منگل، 27 مارچ، 2018

ضعیف احادیث کا کلی انکار ایک فتنہ (منکرین حدیث کا نیا روپ)


           ضعیف احادیث کا کلی انکار ایک فتنہ 
              (منکرین حدیث کا نیا روپ)
ضعیف حدیث کا مطلقًا انکار آج کے دور کا ایک بڑا فتنہ ہے اور منکرین حدیث کا نیا روپ بھی دور اوّل میں اس فتنے کا  وجود نہ ہونے کے برابر تھالیکن آج اس فتنے کو ہوا دینے والے جگہ جگہ موجود ہیںخصوصًا ناصر الدین البانی صاحب نے اس فتنہ کو ہوا دیکر شعلہ بنایااور اس کی فکر سے متاثر ہوکر آج عام کردیا گیا ہے ان متاثرین میں ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ کے مدیر زبیر علی زئی صاحب نے اس فتنہ کو اور ہوا دی’’ الحدیث‘‘ کے آخری صفحہ پر مستقل یہ بات لکھی ہوتی ہے کہ ہمارا عزم’’ضعیف ومردود  روایات سے کلی اجتناب‘‘اور زبیر صاحب نے ناصرالدین البانی کی تقلید میںسنن اربعہ میں سے ضعیف روایات کو اکٹھا کر کے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ہے’’انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الأربعۃ‘‘پھر اس کی تقلید میں ماہنامہ’’ضرب حق‘‘ کے مدیر سبطین شاہ آف سرگودھا نے بھی یہی عزم ظاہر کیا،چناچہ ماہنامہ ضرب حق کے آخری صفحہ پرمستقل لکھا ہوتا ہے’’ضعیف احادیث سے قطعی اجتناب‘‘ ان کے دیکھا دیکھی دیگرکئی لوگوں نے البانی سے متاثر ہو کر ضعیف احادیث کا مطلقًا انکار شروع کردیااور یوں یہ منکرین حدیث کا نیا روپ ہمارے سامنے آیااور ان کا طریقہ واردات بالکل پرانے منکرین حدیث جیسا ہے کیونکہ وہ  مطلقًا حدیث کا انکار کرتے تھے اور جب اپنی بات کا ثبوت دینا ہوتا تو اپنے مطلب کی روایات کو دلیل بنا کرپیش کر دیتے بالکل اسی طرح یہ گروہ بھی ضعیف احادیث کاکلی انکار بھی کرتا ہے اور اپنی بات کا ثبوت  دینے کے لیے طرح طرح کے بہانے بنا کر ضعیف احادیث بھی پیش کرتا ہے حالانکہ یہ گروہ شروع ہی سے مختلف نام تبدیل کرتا رہاکبھی یہ سلفی بنا،تو کبھی توحیدی ،کبھی وہابی،تو کبھی نام تبدیل کروا کر اہل حدیث، اورکبھی محمدی الغرض گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا یہ گروہ آج ایک نئے روپ میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہورہا ہے اور وہ ہے ضعیف احادیث سے کلی انکار کا روپ لوگوں کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ضعیف روایات اور مردود و موضوع روایات میں کوئی فرق نہیںحالانکہ اہل سنت و جماعت کے سلف صالحین،محدثین ومحققین کا یہ طریقہ کار نہیں رہا ضعیف احادیث کا کلی انکار کرنا ،انکار احادیث کا دروازہ کھولنا ہے اور منکرین احادیث کی کھلم کھلا حمایت کرنی ہے محدثین کرام رحمہم اللہ کا امت محمدیہ پر یہ احسان ہے کہ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہرقول و فعل اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہر سنت کو پہلے اپنے سینوں میں محفوظ کیاپھر اس کو سفینہ میںدرج کرکے تمام امت کے لیے شریعت پر عمل کرنے کا راستہ آسان کردیااس راہ میں انھوں نے جو جان فشانیاں اٹھائی ہیں اس کا اس زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتاایک ایک حدیث کے لیے راتوں اور دنوں کاسفر کیاخشکی کا سفر کیا بیابان کی خاک چھانی سمندروں کو پار کیامال لٹایا،فاقہ کیا،تو کیا یہ لوگ حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلط سلط باتوںکو جمع کرنے کے لیے یہ محنت و مشقت اٹھاتے تھے؟یہ لوگ تو متقی ،پرہیزگار،مؤحد،سچے عاشق رسول تھے اور ان کی محبت میں دیوانے تھے اخلاص کے پیکر تھے ان محدثین کے بارے میں یہ تصور بھی ہمارے لیے گناہ ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی باتوں کو اپنی  کتابوں میں درج کیاجبکہ انھی محدثین نے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایاہے’’جس نے میرے اوپر جان بوجھ کر جھوٹ گڑھااس کا ٹھکانہ جہنم ہے‘‘تو کیا امام بخاری،امام مسلم ،امام ابوداؤد،امام ترمذی،امام نسائی،امام ابن ماجہ  اوران جیسے دوسرے محدثین کے بارے میں یہ لب کشائی جائز ہے کہ انھوںنے حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب جو جھوٹی بات تھی اسی کو اپنی کتابوں میں درج کرکے اتنے بڑے گناہ کا کام کیا معاذ اللہ،یقینا نہیںحالانکہ انھی محدثین نے احادیث کے درجے قائم کیے لیکن ضعیف احادیث کا کلی انکار نہیں کیاسوائے ان نام نہاد سلفیوں اور البانیوں کے سلف صالحین محدثین کا ضعیف روایات کے بارے میں کیا منہج تھاآئندہ صفحات میں اسی کو واضح کیا جائے گاتاکہ آج کے اس فتنہ سے بچا جا سکے جو سلف کے نام پردھبہ لگا رہے ہیںمحدثین نے یہ درجے صرف حدیث کو سمجھنے کے لیے کیے اور جھوٹی روایات کو بالکل الگ کردیامگر آج کے یہ نا اہل لوگ ضعیف روایات کوجھوٹی روایات کے ساتھ ملا رہے ہیںحالانکہ محدثین کے نزدیک احادیث کو قبول کرنے کا الگ الگ پیمانہ ہے جیسا کہ اہل علم جانتے ہیںاگر کسی محدث کے نزدیک ایک روایت صحیح نہیں،تو دوسرے محدث کی شرط پر صحیح ہے تو کیا جس محدث کے نزدیک وہ حدیث صحیح نہیں،تو کیا وہ مردود ہے؟بہرحال ہماری گزارش یہ ہے کہ ضعیف احادیث کا کلