسے ادھار پر پچاس میں بیچوں گا یہ معاملہ جائز ہوگا یا نہیں ؟ ابن تیمیہ صاحب نے جواب دیا
[اَلْمُشْتَرِیْ عَلیٰ ثَلَاثَۃِ اَنْوَاعٍ ،اَحَدُھَا :اَنْ یَّکُوْنَ مَقْصُوْدَہُ السِّلْعَۃَ یَنْتَفِعُ بِہَا لِلْاَکْلِ وَالشُّرْبِ وَاللُّبْسِ وَالرُّکُوْبِ وَغَیْرِ ذَالِکَ: والثَّانِیْ : اَنْ یَّکُوْنَ مَقْصُوْدَہُ التِّجَارَۃَ فِیْہَا فَہَذَانِ نَوْعَانِ جَائِزَانِ بِالْکِتَابِ وَالسُّنۃِ وَالْاِجْمَاعِ،کَمَا تَعَالیٰ (وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ)۔۔۔۔۔فَاِنَّ الْأَجَلَ یَأْخُذُ قِسْطًا مِنَ الثَّمَنِ ۔]
ترجمہ: خریدار تین قسم کا ہوسکتا ہے ایک وہ جس کا مقصود چیز کو لے کر کھانے ،پینے ،پہننے اور سواری کا فائدہ حاصل کرناہو ۔دوسرا وہ جس کا مقصود چیز حاصل کرکے اس میں تجارت کرنا ہو ،مذکورہ صورت میں یہ دونوں قسم کے معاملے کتاب وسنت اور اجماع (امت) کی روشنی میں جائز ہیں۔۔۔۔بلا شُبہ مدت ،قیمت میں اپنا حصہ رکھتی ہے  (مجموع الفتاوٰی ابن تیمیہ:  ۲۹/۴۹۹ )
aبیع سلم اور مروجہ قسطوں کا کاروبارa
اس بیع میں خریدار معینہ مدت ،جو کئی دفعہ کئی سال پر محیط ہوتی ہے پہلے ہی قیمت ادا کردیتا ہے اور بعد میں چیز حاصل کرتا ہے اس طرح خریدار کو موجودہ قیمت سے کم معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے اگر اسے یہ چیز ابھی اسی قیمت پر میسر ہو تو وہ بعدمیں اسے کیوں لے گا؟ اسی طرح اگر بعد میں بھی وہ چیز اسی قیمت پر ملے گی تو وہ پیشگی قیمت ادا کیوں کرے گا ؟یہ بیع یعنی کاروبار سب کے نزدیک جائز ہے اس میں خریدار کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر قسطوں کی بیع میں تاجر کو فائدہ ہو تو یہ ناجائز کیوں ؟جب ادھر بھی معاملہ بیع سلم والا ہی ہے یہ بیع زمانہ نبوی میں بھی موجود تھی اسے بیع سلف بھی کہتے ہیں
سیدنا عبداللہ بن عباس hبیان فرماتے ہیں
[قَدِمَ النَّبِیُّa  الْمَدِیْنَۃَ وَھُمْ یُسْلِفُوْنَ بِالتَّمْرِالسَّنَتَیْنِ وَالثَّلَاثَ فَقَالَ مَنْ أَسْلَفَ فِیْ شَیْئٍ،فَفِیْ کَیْلٍ مَّعْلُوْمٍ ،وَوِزَنٍ مَعْلُوْمٍ،اِلٰی أَجَلٍ مَعْلُوْمٍ ]
  ترجمہ: حضور نبی کریمa  جب(ہجرت فرماکر)مدینہ منورہ تشریف لائے،تو وہاں کے لوگ کجھوروں میںدو ،تین سال تک کی بیع سلف کرتے تھے ،آپ a نے فرمایا جو کوئی کسی چیز میں بیع سلف کرنا چاہتا ہے ،وہ طے شدہ ماپ،وزن کی طے شدہ مدت تک بیع کرے 
 (۱)صحیح بخاری:   ۳/۱۱۱رقم۲۲۴۰باب السلم فی وزن  معلوم (۲)صحیح مسلم:   ۵/۵۵رقم۴۲۰۲
اس روایت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر مدت کے حساب سے چیز کی مقدار اور قیمت مقرر کرکے کوئی معاملہ طے کرلیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور یہی معاملہ قسطوں کے کاروبار میں ہوتا ہے اگر اس طریق سے معاملہ طے کیا جائے تو شرعًا جائز ہے کیونکہ اگر خریدار پیشگی ادائیگی کرکے فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو دوکاندار یا تاجرپیشگی مال یاچیزدے کر زیادہ قیمت لینے کا مستحق کیوں نہیں ہوسکتا ؟بعض لوگوں کا یہ باور کروانا کہ قسطوں میں چیز دے کر زیادہ قیمت لینا سود ہے تو پیشگی ادائیگی کرکے سستے داموں یا زیادہ مقدار میں مال یا چیز لینا کیا ہے؟ ایک کو جائز ایک کو ناجائز کہنا ،خریدار کو فائدہ جائز اور دکا ندار کو فائدہ ناجائز جبکہ دونوں ہی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دونوں کو فائدہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے
a بیع سلم میں چیز کی حوالگی کی مدت کے کم وبیش سے قیمت میں کمی بیشی ہوتی ہےa
بیع سلم میں قیمت مدت کے تعین کے حوالے سے طے ہوتی ہے اگر مدت کم وبیش ہوتو قیمت بھی گھٹتی بڑھتی ہے اور یہ ہی چیزاس بیع میں لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہے جتنی چیز جلدی ملتی ہے اتنی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور جتنی دیر سے چیز ملتی ہے اتنی قیمت کم ہوتی ہے اور یہی چیز قسطوں کی بیع میں ہے کہ چیز جتنی کم مدت پر خریدیں گے اتنی کم قیمت ہوگی اور اگر مدت زیادہ ہو گی تو قیمت بھی بڑھ جائے گی اس حوالے سے امام شافعی mفرماتے ہیں
[قَال َالشَّافَعِیُّ:وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُّسَلِّفَہٗ مِائَۃَ دِیْنَارٍ فِیْ عَشْرَۃِ أَکْرَارٍ: خَمْسَۃٌ مِنْہَا فِیْ وَقْتِ کَذَا ،وَخَمْسَۃٌ فِیْ وَقْتِ کَذَا،لِوَقْتٍ بَعْدَہٗ،لَمْ یَجُزِالسَّلَفُ، لِأَنَّ قِیْمَۃَ الْخَمْسَۃِ الْأَکْرَارِالْمُؤَخَّرَۃِ أَقَلُّ مِنْ قِیْمَۃِالْأَکْرَارِ الْمُقَدَّمَۃِ ،فَتَقَعُ الصَّفْقَۃُ،لَا یُعْرَفُ کَمْ حِصَّۃُُ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِّنَ الْخَمْسَتَیْنِ مِنَ الذَّہَبِ، فَوَقَعَ بِہٖ مَجْہُوْلًا ،وَہُوَ لَا یَجُوزُ مَجْہُوْلًا ]
ترجمہ:امام شافعیmنے فرمایا:  سودینار کے بدلے دس اکرار(عراقی پیمانہ ہے )غلے کی بیع سلف اس صورت میں ناجائز ہے کہ پانچ اکرار ایک وقت میں اور پانچ اس کے بعد کسی وقت میں ملیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ بعد میں ملنے والے پانچ اکرار کی قیمت پہلے ملنے والے اکرارسے کم ہوگی سودا تو طے ہوجائے گا لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ مقررہ قیمت میں پہلے اور بعد والے اکرار کا حصہ کتنا کتنا ہے یوں دونوں کی قیمت نامعلوم ہوگی اس صورت میں بیع سلف جائز نہیں ہوتی
( کتاب الام للشافعی  :  ۳/۹۸ مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت)
  بیع سلم ہو یا قسطوں کی بیع اس میں قیمت، چیز یا مدت مجہول ہو تو ناجائز ہے اگر سب کچھ طے ہو یعنی چیز، قیمت اور مدت طے ہو تو شرعًا جائز ہے کاروبار یعنی بیع میں اصل اباحت ہے شریعت نے نقد و ادھار کے فرق کو سود نہیں قرار دیا یہ صرف منع کرنے والوں کی بھول ہے اللہ انہیں ہدایت عطاء فرمائے اس میں تو کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں کہ سود حرام ہے لیکن ہر معاملہ کو سود کہنا بھی جرم عظیم ہے جیسا کہ ان حضرات کی عادت ہے کہ ہر چیز کو شرک و بدعت کہنا جب کہ ہر مسلمان شرک و بدعت کو برا ہی سمجھتا ہے لیکن ہرچیز کو شرک وبدعت کہنا بھی جرم عظیم ہے آ ئیے ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلد کے ممانعت کے دلائل کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ لیتے ہیں
 a ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلدکے دلائل اور ان کا تحقیقی و تنقیدی جائزہa
ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلد [الحدیث:شمارہ۴۰ص۲۸]پر لکھتے ہیں ،ادھار کے بدلے زیادہ قیمت جائز نہیں ،پھر اس کے تحت حضرت ابوہریرہhکی روایت کردہ دو حدیثیں لکھتے ہیں (۱)[نہی رسول اللہ a عن بیعتین فی بیعۃ]
ترجمہ:رسول اللہaنے ایک چیز کی دو قیمتیں مقرر کرنے سے منع کیا ہے
(ترمذی:۱۲۳۱،واسنادہ حسن ،نسائی:۴۶۳۶،وصححہ ابن الجارود:۶۰۰،وابن حبان:۴۹۵۲)
(۲)حضرت ابوہریرہhکی ایک دوسری مرفوع روایت نقل کی[من باع بیعتین فی بیعۃ فلہ أو کسہما أو الربا]جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گا یا تو وہ کم قیمت لے گا یا پھر وہ سود ہوگا۔ (سنن ابوداؤد:۳۴۶۱،واسنادہ حسن وصححہ ابن حبان:۱۱۱۰،والحاکم:۲/۴۵،ووافقہ الذہبی)
اس کے بعد چند محدثین کے نامکمل اقوال لکھے ان اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی یہ بات کہے کہ نقد اتنے میں اور ادھار اتنے میں ہے تو یہ اس حدیث کا مفہوم ہے کہ اس طرح دو بیع کرنا ناجائز ہے وغیرہ   
الجواب بعون الوہاب:سب سے پہلے حضرت ابوہریرہh کی روایت کردہ حدیث کا فہم سلف صالحین فقہاء ومحدثین سے ملاحظہ فرمائیں
a’’بیعتین فی بیعۃ‘‘فقہا ء ومحدثین کی نظر میں a
(۱)امام عطاء بن ابی رباح mکا مؤقف:
مشہور زمانہ ،عظیم تابعی ،امام حضرت عطاء بن ابی رباحm فرماتے ہیں
[حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ ،عَنْ سُفْیَانَ ،عَنْ  لَیْثٍ ،عَنْ طَاوُوسٍ ،وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرِوالْأَوْزَاعِی ،عَنْ عَطَائٍ، قَالَا :  لَا بَأْسَ أَنْ یَقُوْلَ : ہٰذَا الثَّوْبُ بِا لنَّقْدِ بِکَذَا ، وَبِا لنَّسِئَۃِ بِکَذَا ،وَیَذْہَبُ بِہٖ عَلٰی أَحَدِہِمَا   ]ترجمہ:کو ئی کہے کہ یہ کپڑا نقد اتنے کا اور ادھار اتنے کا ہے اور خریدار اسے کسی ایک قیمت پر لے جائے ،تو اس میں کوئی حرج نہیں (مصنف ابن ابی شیبۃ :  ۷/۱۵۴،۱۵۳ رقم ۲۰۸۱۹ وسندہٗ صحیح)
اسی کتاب کے اسی صفحہ پر دوسرا قول بھی موجود ہے ملاحظہ فرمائیے[حَدَّثَنَایَحْیٰی بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ،عَنْ عَطَائٍ، فِی رَجُلٍ اشْتَرَی بَیْعًا ،ثُمَّ قَالَ : لَیْسَ عِنْدِی ہٰذَا ، أَشْتَرِیہِ بِالنَّسِئَۃ؟ِ ، قَالَ : اِذَا تَتَا رَکًا الْبَیْعَ اشْتَرَاہُ اِنْ شَائَ۔    ]
ترجمہ:ایک دفعہ امام عطاءmسے ایک آدمی کے بارے میں پوچھاجو ایک چیز خریدتا ہے ،پھرکہتا ہے کہ میرے پاس اس کی نقد قیمت نہیں ہے میں اسے(زیادہ قیمت پر)ادھار خرید سکتا ہوں کیا یہ بیع درست ہے؟ تو آپ نے فرمایاجب یہ معاملہ بیع کی طرح ہو(یعنی بائع کہے کہ ادھار کی قیمت یہ ہے  )تو اسے خرید سکتا ہے  (مصنف ابن ابی شیبۃ :  ۷/۱۵۴ رقم ۲۰۸۲۰ وسندہٗ صحیح)
(۲)امام شہاب الزہری تابعی اور امام قتادہ بن دعامہ تابعیo کا مؤقف:
مشہور محدث تبع تابعی ،امام معمر بن راشدmفرماتے ہیں کہ
[أَبِیْعُکَ بِعَشَرَۃِ دَنَانِیْرَ نَقْدًا، أَوْبِخَمْسِۃَ عَشْرَ اِلٰی أَجَلٍ ، قَالَ مَعْمَرٌ وَکَانَ الزُّہْرِیُّ وَقَتَادَۃَ لا یَرَیَانِ بِذَالِکَ بَأْسًا ، اِذَا فَارَقَہٗ عَلٰی أَحَدِہِمَا ۔ )
ترجمہ:(بائع اگر مشتری کو کہے کہ یہ چیز ) میں تجھے نقد پر دس دینار میں اور مقرر مدت کے ادھار پر پندرہ میں فروخت کرتا ہوں،تو امام معمرmفرماتے ہیں کہ امام زہریmاورامام قتادہmاس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اگر وہ نقد و ادھار میں کسی ایک قیمت کے طے ہونے پر جُدا ہوں (مصنف عبدالرزاق : ۸/۱۳۷رقم ۱۴۶۳۰وسندہٗ صحیح)
(۳)عظیم تابعی سعید بن المسیبmکا مؤقفـ:
  [أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزََّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ،وَعَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِیْہِ ،وَعَنْ قَتَادَۃَ عَنْ ابنِ الْمُسَیِّبِ : قَالُوْا  لَا بَأْسَ بِأََنْ یَّقُوْلَ : أَبِیْعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ  بِعَشَرَۃٍ اِلٰی شَہْرٍ، أَوْ بِعِشْرِیْنَ اِلٰی شَہْرَیْنِ ،فَبَاعَہٗ عَلٰی أَحَدِہِمَا قَبْلَ أَنْ یُّفَا رِقَہٗ ،فَلَا بَأْسَ بِہٖ ]
ترجمہ:امام زہری ،امام طاؤس اور ابن المسیبnفرماتے ہیں ،یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں تجھے یہ کپڑا مہینے کے ادھار پر دس میں اور دو مہینے کے ادھار پر بیس میں فروخت کرتا ہوں اور پھر جُدا ہونے سے پہلے اسے کسی ایک معین قیمت پر فروخت کردے ،تو اس میں کوئی حرج نہیں
  (مصنف عبدالرزاق :  ۸/۱۳۶،۱۳۷رقم ۱۴۶۲۶مطبوعہ بیروت سندہٗ صحیح)
(۴)عظیم تابعی امام ابراہیم نخعی ،حکم بن عتیبہ ،حماد بن ابو سلیمان تابعیnکا مؤقف:
امیر المومنین فی الحدیث ،امام شعبہ بن حجاج mبیان کرتے ہیں [حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ : وَحَمَّادًا عَنِ الرَّجُلِ الشَّیْئَ فَیَقُوْلُ : اِنْ کَانَ بِنَقْدٍ فَبِکَذَا ، وَاِنْ کَانَ اِلٰی أَجَلٍ فَبِکَذَا ، قَالَ: لَا بَأْسَ اِذَا انْصَرَفَ عَلٰی أَحَدِہِمَا قَالَ :شُعْبَۃُ ، فَذَکَرْتُ ذَالِکَ لِمُغِیْرَۃَ فَقَالَ:  کَانَ اِبْرَاہِیْمُ لَا یَرٰی بِذَالِکَ بَأْ سًا اِذَا تَفَرَّقَ عَلٰی أَحَدِہِمَا ۔ ]
ترجمہ: کہ میں نے امام حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابو سلیمان oسے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو کسی سے کوئی چیز خریدتا ہے ،توبیچنے والا کہتا ہے نقدا تنے میں اور اتنی مدت کے ادھار پر اتنے میں ،ان دونوں نے فرمایا جب وہ نقد وادھار میں سے کسی ایک معاملے پر جُدا ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ، امام شعبہmفرماتے ہیں میں نے یہ بات مغیرہ بن مقسمmسے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ ابراہیم نخعیmبھی اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اگر بیچنے والا اور خریدار نقد وادھار میں سے کسی ایک معاملے پر جُدا ہوتے
(مصنف ابن ابی شیبۃ بتحقیق محمد عوامہ:  ۱۰/۵۹۵،۵۹۴رقم۲۰۸۳۶ سندہٗ صحیح) 
(۵)امام اعظم نعمان بن ثابت ابو حنیفہm(م۱۵۰ھ)کا مؤقف:
علامہ ابن عبدالبرm’’بیعتین فی بیعۃ‘‘کی تفسیر میںلکھتے ہیں
[وقال أبو حنیفۃ وأصحابہ اذا اشتری الرجل بیعا من رجل الٰی أجلین فتفرقا علیٰ ذالک  ،فلا یجوز : وذالک أنہ لا یکون الٰی أجلین الا عن ثمنین ،فان قال : ہو بالنقد بکذا ، وبالنسیئۃ بکذا ثم افترقا علی قطع أحد البیعتین  فہو جائز  ]
یعنی امام ابو حنیفہmاور ان کے اصحاب فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص ایک بیع میں دو سودے کرتا ہے اور پھر اسی پر جُدا ہوجاتا ہے تو یہ جائز نہیں،اوراگر وہ یہ کہتا ہے کہ میں نقد اتنے میں اور ادھار اتنے میں بیچتا ہوں پھر ان دو قیمتوں میں سے ایک قیمت پر بیع کرکے جُدا ہوتا ہے تو یہ جائز ہے   
(الاستذکار الجامع لمذاہب فقہاء الأمصار:  ۶/۴۵۲ مطبوعہ بیروت)
علامہ ابن رشدmلکھتے ہیں ’’کہ اگر وہ کسی ایک صورت کو متعین کیے بغیر جدا ہوگیا توامام ابوحنیفہmاور امام شافعیmکے نزدیک اب بیع درست نہ ہوگی کیونکہ وہ دونوں غیر معلوم ثمن پر جدا ہوئے اور یہ بیع جہالت ثمن کی وجہ سے ممنوع ہوگی(یعنی اگر کسی ایک صورت کو متعین کیا تو پھر جائز ہے‘‘ (بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد:  ۲/۱۵۴ کتاب البیوع مطبوعہ مصر) 
(۶)امام مدینہ ،امام مالکm (م۱۷۹ھ)کا مؤقف:
امام مالک mنے اس حدیث کی تین تفسیریں بیان کی ہیں ،موطاء کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن عبدالبرmنے امام مالکmکا مؤقف لکھا ،لکھتے ہیں [وَقَدْفَسَّر مَالِکٌ مَذْہَبَہٗ فِی مَعْنَی النَّہْیِ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، وَأَنَّ ذَالِکَ عِنْدِہٗ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَوْ جُہٍ ،أَحَدُہَا الْعِیْنَۃُ ، وَالثَّانِی أَنَّہٗ یَدْخُلُہٗ مَعَ الطَّعَامِ مِنْ جِنْسٍ وَّاحِدٍ مُتَفَاضِلًا ، وَالثَّالِثُ أَنَّہٗ مِنْ بُیُوْعِ الْغَرَرِ ۔   ]
ترجمہ:امام مالکmنے ایک بیع میں دو سودے کرنے کی ممانعت والی حدیث کے معنٰی و مفہوم میں اپنا مؤقف واضح کردیا ہے ،ان کے نزدیک اس کی تین صورتیں ہیں ،ایک صورت بیع عینہ(کسی سے زیادہ قیمت میں ادھار خرید کر اسی کو کم قیمت میں نقد بیچ دینا )،دوسری صورت ایک قسم کے غلے کا کمی وبیشی کے تبادلہ کرنا ،اور تیسری صورت بیع غرر(دھوکے کی بیع) ہے
(الاستذکار الجامع لمذاہب فقہاء الأمصار:  ۶/۴۰۳)
نقد وادھار کا فرق صرف ان تینوں قسموں میں سے صرف بیع غرر پر منطبق ہوتا ہے،بیع غرر اس کو کہتے ہیں جس میں کوئی دھوکہ ہو یعنی کوئی چیز چھپی ہوئی ہو ،جس بیع میں ابہام ہو یا چیز نامعلوم ہو یا پھر قیمت نامعلوم ہو یہ سب معاملات بیع غرر ہی میں آتے ہیں لیکن جب قیمت یا چیز کا تعین ہو یا مدت کا تعین ہو تو وہ بیع غرر نہیں ہوتی ،معلوم ہوا کہ امام مالکmبھی جمہور محدثین کی طرح کسی ایک قیمت کے تعین پر اس بیع کو ناجائز نہیں سمجھتے جیسا کہ اس عبارت سے بات واضح ہے 
(۷)امام شافعیm(م۲۰۴ھ)کا مؤقف:
امام شافعیm بھی ایسی بیع کو ناجائز کہتے ہیں جس میں عدم تعین ہو ،قیمت مقرر نہ ہو یا دھوکہ ہو، امام شافعیmلکھتے ہیں
[وَ نَہَی النَّبِیُّ a عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ ، وَ مِنْہُ أَنْ أَقُوْلَ : سِلْعَتِی ہٰذِہٖ لَکَ بِعَشَرَۃٍ نَقْدًا، أَوْ بِخَمْسَۃَ عَشَرَ اِلٰی أَجَلٍ، فَقَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ بِأَحَدِ الثَّمَنَیْنِ، لِأَنَّ الْبَیْعَ لَمْ یَنْعَقِدْ بِشَیْئٍ مَّعْلُوْمٍ۔]   (کتاب الأم للشافعی : ۷/۲۹۱ مطبوعہ بیروت)
ترجمہ: حضورنبیa  نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے اس کی ایک قسم یہ ہے کہ میں کہوں میرا یہ سامان تیرے لیے نقد میں دس کا اور ایک مدت کے ادھار میں پندرہ کا ہے یوں خریدار پر یہ بیع دو قیمتوں میں سے ایک (نامعلوم) قیمت پر پکی ہوگی ،لیکن یہ کسی معین چیز پر بیع طے نہیں ہوئی
معلوم ہوا کہ امام شافعیmکے نزدیک عدم تعین کی وجہ سے بیع ناجائز ہے نہ کہ وہ اس کو سود فرما رہے ہیں جیسا کہ ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلدنے [الحدیث:شمارہ۴۰ص ۳۱ نمبر۹ ] کے تحت امام شافعی mکی طرف یہ منسوب کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس کو سود قراردیتے ہیں ،جو صرف ان کی کتر بیونت اور غلط ملط ترجمے کا کرشمہ ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ،اہل علم محققین عدم تعین کی وجہ سے اس کو ناجائز قرار دیتے ہیںنہ کہ اضافے کو سود قرار دے کے ناجائز کہتے ہیں ،بلکہ تعین کی صورت میں اس بیع کو جائز کہتے ہیں جیسا کہ علماء محدثین کے فیصلے آپ کے سامنے ہیں
امام شافعیmکی دوسری عبارت ملاحظہ فرمائیے
[بَابُ الْبَیْعِ بِالثَّمَنِ الْمجْہُوْلِ۔۔۔(قَالَ الشَّافِعِیُّ) :۔۔۔۔۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ a  نَہٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ، (قَالَ الشَّافِعِیُّ): وَہُمَا وَجْہَان، أَحَدُہُمَا أَنْ یَّقُوْلَ : قَدْ بِعْتُکَ ہٰذَا الْعَبْدَ بِأَلْفِ نَقْدًا أَوْ بِأَلْفَیْنِ اِلٰی سَنَۃٍ ، قَدْ وَجَبَ لَکَ بِأَیِّہِمَا شِئْتُ أَنَا وَشِئْتَ أَنْتَ، فَہٰذَا بَیْعُ الثَّمَنِ ، فَہُوَ مَجْہُوْلٌ ] (مختصر المزنی من علم الشافعی  :  ۱/۸۸ مطبوعہ بیروت)
ترجمہ:’’نامعلوم قیمت والی بیع کا بیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امام شافعیmفرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہhسے روایت ہے کہ رسول اللہ a  نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا۔امام شافعیmفرماتے ہیں ،اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ بیچنے والا کہے ،میں تجھے یہ غلام نقد قیمت پر ایک ہزار میں ،جبکہ سال کے ادھار پر دو ہزار میں فروخت کرتا ہوں ۔ان میں جو میں چاہوں اور جو تو چاہے اس پر تیرے لئے معاملہ واجب ہوگیا یہ قیمت والا معاملہ ہے لیکن اس میں قیمت نامعلوم ہے (اس لئے یہ بیع فاسد ہے )‘‘
(۸)امام احمد بن حنبل m(م۲۴۱ھ)کا مؤقف:
امام احمد بن حنبلmسے ان کے بیٹے ابو الفضل صالح نے پوچھا[اَلرَّجُلُ یَبِیْعُ الْمَتَاعَ ، فَیَقُوْلُ : أَبِیْعُکَ بِا لنَّقْدِ بِأَلْفٍ ، وَاِلٰی شَہْرٍ بِأَلْفٍ وَمِائَۃٍ ،وَاِلٰی شَہْرَیْنِ بِأَلْفٍ وَّ مِائَتَیْنِ ،قَالَ ہٰذَا مَکْرُوہٌ اِلٰی أَنْ یُّفَارِقَہٗ عَلٰی أَحَدِ الْبُیُوْعِ۔ ]
ترجمہ:ایک شخص اپنا سامان یہ کہہ کر فروخت کرتا ہے کہ میں تجھے یہ سامان نقد میں ایک ہزار کا ،اور ایک مہینے کے ادھار پر ایک ہزارایک سو ،اور دو مہینے کے ادھار پر ایک ہزار دو سو کا بیچتا ہوں (تو اس بیع کا حکم کیا ہے؟)امام احمد بن حنبلmنے فرمایا یہ مکروہ ہے، مگر یہ کہ خریدنے والا بیچنے والے سے کسی ایک معاملہ کو طے کرکے جُدا ہو (تو جائز ہے)
(مسائل الامام احمد روایۃ ابنہ أبی الفضل صالح :  ۱/۳۷۸رقم المسئلۃ۳۵۳مطبوعہ الہند  )
(۹)امام ابو عیسٰی ترمذیm(م۲۷۹ھ)کا مؤقف:
امام ابو عیسٰیm ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
[حَدِیْثُ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ حَدِیْثُ حَسَنٌ صَحَیْحٌ،وَالْعَمَلُ عَلٰی ہٰذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ : وقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ،قَالُوْا:بَیْعَتَیْنِ  فِیْ بَیْعَۃٍ أَنْ یَقُوْلَ: أَبِیْعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشَرَۃٍ:وَنَسِیْئَۃً بِعِشْرِیْنَ،وَلَا یُفَارِقَہٗ عَلٰی أحَدِ الْبَیْعَیْنِ، فَاِذَا فَارَقَہُ عَلٰی أَحَدِہِمَا فَلَا بَأْسَ]
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہhکی حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے اور اس حدیث کی تفسیر میں بعض اہل علم نے کہا کہ ایک چیز میں دو بیعوں کا معنی یہ ہے کہ آدمی کہے : میں تجھے یہ کپڑا نقد دس کا اور ادھار بیس کا بیچتا ہوں اور اگر وہ اس میں کسی ایک صورت کو طے کرکے جدا نہیں ہوا تو ناجائز ہے ،لیکن اگر وہ ان میں کسی ایک صورت کو طے کرکے جدا ہوا تو اس میں کوئی حرج نہیں (یعنی جائز ہے)(جامع ترمذی  :  ۳/۵۳۳تحت رقم الحدیث ۱۲۳۱مطبوعہ بیروت)
جبکہ ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلدنے [الحدیث:شمارہ۴۰ص ۳۲،۳۱ نمبر۱۰ ]کے تحت امام ابو عیسٰی ترمذیmکا نامکمل قول جامع ترمذی سے نقل کیااور اس سے اپنا مطلب کشید کرنے کی کوشش کی، ہم نے اسی قول کو مکمل لکھ دیاہے جس سے بات واضح ہوجاتی ہے
(۱۰)امام الحسین بن مسعود البغویm(م۵۱۶ھ)کا مؤقف:
[وَفَسََّرُوا الْبَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ عَلٰی وَجْہَیْنِ، أَحدُہُمَا أَنْ یَّقُوْلَ: بِعْتُکَ ہٰذَاالثَّوْبَ بِعَشْرَۃٍ نَقْدًا،أوْ بِعِشْرِیْنَ نَسِیئَۃً اِلٰٰی شَہْرٍ ، فَہُوَ فَاسِدٌ عِنْدَ أَکْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ ،لِأَنَّہٗ لَا یُدْرٰی أَیُّہُمَا الثَّمَنُ ، وَجَہَالَۃُ الثَّمَنِ تَمْنَعُ صِحَّۃَ الْعَقْدِ ، وَقَالَ طَاوُوسٌ : لَا بَأْسَ بِہٖ ، فَیَذْہَبُ بِہٖ عَلٰی أَحَدِہِمَا ، وَبِہٖ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ ،وَالْحَکَمُ ، وَحَمَّادٌ ،وَقَالَ الْأَوْزَاعِیُّ : لَا بَأْسَ بِہٖ، وَلٰکِنْ لَّا یُفَارِقُہٗ حَتّٰی یُبَاتَّہٗ بِأَحَدِہِمَا ، فَاِنْ فَارَقَہٗ قَبْلَ ذَالِکَ ،فَہُوَ لَہٗ بِأَقَلِّ الثَّمَنَیْنِ اِلٰی أَبْعَدِ الْأَجَلَیْنِ ، أَمّا اِذَا بَاتَّہٗ عَلٰی أَحَدِ الْأِمْرَیْنِ فِی الْمَجْلِسِ ، فَہُوَ صَحِیْحٌ بِہٖ ، لَا خِلَافَ فِیْہِ۔ ] (شرح السنۃ للبغوی :  ۸/۱۴۳مطبوعہ دمشق)
ترجمہ:’’بیعتین فی بیعۃ کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ ایک آدمی یہ کہے کہ میں یہ کپڑا نقد ادائیگی پر دس میں اور ادھار ادائیگی پر بیس میں بیچتا ہوں ،یہ صورت اکثر اہل علم کے نزدیک فاسد ہے کیونکہ اس میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل قیمت کون سی ہے ؟ قیمت کے نامعلوم ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ صحیح نہیں ، امام طاؤس mفرماتے ہیں کہ نقد و ادھار میںسے کسی ایک معاملے کو طے کر لیا جائے ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ،امام ابراہیم نخعیm،حکم m اور حمادmبھی یہی فرماتے ہیں ،امام اوزاعی mفرماتے ہیں ،نقد وادھار کی قیمت میں فرق جائز ہے لیکن خریدنے والا اس وقت تک بیچنے والے سے جُدا  نہ ہو،جب تک نقد و اُدھار میں کوئی ایک معاملہ طَے نہ ہوجائے ،اگر اس سے پہلے جُدا ہوگیا ،تو پھر کم قیمت اور زیادہ مدت پر معاملہ طے ہوگا ،البتہ اگر نقدو اُدھار میں سے کسی ایک معاملے کو اسی مجلس میں طے کر لیا جائے ،تواس کے دُرست ہونے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں‘‘ امام بغویm کی اس عبار ت سے ان کامؤقف واضح ہے کہ نقد و اُدھار میں سے کسی ایک صورت کو طے کرلیا جائے تو یہ بیع درست ہے بلکہ اس پر اہل علم کا اتفاق نقل کرہے ہیں جبکہ ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلد [الحدیث:شمارہ۴۰ص ۳۲نمبر۱۱]کے تحت امام بغوی mکی ایک عبارت سے اپنا مفہوم کشید کرتے ہوئے اس بیع کو ناجائز ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہدایت عطاء فرمائے
(۱۱)راوی حدیث سماک بن حربmکا مؤقف:
علامہ شوکانی غیر مقلد جو غیر مقلدین کے بڑے بزرگوں میں سے ہیں وہ لکھتے ہیں [فَسَّرَہٗ سِمَاکٌ بِمَا رَوَاہُ الْمُصَنِّفِ عَنْ أَحْمَدَ عَنْہُ ،وَقَدْ وَافَقَہٗ عَلٰی مِثْلِ ذَالِکَ الشَّافِعِیُّ : فَقَالَ بِأَنْ یَّقُوْلَ : بِعْتُکَ بِأَلْفٍ نَقْدًا أَوْ أَلْفَیْنِ اِلٰی سَنَۃٍ ، فَخُذْ أَیُّہُمَا شِئْتَ أَنْتَ وَشِئْتُ أَنَا ،وَنَقَلَ ابْنُ الرِّفْعَۃِ عَنِ الْقَاضِی اِنَّ الْمَسْأَلَۃَ مَفْرُوْضَۃٌ عَلٰی أَنَّہٗ قَبِلَ عَلَی الْاِبْہَامِ ،أَمَّا لَوْ قَالَ : قَبِلْتُ بِأَلْفٍ نَقْدًا ،بِأَلْفَیْنِ بِالنَّسِیْئَۃِ صَحَّ ذَالِکَ ]
ترجمہ:اس کی تفسیر سماک بن حربmنے وہ کی ہے جو صاحب کتاب(منتقی الاخبار)نے امام احمد mکی روایت سے ذکر کی ہے ،امام شافعیmنے بھی اس سلسلے میں ان کی مواقت کی ہے ،وہ فرماتے ہیں (ناجائز یہ ہے کہ)وہ کہے : میں نے یہ چیز نقد ایک ہزار کی اور سال کے ادھار پر دو ہزار کی بیچی ،ان دونوں صورتوں میں جو تمہیں اور مجھے پسند ہے اسے لے لو ،ابن رفعہ (احمد بن محمد شافعیm) نے قاضی(عیاض مالکیm) سے نقل کیا ہے کہ یہ مسئلہ اس صورت میں ہے ،جب وہ اسی ابہام و عدمِ تعین پر بیع کو قبول کرلے اگر وہ یہ کہہ دے کہ میں نے یہ چیز ایک ہزار میں نقد یا دو ہزار میں ادھار لی ،تو یہ بالکل درست ہے (نیل الاوطار للشوکانی : ۵/۲۱۴)
اسی طرح شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد نے بھی سماک بن حرب mکا یہی مؤقف بیان کیا ہے
(عون المعبود فی شرح سنن ابوداؤد:  ۹/۲۳۸)
عبدالرحمن مبارک پوری غیر مقلد نے بھی سماک بن حرب mکی اسی تفسیر کو نقل کیا ہے
(تحفۃ الأحوذی:  ۴/۳۵۸)
لہٰذا اس کے برعکس سماک بن حرب کا مؤقف کشید کرنا درست نہیں نہ ہی ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلد نے [الحدیث:شمارہ۴۰ص ۳۰ نمبر۳ ]کے تحت کوئی سماک بن حرب کا قول نقل کیا ہے بس اتنا لکھ دیا ہے کہ مسند احمد میں سماک بن حرب کا یہی قول ہے جو کہ ایک مجہول بات ہے
(۱۲)عظیم تابعی امام طاؤسmکا صحیح مؤقف:
امام طاؤسmکا صحیح مؤقف کیا ہے ملاحظہ فرمائیے:
[أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزََّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ،وَعَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِیْہِ ،وَعَنْ قَتَادَۃَ عَنْ ابنِ الْمُسَیِّبِ : قَالُوْا  لَا بَأْسَ بِأََنْ یَّقُوْلَ : أَبِیْعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ  بِعَشَرَۃٍ اِلٰی شَہْرٍ، أَوْ بِعِشْرِیْنَ اِلٰی شَہْرَیْنِ ،فَبَاعَہٗ عَلٰی أَحَدِہِمَا قَبْلَ أَنْ یُّفَا رِقَہٗ ،فَلَا بَأْسَ بِہٖ ]
ترجمہ:امام زہری ،امام طاؤس اور ابن المسیبnفرماتے ہیں ،یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں تجھے یہ کپڑا مہینے کے ادھار پر دس میں اور دو مہینے کے ادھار پر بیس میں فروخت کرتا ہوں اور پھر جُدا ہونے سے پہلے اسے کسی ایک معین قیمت پر فروخت کردے ،تو اس میں کوئی حرج نہیں
  (مصنف عبدالرزاق :  ۸/۱۳۶،۱۳۷رقم ۱۴۶۲۶مطبوعہ بیروت سندہٗ صحیح)
ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلدنے [الحدیث:شمارہ۴۰ص ۳۰ نمبر۶ ]کے جو کچھ امام طاؤس mسے نقل کیا ہے وہ ان کے مؤقف کی بات ہی نہیں صرف نمبر بڑھانے کے ان کا ایک قول نقل کردیا ہے
اسی طرح ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلدنے [الحدیث:شمارہ۴۰ص ۳۰ نمبر۷ ]کے تحت امام نسائیmکا قول نقل کیا جوکہ سنن نسائی کے باب [بیعتین فی بیعۃ] کے تحت تھا وہ بھی ایک نامکمل قول ہے جس میں ان کا کوئی مؤقف واضح نہیں اور اگر اس قول کا مفہوم دیگر محدثین کے اقوال کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کا مؤقف یہ بنتا ہے کہ قیمت مجہول ہونے کی بنا ء پر یہ ناجائز ہے جو کہ ہمارے مؤقف کی ہی تائید ہے 
 ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلدنے [الحدیث:شمارہ۴۰ص ۳۱ نمبر۸ ] کے تحت حافظ ابن حبان کا ایک قول لکھا [کسی چیز کو ادھار سو دینار اور نقد نوے دینار میں بیچنے پر زجرو توبیخ کا بیان]جس سے یہ مطلب کشید کیا کہ قسطوں کا کاروبار ناجائز ،جبکہ یہ قول بیع مجہول کی ممانعت کا ہے جب لین واضح ہو اور کسی ایک بات پر معاملہ طے ہو جائے تو جائز ہے جیسا کہ محدثین کے صریح اقوال سے بات واضح ہے
(۱۳)حافظ ابو سلیمان أحمد بن محمد الخطابی البستیm(م۲۸۸ھ)کا مؤقف:
ٓآپ سنن ابو داؤد کی شرح’’معالم السنن‘‘ میں فرماتے ہیں
[وَتَفْسِیْرُ مَا نُہِیَ عَنْہُ مِنْ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَہٍ عَلٰی وَجْہَیْنِ ، أَحَدَہُمَا أِنْ یَّقُوْلَ بِعْتُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشْرَۃٍ وَنَسِیئَۃً بِخَمْسَۃَ عَشَرَ ،فَہٰذَا لَا یَجُوزُ لِأَنَّہٗ لَا یُدْرٰی أَیُّہُمَا الثَّمَنُ الَّذِی یَخْتَارُہٗ مِنْہُمَا ، فَیَقَعُ بِہِ الْعَقْدُ ، وَاِذَا جُہِلَ الثَّمَنُ بَطَلَ الْبَیْعُ ۔ ] (معالم السنن للخطابی:  ۳/۱۲۳مطبوعہ حلب)
 ترجمہ:ایک بیع میں دو سودے کرنے والی حدیث کی دو تفسیریں کی گئی ہیں ،ایک تو یہ کہ بیچنے والا یوں کہے کہ میں تجھے یہ کپڑا نقد قیمت پر دس میں اور ادھار پر پندرہ میں دوں گا ،یہ صورت جائز نہیں ،کیونکہ اس صورت میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خریدنے والا کون سی قیمت منتخب کرے گا اسی طرح ہی سودا طے ہو جاتا ہے ،لیکن جب قیمت نامعلوم ہو تو بیع باطل ہو تی ہے
تھوڑا آگے جا کے اسی جلد اور اسی صفحہ پر لکھتے ہیں
[وَحَکی عَنْ طَاوٗسٍ أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أنْ یَّقُوْلَ لَہٗ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشَرَۃٍ وَاِلٰی شَہْرَ بِخَمْسَۃٍ عَشَرَ ،فَیَذْہَبُ بِہٖ اِلٰی أَحَدِہِمَا ، وَقَالَ الْحَکَمَ وَحَمَّاد ، لَا بَأْسَ بِہٖ ، مَا لَمْ یفْتَرقا   ]
ترجمہ: یعنی امام طاؤس mکے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں کوئی کہے کہ یہ کپڑا میں نقد دس میں اور ایک مہینہ کے ادھار پر پندرہ میں بیچتا ہوں جبکہ وہ ان میں سے کسی ایک معاملہ پرطے کرکے جُدا ہوں ،اور امام حکم اور امام حماد oبھی اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے اگر وہ جُدا ہونے سے پہلے طے کرلیں    (معالم السنن للخطابی:  ۳/۱۲۳مطبوعہ حلب)
(۱۴)امام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامۃ بن عبدالملک بن سلمۃ الازدی الحجر المصری المعروف بالطحاویm(م۳۲۱ھ)کا مؤقف:
امام طحاویm اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں فرماتے ہیں [اَنْ یَّقَعَ الْبَیْعُ عَلٰی اَلَفِ دِرْہَمٍ حَالٍ أَوْ عَلٰی مِائَۃِ دِیْنَارٍ اِلٰی سَنَۃٍ فَیَقَعُ الْبَیْعُ عَلٰی أَنْ یُّعْطِیَہُ الْمُشْتَرِیْ أَیُّہُمَا شَآئَ ، فَا لْبَیْعُ فَاسِدٌ : لِأَنَّہٗ وَقَعَ بِثَمَنٍ مَّجْہُوْلٍ۔]
ترجمہ: اگر نقد لے تو ایک ہزار درہم دے،اور اگر ایک سال بعد دے تو ایک سو دینار دے تو اس طرح سودا اس بات پر واقع ہوگا کہ خریدنے والا جو چاہے دے ،تو یہ بیع فاسد ہے کیونکہ مجہول قیمت پر ہے (شرح معانی الآثار:  ۴/۴۷تحت رقم ۵۶۶۱)
(۱۵)امام ابو عبید قاسم بن سلامm(م۲۲۴ھ)کا مؤقف:
امام ابو عبیدقاسم بن سلا م mحضرت عبدللہ بن مسعود hکی روایت [صَفْقَتَانِ فِی صَفْقَۃٍ رِبَا]کی شرح میں فرماتے ہیں
[مَعْنَاہُ أَنْ یَقُوْلَ الرَّجُلُ : أَبِیْعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِالنَّقْدِ بِکَذَا ،وَبِالتَّأْخِیْرِ بِکَذَا ،ثُمَّ یَفْتَرِقَانِ عَلٰی ہٰذَا الشَّرْطِ ،وَ مِنْہُ حَدِیْثُ النَّبِیِّ  aاِنَّہٗ نَہٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ ،فَاِذَا فَارَقَہٗ عَلٰی أَحَدِ الشَّرْطَیْنِ بِعَیْنِہٖ ، فَلَیْسَ بِبَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ۔]ترجمہ:اس کا معنیٰ یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار سے کہے : میں تجھے یہ کپڑا نقد اتنے میں اور ادھار پر اتنے میں بیچتا ہوں پھر وہ دونوں اسی (مبہم)شرط پر جُدا ہوجائیں ،نبیa کے اس فرمان کابھی یہی ہے مطلب ہے ،جس میں آپa  نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا ہے ،اگر خریدار بیچنے والے سے نقد و ادھار میں سے کسی ایک خاص شرط پر جُدا ہو ،تو یہ معاملہ ایک بیع میں دو سودوں والا ہے ہی نہیں(غریب الحدیث لأبی عبید ابن سلام:  ۴/۱۱۰مطبوعہ حیدرآباد دکن الہند)
(۱۶) ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبیm(م۵۹۵ھ)کا مؤقف:
علامہ ابن رشدmلکھتے ہیں
[کہ اگر وہ کسی ایک صورت کو متعین کیے بغیر جدا ہوگیا توامام ابوحنیفہmاور امام شافعیmکے نزدیک اب بیع درست نہ ہوگی کیونکہ وہ دونوں غیر معلوم ثمن پر جدا ہوئے اور یہ بیع جہالت ثمن کی وجہ سے ممنوع ہوگی(یعنی اگر کسی ایک صورت کو متعین کیا تو پھر جائز ہے)
(بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد:  ۲/۱۵۴ کتاب البیوع مطبوعہ مصر) 
(۱۷)امام أبی بکر محمد بن ابراہیم بن المنذرالنیشاپوری m(م۳۱۹ھ)کا مؤقف:
امام ابن المنذرm نے اپنی کتاب[الاشراف علی  مذاہب العلماء] میں حدیث ’’بَیْعَتَیْنِ  فِیْ بَیْعَۃ‘‘کی تفسیر میں امام طاؤس،امام حکم اور امام حمادnکا قول ذکر کیا ہے  وہ فرماتے ہیں [وقد روینا عن طاووس ،والحکم ،و حماد أنہم قالوا: لابأس  بأن یقول : أبیعک بالنقد بکذا، وبالنسیئۃ بکذا ،فیذہب بہ علٰی أحدہما ، وقال الحکم ،وحماد مالم یفترقا]
یعنی اس میں کوئی حرج نہیں اگر کوئی یہ کہے کہ میں نقد میں اتنے کا بیچتا ہوں اور ادھار میں اتنے کا ، اگر بیچنے والا اور لینے والا جُدا ہونے سے پہلے نقد و ادھار میں کسی ایک قیمت کو طے کرلے
(الاشراف علی  مذاہب العلماء : ۶/۴۲ مطبوعہ متحدہ عرب امارات)
(۱۸)علامہ جمال الدین ابو محمد عبداللہ بن یوسف بن محمد الزیلعیm(م۷۶۲ھ)کا مؤقف:
علامہ زیلعیmاپنی مشہور زمانہ کتاب ’’نصب الرایۃ‘‘ میں لکھتے ہیں
 کہ [وَفَسَرَّہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ : أَنْ یَقُوْلَ  الرَّجُل ُ: أَبِیْعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشَرَۃٍ:وَنَسِیْئَۃً بِعِشْرِیْنَ،وَلَا یُفَارِقَہٗ عَلٰی أحَدِ الْبَیْعَیْنِ، فَاِذَا فَارَقَہُ عَلٰی أَحَدِہِمَافَلَا بَأْسَ     ]
ترجمہ:اور بعض اہل علم اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ یہ کپڑا مَیں نقد دس میں دوں گا اور ادھار بیس میں ،اگر وہ ان میں سے کسی ایک سودے کو طے کرکے جدا ہوئے تو اس میں کوئی حرج نہیں یعنی جائز ہے (نصب الرایۃ: ۴/۲۰)
(۱۹)علامہ یوسف بن عبداللہ، ابن عبدالبر mمالکی (م۴۶۳ھ)کا مؤقف:
آپ ’’بیعتین فی بیعۃ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں [وَمِمَّا نَہٰی عَنْہُ : بَیْعَتَانِ فِی بَیْعِۃٍ ، وَذَالِکَ أَنْ یَّبِیْعَ الرَّجُلُ سِلْعَۃً بِخَمْسَۃٍ نَقْدًا : أَقْ عَشْرَۃٍ اِلٰی أَجَلٍ ، قَدْ وَجَبَ الْبَیْعُ بِأَحَدِ الثَّمَنَیْنِ ، وَالْبَائِعُ بِالْخِیَارِ بِأَیِّ الثَّمَنَیْنِ شَائَ أَوْ جَبَ بِہٖ لِلْمُشْتَرِی ، فَہٰذَا بَیْعٌ فَاسِدٌ ۔۔۔۔فَاِنْ کَانَ الْبَیْعُ عَلٰی أَنَّ الْمُشْتَرِیَ بِالْخِیَارِ فِیْہِمَا جَمِیْعًا ،بَیْنَ أَنْ یَأْخُذَ بِأَیَّتِہِمَا شَائَ ، وَبَیْنَ أَنْ یُّرَدَّہُمَا جَمِیْعًا ،فِذٰلِکَ جَائِزٌ ، وَلَیْسَ مِنْ بَابِ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ ، لِأَنَّ الْبَیْعَ ہٰہُنَا نَافِذٌ ، وَقَعَ عَلٰی شَیئٍ بِعَیْنِہٖ ، یَخْتَارُہٗ مِنْ شَیْئَیْنِ مَعْلُوْمَیْنِ لَہُ الْخِیَارُ فِی أَحَدِہِمَا وَ السِّلْعَۃُ الْأُولٰی لَمْ یَقَعْ شِرَاؤُہَا عَلٰی شَیئٍ بِعَیْنِہٖ بِقَطْعٍٍ أَوْ خِیَارٍ۔ ]
ترجمہ:رسول اللہ a نے جن بیوع سے منع فرمایا ہے ،ان میں وہ ایک بیع ہے جن میں دو سودے کیے گئے ہوں اس کی ایک صورت یہ ہے کہ بیچنے والا نقد میں پانچ کا اور ادھار میں دس کا بیچ رہا ہو ،تو ان دونوں میں سے کسی ایک(نامعلوم)قیمت پر سودا ہوگا اور بیچنے والے کو اختیار ہوگا کہ وہ جو قیمت چاہے گا ،خریدنے والے کے ذمے لگائے گا یہ بیع فاسد ہے ۔۔۔۔۔ لیکن اگر یہ بیع اس طرح ہو کہ خریدار کو نقد یا ادھا ر میں سے کوئی ایک قیمت منتخب کرنے یا دونوں کو رد کرنے کا اختیار ہو ،تو یہ جائز ہے اور ایک بیع میں دو سودوں کے زمرے میں نہیں آتی اس کی وجہ یہ کہ یہاں بیع ایسے معین معاملے پر طے ہوئی ہے جسے خریدار دو صورتوں میں پسند کرے گا اور اس کو ان دونوں میں سے کسی ایک کے منتخب کرنے کا مکمل اختیار ہے اس کے برعکس پہلے بیان کی گئی صورت میں چیز کی بیع کسی ایک طے شدہ معاملے یا خریدار کے اختیار پر واقع نہیں ہوئی تھی 
(الکافی فی فقہ أہل المدینۃ المالکی :  ۲/۷۴۰،۷۳۹مطبوعہ الریاض سعودی عرب)
(۲۰)ابواسحاق ابراہیم بن علی بن یوسف الشیرازیm(م۴۷۶ھ)کا مؤقف:
’’ْ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ ‘‘ کی تفسیر میں علامہ شیرازیmفرماتے ہیں 
[نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ a  عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ ، فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ الْمُرَادُ بِہٖ أَنْ یَّقُوْلَ  : بِعْتُکَ ہٰذَا بِأَلْفٍ نَقْدًا أَوْ بِأَلْفَیْنِ نَسِیئَۃً  ، فَلَا یَجُوزُ لِلْخَبْرِ ، وَلِأنَّہٗ لَمْ یَعْقِدْ عَلٰی ثَمَنٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ ](المہذب فی فقہ الامام الشافعی:  ۱/۲۶۷ )
ترجمہ:رسول اللہ aنے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا ہے اس کی ایک مراد یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی کہے میں تجھے یہ چیز نقدایک ہزار میں،اور دو ہزار میں  ایک سال کے ادھار پر بیچتا ہوںمذکورہ حدیث کی وجہ سے یہ ناجائز ہے اس لئے اس نے کسی معین قیمت پر معاملہ طے نہیں کیا 
(۲۱)شمس ا الأئمہ ابو بکرمحمد بن أحمد بن أبی سہل السرخسیm(م۴۸۳ھ)کا مؤقفـ :
 علامہ سرخسیmلکھتے ہیں [وَاِذَا عَقَدَ الْعَقْدَ عَلٰی أَنَّہٗ اِ لٰی أَجَلِ کَذَا بِکَذَا ،وَبِا لنَّقْدِ بِکَذَا ،أَوْ قَالَ اِلٰی شَھْرٍ بِکَذَا ،وَ اِلٰی شَھْرَیْن بِکَذَا ،فَہُوَ فَاسِدٌ : لَأَنَّہٗ لَمْ یُعَاطِہٖ عَلٰی ثَمَنٍ مَّعْلُوْمٍ ۔  ]
ترجمہ: جب کوئی اس صورت میں معاملہ کرے کہ اتنی مدت کے ادھار پر اتنی قیمت میں یا ایک مہینے کے ادھار پر اتنی قیمت میں اور دو مہینے کے ادھار پر اتنی قیمت میں ،تو یہ بیع فاسد ہے کیونکہ اس نے کسی معین قیمت پر معاملہ طے نہیں کیا۔ (المبسوط للسرخسی:  ۱۳/۱۳مطبوعہ بیروت)
(۲۲)علامہ ابوبکر بن مسعودبن احمد الکا سانیm(م۵۸۷ھ)کا مؤقف:
علامہ ابوبکر بن مسعودبن احمد الکا سانیm اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں
[وَقَدْ رُوِیَ  أِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ a  نَہٰی عَنْ بَیْعَیْنِ فِی بَیْعٍ ، وَکَذَا اِذَا قَالَ : بِعْتُکَ ہٰذَا الْعَبْدَ بِا َٔلْفِ دِرْہَمٍ اِلٰی سَنَۃٍ ، أَوْ بِأَلْفٍ وَخَمْسِمِائَۃٍ اِلٰی سَنَتَیْنِ ، لِأَنَّ الثَّمَنَ مَجْہُوْلٌ ۔ ]
ترجمہ: اور تحقیق رسول اللہ aسے روایت کیا گیا کہ آپ a نے منع فرمایا ایک بیع میں دو سودے کرنے سے،اسی طرح (یہ بیع بھی فاسد ہے)جب کوئی کہے : میں تجھے یہ غلام سال کے ادھار پر ایک ہزار درہم میں یا دو سال کے ادھار پر پندرہ سو درہم میں بیچا ،کیونکہ قیمت مجہول (معین نہیں )ہے ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع : ۱۱/۱۶۴)
(۲۳)ابو محمد موفق الدین عبد اللہ ،الشہیربابن قدامۃ المقدسیm(م۶۲۰ھ)کا مؤقف:
علامہ ابن قدامہ حنبلیm اس حدیث کی تفسیر میں لکھتے ہیں [ہَکَذَا فَسَّرَہٗ ،مَالِکٌ ،وَالثَّوْرِیُّ ،وَاِسْحَاقُ وَہُوَ أَیْضًابِاطِلٌ وَ ہُوَ قَوْلُ الْجُمْہُوْرِ ،لِأَنَّہٗ لَمْ یَجْزِمْ لَہٗ بِبَیْعٍ وَاحَدٍ ، فَأَشْبَہَ مَا لَوْ قَالَ : بِعْتُکَ ہٰذَا أَوْ ہٰذَا ،وَلِأَنَّ الثَّمَنَ مَجْہُوْلٌ ،فَلَمْ یَصِحَّ ، کَا لْبَیْعِ بِالرَّقَمِ  الْمَجْہُوْلِ ۔۔۔۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ طَاوٗسٍ وَالْحَکَمِ وَ حَمَّادٍ أَنَّہُمْ قَالُوْا : لَا بَأْسَ أَنْ یَقُوْلَ : أَبِیْعُکَ بِا لنَّقَدِ بِکَذَا ،وَبِا لنَّسِئَۃِ بِکَذَا ،فَیَذْہَبُ عَلٰی أَحَدِہِمَا ،وَہٰذَا مَحْمُوْلٌ عَلٰٰی أَنَّہٗ جَرٰی بَیْنَہُمَا بَعْدَ مَا یَجْرِی فِی الْعَقْدِ ،فَکَأَنَّ الْمُشْتَرِیَ قَالَ : أَنَا آخُذُہٗ بِالنَّسِئَۃِ بِکَذَا ، فَقَالَ : خُذْہُ ،أَوْ قَدْ رَضِیْتُ ،وَنَحْوَ ذٰلِکَ ،فَیَکُوْنُ عَقْدًا کَافِیًا ۔]
ترجمہ: جیسا کہ اس کی تفسیر میں امام مالک،امام سفیان ثوری اور امام اسحاق nکہتے ہیں کہ یہ بیع بھی باطل ہے جمہور بھی یہی کہتے ہیں کیونکہ اس میں کسی ایک معاملے کو طے نہیں کیا گیا ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے میں تمہیں یہ یا یہ چیز بیچتا ہوں یہ اس لئے بھی باطل ہے کہ قیمت معین نہیں اور ایسے ہی ہے جیسے نامعلوم قیمت پر بیع کی جارہی ہو ۔۔۔۔۔۔امام طاوس ،امام حکم اور امام حمادnسے منقول ہے کہ انہوں نے کہا اگر کوئی کہے :میں تجھے نقد اتنے میں ،جبکہ ادھار اتنے میں دوں گا اور خریدار کسی ایک قیمت پر معاملہ طے کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ،اس کا مطلب یہ ہے کہ سودا کرتے وقت بائع اور مشتری میں جو بحث و تکرار ہوتی ہے ،اسی میں مشتری نے کہہ دیا کہ میں اسے اتنے میں ادھار لیتا ہوں اور بائع نے کہہ دیا : لے لو یا میں راضی ہوں ،تو یہ سودا مکمل ہوجائے گا ۔
(المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل الشیبانی:  ۴/۳۱۳مطبوعہ بیروت    )
(۲۴)ابو السعادات المبارک بن محمد الشیبانی الجزری ابن الاثیرm(م۶۰۶ھ)کا مؤقف:
امام ابن اثیرmفرماتے ہیں
[نَہٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ ، ہُوَ أنْ یَّقُوْلَ : بِعْتُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشَرَۃٍ وَّ نَسِیئَۃً بِخَمْسَۃَ عَشَرَ ، فَلَا یَجُوزُ ، لِأَنَّہٗ لَا یَدْرِیْ أَیُّہُمَا الثَّمَنُ الَّذِی یَخْتَارُہٗ لِیَقَعَ عَلَیہِ الْعَقْدُ ۔  ](النہایۃ فی غریب الأثر لابن الاثیر:  ۱/۴۵۲مطبوعہ بیروت)
ترجمہ:نبیa  نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا اس کا معنیٰ یہ ہے کہ بیچنے والا کہے ، میں نے تجھے یہ کپڑا نقددس کا اور ادھار پندرہ کا بیچا ،یہ صورت جائز نہیں ،کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ کون سی قیمت منتخب کر رہا ہے تاکہ اس پر معاملہ طے ہو
(۲۵)محمد بن مکرم بن منظور الافریقی المصریm(م۷۱۱ھ)کا مؤقف:
علامہ منظور اپنی مشہور زمانہ کتا ب’’لسان العرب‘‘ میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں
 [نَہٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ ، ہُوَ أنْ یَّقُوْلَ : بِعْتُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ نَقْدًا بِعَشَرَۃٍ وَّ نَسِیئَۃً بِخَمْسَۃَ عَشَرَ ، فَلَا یَجُوزُ ، لِأَنَّہٗ لَا یَدْرِیْ أَیُّہُمَا الثَّمَنُ الَّذِی یَخْتَارُہٗ لِیَقَعَ عَلَیہِ الْعَقْدُ ۔] (لسان العرب لابن منظور:  ۸/۲۳ مطبوعہ بیروت)
ترجمہ:نبیa  نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا اس کا معنیٰ یہ ہے کہ بیچنے والا کہے ، میں نے تجھے یہ کپڑا نقددس کا اور ادھار پندرہ کا بیچا ،یہ صورت جائز نہیں ،کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ کون سی قیمت منتخب کر رہا ہے تاکہ اس پر معاملہ طے ہو
 (۲۶)حافظ ،یحییٰ بن شرف نوویm(م۶۷۶ھ)کامؤقف:
امام نوویmکا بھی یہی مؤقف ہے کہ یہ بیع باطل ہے قیمت کے معین نہ ہونے کی وجہ سے دیکھئے (المجموع شرح المہذب:   ۹/۳۱۴)
(۲۷)محمدبن أحمد، خطیب شربینیm(م۹۷۷ھ) کا مؤقف:
امام شربینیmنے اس حدیث کی تفسیرمیں لکھا [وَہُوَ بَاطِلٌ لِلْجَہَالَۃِ] ترجمہ: یہ بیع( قیمت کے )عدم تعین کی بناء پر باطل ہے (مغنی المحتاج الٰی معرفۃ ألفاظ المنہاج:  ۶/۳۶۲)
(۲۸)محمد بن احمد الدسوقی مالکیm(م۱۲۳۰ھ)کا مؤقف:
علامہ دسوقیmلکھتے ہیں[وَاِنَّمَا مُنِعَ لِلْجَہْلِ بِالثَّمَنِ حَالَ الْبَیْعِ ]
ترجمہ:یہ معاملہ اس لئے منع کیا گیا کہ بیع کے وقت قیمت معلوم نہیں ہوتی
(حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر :  ۱۱/۲۲۹)
(۲۹)علامہ عبدالرحمن مبارک پوری غیرمقلد (م۱۳۵۳ھ)کا مؤقف:
علامہ عبدالرحمن مبارک پور ی صاحب حدیث ’’بیعتین فی بیعۃ‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں
[قَالَ الْبَا ئِعُ : أَبِیْعُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَۃٍٍ وَ بِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ ، فَقَالَ الْمُشْتَرِی : اشْتَرَیْتُہٗ بِنَقْدٍ بِعَشَرَۃٍ ، ثُمَّ نَقَدَ عَشْرَۃَ دَرَاہِمَ ، فَقَدْ صَحَّ ہٰذَا الْبَیْعُ ، وَکَذَالِکَ اِذَا قَالَ الْمُشْتَرِی اشْتَرَیْتُہٗ  بِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ ، وَفَارَقَ الْبَائِعَ عَلٰی ہٰذَا ،صَحَّ الْبَیْعُ ،لِأنَّہٗ لَمْ یُفَارِقْہُ عَلیٰ اِیْہَامٍ وَّ عَدَمِ اسْتِقْرَارِ الثَّمَنِ ، بَلْ فَارَقَہٗ عَلٰی وَاحِدٍ مُّعَیَّنٍ مِّنْہُمَا ۔    ]
ترجمہ:جب بیچنے والا خریدار سے کہے کہ میں تجھے یہ کپڑا نقد قیمت پر دس میں اور اور ادھار پر بیس میں بیچتا ہوں اور خریدار یہ کہہ دے کہ میں اسے نقد دس میں خریدتا ہوں پھر دس درہم نقد دے بھی دے تو یہ بیع درست ہو گی اسی طرح جب خریدار کہے کہ میں اس کپڑے کو ادھار پر بیس درہم میں خریدتا ہوں اور اسی معاملے پر وہ بیچنے والے سے جُدا ہو جائے ،تو یہ بیع بھی درست ہو گی کیونکہ وہ کسی وہمی معاملے اور قیمت کے عدم تعین پر جُدا نہیں ہوا بلکہ ایک معین معاملے پر جُدا ہوا ہے
(تحفۃ الأحوذی:  ۳/۳۳۰تحت رقم الحدیث۱۱۵۲)
(۳۰)نواب صدیق حسن قنوجی  غیر مقلد(م۱۳۰۷ھ)کا مؤقف:
نواب صدیق حسن قنوجی غیر مقلداس حدیث کے تحت لکھتے ہیں [وَأمَّا بَیْعُ الشَّی ئِ بِأَکْثَرَ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ مُؤَجَّلًا؛  فَأَقُولُ : الزِّیَادَۃُ عَلٰی سِعْرِ یَوْمِ الْبَیْعِ لَیْسَتْ مِنَ الرِّبَا ئِ فِی وَرْدٍ  وَلَا صَدْرٍ ؛ لِأِنَّ الرِّبَا زِیَادَۃُ  أَحَدِ الْمُتَسَاوِیَیْنِ عَلَی الْآخَرِ ، وَلَا تَسَاوِی بَیْنَ الشَیئِ وَ ثَمَنِہٖ ، مَعَ اخْتِلَافِ جِنْسِہِمَافَلَا یَصِحُّ أَنْ یَکُوْنَ تَحْرِیْمُ ہٰذِہِ الصُّوْرَۃِ لِکَونِہَا رِبًا۔۔]
ترجمہ: رہا کسی چیز کو ایک مدت موجودہ قیمت سے زیادہ قیمت پر بیچنا ،تو میں کہتا ہوں کہ یہ کسی دور میں سود نہیں کہلایا ،کیونکہ دو برابر کی چیزوں میں سے ایک کا دوسرے سے زائد ہونا سود کہلاتا ہے یہاں چیز اور قیمت میں کوئی برابری نہیں ہوتی ،مزید یہ کہ ان کی جنس بھی ایک نہیں ہوتی لہٰذا اس صورت کو سود ہونے کی بنا ء پر حرام قرار دینا درست نہیں
(الروضۃ الندیّۃ شرح الدررالبہیّۃ :  ۲/۱۰۶مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) 
(۳۱)شیخ الکل نذیر حسین دہلوی غیر مقلدکا مؤقف:
ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں
[اگر بائع نقد کی صورت یا ادھار کی صورت کو متعین کرکے فروخت کرے تو بیع حلال وجائز ہے]جبکہ اسی صفحہ پر اسی حدیث کی شرح بھی نقل کی ہے ان کا اس مسئلہ پر ایک رسالہ بھی موجود ہے جس کا نام ہے ’’شفاء الغلل فی حکم زیادۃ الثمن لمجرد الاجل‘‘ (فتاوٰی نذیریہ: ۲/۱۶۳)
(۳۲)ثناء اللہ امرتسری غیر مقلدکا مؤقف:
ایک سوال کے جواب میںلکھتے ہیں [بائع نقد کی صورت یا ادھار کی صورت کو متعین کرکے فروخت کرے تو بیع حلال وجائز ہے] (فتاوٰی ثنائیہ : ۲/۳۶۵)
(۳۳)دور ِحاضر کے عرب محقق محمد بن محمد مختارالشنقیطی کا مؤقف:
علامہ شنقیطی لکھتے ہیں [وَ بَیْعُ التَّقْسِیْطِ  فِیْہِ شِبْہُ اِجْمَاعٍ عِنْدَالْعُلَمَائِ عَلٰی جَوَازِہٖ ، یَعْنِی شِبقہُ الْاِجْمَاعِ عَلٰی جَوَازِ بَیْعُ التَّقْسِیْطِ، وَلَیْسَ مِنْ بَیْعِتَیْنِ فِی بَیْعَۃ] (شرح زاد المستقنع للشنقیطی : باب الوکالۃ: الدرس :۶)
ترجمہ: اور قسطوں کی بیع(تجارت یا کاروبار)کے جائز ہونے پر علماء کرام کا اجماع ہے ،یعنی قسطوں کی بیع کے جائز ہونے پر اجماع ہے ،اور یہ ایک بیع میں دو سودوں میں سے نہیں ہے
a ’’بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ ‘‘ میں قیمت کا عدم تعین ہی ممانعت کا سبب ہےa
ابو الحسن مبشر ربانی غیر مقلد لکھتے ہیں اس جگہ بیع میں جہالت کا ہونامضر نہیں(الحدیث:شمارہ۴۰ص ۳۲نمبر۱)لیکن ان کا یہ فہم قابل قبول نہیں وہ اس وجہ سے کہ سلف صالحین ،فقہاء ومحدثین کا فہم قارئین آپ نے۳۳نمبروں کے تحت ملاحظہ فرمایا جب ساری امت یہ کہہ رہی کہ اس حدیث میں نقد وادھار میں سے کسی ایک قیمت کا عدم تعین ہی اس بیع کی ممانعت کا سبب ہے اسی لئے وہ سب یہ فرماتے ہیں کہ اگر نقد وادھار میں کسی ایک کا تعین ہوجائے تو یہ بیع جائز ہے اور اس فہم کے خلا ف اسلاف امت فقہاء ومحدثین سے کچھ بھی ثابت نہیں لہٰذا قابل قبول بھی نہیں جبکہ میں نے غیر مقلدین کے چوٹی کے محدثین سے بھی یہی فہم دکھایا ہے     
aسُود اُدھار میں ہوتا ہے نقد میں نہیں a
ابو الحسن غیر مقلد لکھتے ہیں ’’نبی aکا ارشاد گرامی ہے :((الربا فی النسیئۃ وفی روایۃ قال: لا ربا فیما کان یدًا بید۔))سودادھار میں ہوتا ہے اور ایک روایت میں ہے جو چیز نقد بیچی جائے اس میں سود نہیں
(صحیح بخاری:۲۱۷۸،۲۱۷۹،صحیح مسلم:۵۹۶،دار السلام:۴۰۸۸،۴۰۸۹،۴۰۹۰)دیکھئے الحدیث شمارہ۴۰ص۲۸،۲۷
الجواب: یہ ابو الحسن کا پیش کردہ مفہوم غلط ہے صحیح مفہوم ملاحظہ فرمائیں
صحیح بخاری میں امام بخاریmنے اس حدیث پر با ب باندھا ہے
[بَابُ بَیْعِ الدِّیْنَارِ بِالدِّیْنَارِ نَسَائً]دینار کی دینار کے ساتھ ادھار بیع کا بیان (صحیح بخاری :  ۳/۹۷مطبوعہ قاہرہ)
صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدریhکی روایت کے الفاظ یہ ہیں
[أَلدِّیْنَارُ بِالدِّیْنَارِ ،وَالدِّرْہَمُ بِالدِّرْہَمِ ،مِثْلًا بِمِثْلٍ ،مَنْ زَادَ أَوِزْدَادَ ،فَقَدْ أَرْبٰی ۔]دینار کی دینار کے ساتھ درہم کی درہم کے ساتھ بیع برابر ہوگی جو شخص زیادہ دے یا زیادہ طلب کرے وہ سودی معاملہ کرے گا (صحیح مسلم:  ۵/۴۹رقم۴۱۷۲مطبوعہ بیروت)
اس حدیث کا تعلق ربوی اجناس سے ہے جن میں سونا چاندی اور غلے کی مخصوص چیزیں شامل ہیں اور اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر ایک ہی جنس کا باہم تبادلہ کرنا ہو تو اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہوتی نہ ادھار میں نہ نقد میں،لیکن اگر جنس مختلف ہو تو اس میں کمی و بیشی ہوسکتی ہے لیکن ادھار جائز نہیں ہوتا ان میں ادھار ہی سود ہوتا ہے جسے ’’ربا النسیئہ‘‘کہا جاتا ہے مذکورہ فرمان نبوی میں اسی سود کا ذکر ہے حضورaنے ایک سوال کے جواب یہ بات ارشاد فرمائی (کہ مختلف جنسوں کے تبادلے میں) سود ادھار میں ہے جیسا کہ اہل علم نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے
امام شافعیm کی وضاحت:
امام شافعیmفرماتے ہیں [قَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ یُسْأَلُ عَنِ الرِّبَا فِی صِنْفَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ ،ذَہْبٍ بِفِضَّۃٍ، وَتَمْرٍ بِحِنْطَۃٍ ، فَقَالَ : اِنَّمَا الرِّبَا فِی النَّسِیئَۃِ ، فَحَفِظَہٗ ،فَأَدّٰی قَوْلَ النَّبِیِّ ، وَلَمْ یُؤَدِّ مَسْأَلَۃَ السَّائِلِ ، ترجمہ: ممکن ہے کہ(حضرت اسامہ بن زیدh)نے سنا ہو کہ رسول اللہaسے دو مختلف جنسوں سونے کی ،چاندی اور کھجور کی گندم کے ساتھ بیع میں (مقدار میں اضافے کی وجہ سے )سود کے بارے میں سوال کیا گیا ،تو آپaنے ارشاد فرمایا ،سود تو ادھار میں ہوتا ہے (حضرت اسامہ بن زیدhنے)نبیaکے یہ الفاظ یاد کرکے آگے بیان کر دیے ہوں لیکن سائل کا سوال ذکر نہ کیا ہو (اختلاف الحدیث  للشافعی :  ص۵۳۱مطبوعہ بیروت)
علامہ ابن عبدالبر مالکیmکی وضاحت:
علامہ ابن عبدالبرm’’الاستذکا ر‘‘میںحدیث[اِنَّمَا الرِّبَا فِی النَّسِیئَۃِ] کے تحت فرماتے ہیں[علماء کرام کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کسی سائل کے جواب میں وارد ہوئی ہے جس نے سونے کی چاندی کے ساتھ یا گندم کی کھجور کے ساتھ بیع یا اسی طرح کی دو جنسوں کی آپس کی بیع کے بارے میں سوال کیا تھا اس پر رسول اللہ aنے ارشاد فرمایا (ان چیزوں میں )سود(مقدار میں اضافے سے نہیں بلکہ)ادھار میں ہوتا ہے ،حضرت اسامہ بن زیدhنے رسول اللہaکا کلام سنا لیکن سائل کا سوال ذکرنہیں فرمایا۔واللہ أعلم]
  (الاستذکار الجامع لمذاہب فقہاء الامصار:  ۶/۳۱۱)
علامہ ابو الفرج ،عبدالرحمن ابن الجوزیmکی وضاحت:
اس حدیث کے علامہ ابن الجوزیmفرماتے ہیں [ہٰذَا الْحَدِیثُ مَحْمُوْلٌ عَلٰی أَنَّ أُسَامَۃَ سَمِعَ بَعْضَ الْحَدِیْثِ ،کَأِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ a سُئِلَ عَنْ بَیْعِ بَعْضَ الْأَعْیَانِ الرِّبْوِیَّۃِ بِبَعْضٍ ، کَالتَّمْرِ بِالشَّعِیْرِ ،وَالذَّہَبِ بِالْفِضَّۃِ مُتَفَاضِلًا، فَقَالَ : اِنَّمَا الرِّبَا فِی النَّسِیئَۃِ، وَاِنَّمَا حَمَلْنَاہُ عَلٰی ہٰذَا لِاِجْمَاعِ الْأُمَّۃِ  عَلٰی خِلَافِہٖ ، وِاِلٰی ہٰذَا الْمَعْنٰی ذَہَبَ اَبُوْبَکَرٍ الْأَثْرَمُ ]
ترجمہ: اس حدیث کو یوں محمول کیا جائے گا کہ حضرت اسامہ بن زیدhنے حدیث کا کچھ حصہ سنا آپaسے ربوی اجناس میں سے ایک کی دوسرے کے ساتھ کمی و بیشی کی بیع کے بارے میں پوچھاگیا جیسے کھجور کی جَو کے ساتھ اور سونے کی چاندی کے ساتھ ۔اس پر آپ a نے ارشاد فرمایا (اس صورت میں )سود تو ادھار ہی میں ہوتا ہے ،ہمارے اس حدیث کو اس معنیٰ پر محمول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے (ظاہری معنٰی کے) خلاف امت مسلمہ کا اجماع ہے یہی معنٰی ابو بکر اثرمmنے بھی لئے ہیں (کشف المشکل من حدیث الصحیحین: ۴/۱۵)
پچھلے صفحات میںجتنے امت کے علماء نے ادھار میں قیمت کے اضافے کو جائز قرار دیا ان کے سامنے یہ حدیث بھی موجود تھی لیکن ان لوگوں نے اس کا جو معنٰی لیا وہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کیونکہ اس نبوی فرمان کوغیر ربوی اجناس میں ادھار سے جوڑنا بالکل غلط ہے کیونکہ سلف صالحین میں سے کسی نے اس کو غیر ربوی اجناس میں ادھار کے ساتھ نہیں جوڑا،اور نہ غیر ربوی اجناس میں ادھار کو سود قرار دیا ہے جیسا کہ اس پر اجماع امت ہے
aقرض پر نفع سود ہےa
ابو الحسن غیر مقلد لکھتے ہیں ’’سیدنا فضالہ بن عبید hنے فرمایا : ’’کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا ‘‘ہر قرض جو نفع کھینچے وہ سود کی وجوہ میں سے ایک وجہ (قسم)ہے (السنن الکبرٰی للبیہقی ۵/۳۵۰ وسندہٗ صحیح واخطأ من ضعفہ) (الحدیث شمارہ:۴۰ ص ۲۸)
الجواب:یہ بھی ابو الحسن غیرمقلد کی سخت غلطی ہے کیونکہ قرض اور بیع میں فرق ہے اسی فرق کو یہ صاحب نہ سمجھ سکے اور قسطوں کی بیع کو بھی سود سمجھ گئے جب کہ بیع اور چیز ہے ،قرض سے نفع لینا جائز نہیں جیسا کہ یہ صحابی کا قول بتا رہا ہے مگر بیع تو کی ہی جاتی اس لئے ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو جب اس میں نفع ہی سود بن جائے تو بیع کا مقصد ہی باطل ہوجائے اللہ تعالیٰ عقل سلیم عطاء فرمائے لہٰذا اس صورت میں اس اثر سے استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے ان کا یہ استدلال غلط ہے علماء امت نے اس اثر کا مفہوم جو پیش کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں
aاس اثر میں علماء امت کا فہمa
متقدمیں علماء امت کے پاس یہ اثر پہنچا انہوں نے اس اثر کی بناء پر بیع میں ادھار کو سود نہیں قرار دیا انہوں نے اس کی جو تفسیر بیان کی وہ ملاحظہ فرمائیں
امام ابن سیرینm،اورامام قتادہ بن دعامہmکا فہم:
امام ابن سیرین اور امام قتادہoفرماتے ہیں [کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً ،فَہُوَ مَکْرُوْہٌ :قَالَ مَعْمَروَقَالَہ قَتَادَۃَ](مصنف عبدالرزاق :  ۸/۱۴۵رقم ۱۴۶۵۷مطبوعہ بیروت وسندہٗ صحیح )
ترجمہ:ہر وہ قرض جو نفع حاصل کرے وہ مکروہ ہے
امام ابراہیم نخعیmکا فہم :
امام ابراہیم mفرماتے ہیں [کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً ،فَلَا خَیْرَ فِیْہِ]
ترجمہ: ہر قرض جو نفع کھینچے اس میں خیر نہیں
(مصنف عبدالرزاق :  ۸/۱۴۵رقم ۱۴۶۵۹مطبوعہ بیروت وسندہٗ صحیح )
جب کہ امام ابراہیم نخعی اور امام قتادہ o نقدوادھار کی صورت میں اگر ادھار طے ہوجائے تو زیادہ قیمت لینا جائز سمجھتے ہیں جیسا کہ پچھلے صفحات میں آپ نے ان کے اقوال ملاحظہ فرمائیں کیا ان کو صحیح معنٰی معلوم تھا یا ابو الحسن غیر مقلد ؟
امام احمد بن حنبلmکا فہم:
امام احمد بن حنبلmسے ان بیٹے ابو الفضل صالحmاپنے باپ امام احمد بن حنبلmسے پوچھتے ہیں [ہر وہ قرض جو نفع حاصل کرے حرام ہے  اس کا کیا معنٰی ہے؟تو امام صاحب نے جواب دیا ،اس کی صور ت یہ ہے کہ ایک شخص کا گھر ہو اور کوئی اس میں رہنے کے لئے آئے تو وہ کہے مجھے پچاس درہم قرض دے دو تاکہ میں تمہیں رہنے کی اجازت دے دوں ۔وہ قرض دے دیتا ہے اور اس کے گھر میں رہتا ہے ،یا کوئی اس کو قرض دیتا ہے اور وہ اس کے لئے تحائف لاتا ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے تحفہ نہیں دیتا تھا ،یا کوئی اسے قرض دیتا ہے تو اسے عامل مقرر کردیتا ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے اس کو عامل نہیں بناتا تھا ان سب صورتوں میں قرض نے نفع حاصل کیا اور یہ سود کی ایک قسم ہے کیونکہ اس شخص نے اپنا دیا ہوا قرض بھی واپس لے لیا اور ساتھ زائد میں چیز بھی حاصل کی (مسائل الاحمد روایۃ ابنہ ابی الفضل صالح :  ۱/۳۲۰رقم المسئلۃ:۲۷۱مطبوعہ الہند)
جبکہ یہی امام احمد بن حنبلmبیع میں ادھار ونقد میں کسی ایک معاملے کو طے کر لیا جائے تو جائز سمجھتے ہیں دیکھئے سابقہ صفحات
امام ابن المنذرmکا فہم:
امام منذرmنے بھی اس قول کو ’’اشراف علیٰ مذاہب العلماء : ۶/۱۴۲‘‘ میں نقل کیا لیکن اس کے باوجود وہ نقد وادھار میں سے ایک کو طے کرلیا جائے تو اس کو جائز سمجھتے ہیں 
aصرف ادھار والا معاملہ کیوں منع ہےa
 [من باع بیعتین فی بیعۃ فلہ أو کسہما أو الربا]جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گا یا تو وہ کم قیمت لے گا یا پھر وہ سود ہوگا،کے تحت صرف ادھار کو بھی سود قرار دیتے ہیںجو کہ درست نہیں اس حدیث کے معنٰی محدثین سے ملاحظہ فرمائیں
علامہ حافظ خطابی mکی تفسیر: 
امام بیہقیmاس حدیث کے تحت لکھتے ہیں
[میں نے ابو سلیمان(حافظ خطابی)mکی کتاب میں اس حدیث کی تفسیریہ پڑھی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو ایک دینار پیشگی دیا تاکہ مہینے بعد گندم کا ایک قفیز(ایک پیمانہ)لے سکے ۔جب وقت آیا اور اس نے گندم کا مطالبہ کیا تو دوسرا شخص کہنے لگا تم مجھے وہ گندم بیچ دو جو مجھ سے لینی تھی اور اس کے بدلے دو مہینوں بعد دو قفیزلے لینا ۔یہ دوسرا سودا ہے جو پہلے سودے پر داخل ہوگیا یوں یہ ایک بیع میں دو سودے ہوگئے ان دونوں سودوں کو کم،جو کہ اصل(ایک )ہے،کی طرف لوٹایا جائے گا اگر وہ پہلا سودا ختم ہونے سے پہلے دوسرا سودا کرتا ہے تو سود والا معاملہ کریں گے۔   ]
(۱)السنن الکبرٰی للبیہقی: ۵/۳۴۳تحت رقم۱۱۱۹۶(۲)النہایۃ فی غریب الاثر لابن أثیر :۵/۴۹۲
(۳)لسان العرب لابن منظور:  ۶/۲۵۷          (۴)جامع الاصول فی احادیث الرسول:  ۱/۵۳۳
(۵)عون المعبود شرح ابی داؤد:  ۹/۲۹۸
علامہ ابن قیم جوزی کی تفسیر:
علامہ ابن قیم صاحب اس حدیث کی تفسیر میں لکھتے ہیں[اس حدیث کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے : میں تجھے یہ چیز ایک سال کے ادھار پر سو درہم میں بیچتا ہوں ،اس شرط پر کہ ابھی میں تم سے یہی چیز اسّی(۸۰)درہم میں خریدوں گااس(اضافی الفاظ والی )حدیث کا یہی معنٰی ہے ،اس کے علاوہ کوئی معنٰی نہیں اور یہی معنیٰ نبی کریمaکے اس فرمان کے مطابق ہے کہ وہ کم قیمت پر فروخت کرے گا یا سود لے گا کیونکہ بیچنے والے کے پاس دو راستے ہیں یا تو وہ زائد قیمت لے جو کہ سود ہے یا پھر پہلی قیمت ،جو کہ کم ہے وہ لے یہی چیز ایک بیع میں دو سودوں والی ہے ،کیونکہ اس نے ایک بیع میں دو سودے جمع کرلئے دراصل وہ اس معاملے کے ذریعے وہ پیشگی درہموں کے بدلے تاخیر سے زیادہ درہم دینا چاہتا ہے ،حالانکہ وہ صرف اپنے سرمایہ کا مستحق ہے اور یہی دو سودوں میں سے کم قیمت والا سودا ہے اگر وہ زیادہ لینے پر ہی اصرار کرے گا تو پھر وہ سود ہی لے گا (تہذیب سنن ابی داؤد لابن قیم :  ۲/۱۵۲)
شارح ترمذی ابن رسلانmکی تفسیر :
شارح  ابن رسلانmنے بھی اس حدیث کا یہی معنٰی بیان کیا ہے
دیکھئے (تحفۃ الأحوذی:   ۳/۳۳۰)
علامہ محمد بن علی بن محمد الشوکانی کی تفسیر:
محمد بن علی بن محمد الشوکانی لکھتے ہیں [اس حدیث کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ اس صورت کی ممانعت ثابت ہوتی ہے کہ بیچنے والا یہ کہے ،نقد اتنے کی اور ادھار اتنے کی ،جب وہ شروع ہی سے یہ کہے کہ میں ادھار دوں گا اور قیمت یہ ہوگی اور وہ قیمت موجودہ قیمت سے زیادہ ہو ،تو یہ صورت اس حدیث سے منع نہیں ہوتی ،لیکن اس حدیث سے دلیل لینے والے اس صورت کو بھی ممنوع قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں بنتی یوں ان کا دعوٰی عام ہے اور دلیل خاص]
(نیل الاوطار للشوکانی:  ۵/۲۱۴)
aایک بیع میں دو قیمتوں کے ہوتے ہوئے صرف کم قیمت بھی جائز نہیںa
ابو الحسن مبشراحمد ربانی غیر مقلد لکھتا ہے[اس حدیث کی رو سے تو دو ہی صورتیں بنتی ہیںدکاندار یا بائع یا تو کم مقداروالی قیمت کے ساتھ اپنی چیز بیچے گا اور وہ نقد کی قیمت ہے یا پھر ادھار کی وجہ سے سودی اضافہ وصول کرے گا جس کی اس نے ادھار کی صورت میں شرط لگائی
(الحدیث:شمارہ۴۰ص۳۳)
الجواب:ان صاحب کے نزدیک اگر کم قیمت پر سودا ہوجائے تو جائز لیکن اہل علم محدثین کا اس بارے مؤقف اس کے خلاف ہے بعینہٖ اسی حدیث کے تحت امام طاوٗس mفرماتے ہیں
[اِذَا قَالَ : ہُوَ بِکَذَا وَکَذَا اِلٰی کَذَا وَکَذَا،بِکَذَا وَکَذَا، اِلٰی کَذَا وَکَذَا،فَوَقَعَ الْبَیْعُ عِلٰی ہٰذَا ،فَہُوَ بِأَقَّلِ الثَّمَنَیْنِ اِلٰی أَبْعَدِ الْأَجَلَیْنِ ،قَالَ مَعْمَر،وَہٰذَا اِذَا کَانَ الْمُبْتَاعُ قَدِاسْتَہْلَکَہٗ ۔ ]
ترجمہ: جب وہ یوں کہے فلاں چیز اتنی مدت تک اتنی قیمت میں ہے ،اوراتنی مدت تک اتنی قیمت میں ہے اور اسی پر بیع واقع ہو گئی ہو تو اس کے لئے دو قیمتوں میں کم قیمت ہو اور دور کی مدت ہوگی ،امام معمر mفرماتے ہیں یہ اس صورت میں ہوگا جب خریدی گئی چیز کو خریدار نے استعمال کرلیا ہو (مصنف عبدالرزاق:  ۸/۱۳۷رقم۱۴۶۳۱وسندہٗ صحیح مطبوعہ بیروت)
اسی طرح ’’مصنف عبدالرزاق:  ۸/۱۳۸رقم۱۴۶۳۲مطبوعہ بیروت‘‘ میں امیر المؤمنین فی الحدیث،امام سفیان ثوریmکا فتوٰی بھی یہی ہے
اسی حدیث کے بارے میں امام خطابیmفرماتے ہیں [لَا أعْلَمُ أِحِدًا مِّنَ الْفُقَہَائِ قَالَ بِظَاہِرِ ہٰذَا الحَدِیْثِ ، أوْ صَحَّحَ الْبَیْعَ بِأَوْکَسِ الثَّمَنَیْنِ ،اِلَّا شَیْئٌ یُّحْکی عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ :وَہُوَ مَذْہَبُ فَاسِدٌ ،وَذَالِکَ لِمَا یَتَضَمَّنَہٗ ہٰذَا الْعَقْدُ مِنَ الْغَرَرِوَالْجَہْلِ ]ترجمہ:میرے علم میں کوئی ایک بھی ایسا فقیہ نہیں ،جو اس حدیث کے ظاہری الفاظ کے مطابق فتوٰی دیتا ہو یا کم قیمت میں بیع کو درست قرار دیتا ہو، سوائے امام اوزاعی سے منقول ایک روایت کے (وہ بھی ثابت نہیں)،یہ مذہب فاسد ہے کیونکہ اس معاملے میں دھوکہ اور جہالت موجود ہے (معالم السنن للخطابی:  ۳/۱۲۲تحت رقم الحدیث: ۹۳۶ مطبوعہ حلب)
لہٰذا ان دلائل کی روشنی میں ائمہ سلف سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ قیمت کے عدم تعین کی صورت یہ بیع ناجائز ہوتی ہے اور ایسی صورت میں کم قیمت پر بھی بیع جائز نہیں ہوتی مگر یہ کہ خریدار وہ چیز استعمال کرچکا ہو تو پھر اوپر امام طاوٗس mکے قول کے مطابق فتوٰی ہوگا ورنہ جھگڑا اور فساد ہی ہوگا کیونکہ اس پر اگر عمل کیا جائے تو خریدار ایسا کم قیمت کی نیت سے کریں گے ،جبکہ بیچنے والے کے ذہن میں ہوگا کہ چونکہ یہ سودا اِبہام می طے ہوا ہے لہٰذا میں زیادہ قیمت لوں گا یو ں آپس میں تنازعات کھڑے ہوجائیں گے اگر نقدو ادھار میں ایک کا تعین ہوجائے تو کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔ 
اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ مروجہ قسطوں کا کاروبار اگراس میں چیز ،مدت اور قیمت طے کر لی جائے تو شریعت کے اصولوں کے تحت جائز ہے ،لیکن اگر دو قیمتوں میں سے ایک قیمت طے نہیں کرتا یا مدت کا تعین نہیں کرتا تو پھر حدیث کی رو سے یہ بیع باطل ہے ، قسطوں کی وجہ سے زیادہ قیمت پر منع کی کوئی نص نہیں ،جبکہ اُدھار کی صورت میںقیمت کے اضافے پر اجماع اُمت ہے باقی ابوالحسن مبشراحمد ربانی غیر مقلد کی کتر بیونت ہے صرف اِبہام کی صورت میں ایسی بیع باطل ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد اس کو قبول کرنے کی تو فیق عطاء فرمائے اور اس تحریر کو مجھ ناچیز ،میرے والدین بہن بھائی ،میری بیوی اور بچوں میرے اساتذہ اور میرے معاونین کے لئے کل قیامت والے دن بخشش کا سبب بنائے ۔آمین
                                                           وما تو فیقی الا باللّٰہ العلی العظیم
               تائیدات ِمُفتیان ِکرام اہل سنت وجماعت 
)مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب:
 سوال : کیا قسطوںپراشیاء کی خرید وفروخت جائز ہے؟
جواب:مختلف افراد،کمپنیاں اور ادارے نئی الیکٹرانک اشیاء کی اقساط پر فروخت کا کاروبار کرتے ہیں ،فریقین میں قیمت ،جو ظاہر ہے رائج الوقت مارکیٹ ویلیو سے زیادہ ہوتی ہے ،طے ہوجاتی ہے اور یہ بھی طے ہوجاتا ہے کہ ماہانہ اقساط کی رقم کیا ہو گی اور ادائیگی کتنی مدت میں ہوگی اور مسلم فیہ یا مبیع (solid item)خریدار کے حوالے کرکے اس کی مِلک میں دے دیا جاتا ہے ،تو یہ عقد شرعًا صحیح ہے بشرطیکہ اس میں یہ شرط شامل نہ ہو کہ اگر خدانخواسطہ مقررہ مدت میں اقساط کی ادائیگی میں تاخیر ہوگئی تو ادائیگی کی اضافی مدت کے عوض قیمت میں کسی خاص شرح سے کوئی اضافہ ہو گا ۔اگر تاخیری مدت کے عوض قیمت میں اضافہ کردیا تو یہ سود ہے اور حرام ہے فی نفسہٖ حدودِ شرع کے اندر اقساط کی بیع جائز ہے۔ (تفہیم المسائل:  ۲/۳۵۰)
(۲)مفتی اہل سنت شیخ الحدیث مفتی سردار علی خان صاحب:
جواب درست ہے (حافظ سردار علی خان حال جامعہ رضویہ انوار العلوم 24/H واہ کینٹ)

(۳)مفتی محمد ایوب ہزاروی جامعہ اسلامیہ رحمانیہ ہری پور ہزارہ:
[کوئی شیء نقد دس روپے میں اور ادھار گیارہ روپے میں فروخت کرنا جبکہ سودا کسی ایک قیمت پر طے ہوجائے بیعہ متعین ہو ،میعاد مقرر ہو اس میں کسی قسم کی قباحت نہیں اور یہ کسی منصوص شرعی سے متصادم بھی نہیں، لہٰذا یہ بالکل جائز ہے
(مفتی محمد ایوب ہزاروی جامعہ اسلامیہ رحمانیہ ہری پور ہزارہ)
(۴)مفتی ابو الحسنین محمد عارف محمود خان قادری حنفی رضوی صاحب:
ابو الحسن مبشر احمد ربانی غیر مقلد کے مضمون ’’قسطوں کا کاروبا ر شریعت کی نظر میں ‘‘کی تردید اور نفس مسئلہ’’بیع تقسیط کا جواز‘‘ کے ثبوت پر برادر عزیزُ القدر حضرت علامہ ابواُسامہ ظفر القادری بکھروی مدظلہ العالی نے جو جاندار تحقیق پُرمغزدلائل سے رقم فرمائی ہے فقیر قادری کو اس سے مکمل اتفاق ہے ،عین ثواب اور قابل عمل ہے اس کے خلاف نظریہ رکھنا باطل ومردود ہے اقساط کے کاروبار کا پرانا طریقہ شرعًا بالکل جائز ہے آج کل نت نئی کمپنیوں کے اکثر وبیشتر کاروبار قمار کی وجہ سے ناجائز ہیں   
(ابو الحسنین محمد عارف محمود خان قادری حنفی رضوی غفرلہ  ۱۱/ ۱۱/۱۴۳۵)
(۵)علامہ محمد صدیق ہزاروی سعیدی ازہری استاذ الحدیث جامع ہجویریہ لاہور
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قسطوں کے کاروبار کے جواز پر اور عدم جواز کے قائلین کے استدلال کا علمی تحقیقی جواب فاضل جلیل حضرت ابواسامہ ظفرالقادری الحنفی زیدہ مجدہ نے نہایے مدلل انداز میں تحریر فرمایا درحقیقت غیرمقلدین احادیث کو سمجھنے کی طرف توجہ نہیں دیتے اسی لئے وہ ایک سودے میں دوسودوں اور قسطًا کاروبار میں فرق نہیں کرسکے اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطاء فرمائے راقم حضرت علامہ ظفرالقادری مدظلہ کے فتوٰی کی بھرپور تائید کرتا ہے
محمد صدیق ہزاروی سعیدی استاذالحدیث جامعہ ہجویریہ لاہور(۲۴ذی قعدہ۱۴۳۵ھ)

(۶)علامہ شیخ الحدیث ،رئیس الافتاء مفتی اسماعیل ضیائی صاحب
ونائب مفتی ابو الانوار ندیم اقبال سعیدی صاحب دارالعلوم امجدیہ کراچی

الجواب صحیح مفتی اسماعیل ضیائی شیخ الحدیث ،رئیس الافتاء دارالعلوم امجدیہ کراچی

الجواب صحیح نائب مفتی ابو الانوار ندیم اقبال سعیدی صاحب دارالعلوم امجدیہ کراچی
(۷)شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبدالسلام قادری رضوی صاحب 

الجواب صحیح قَدْ اَصَابَ مَااَجَابَ

محمد عبدالسلام قادری رضوی دارالعلوم منظر اسلام خانقاہ مسکینیہ واہ کینٹ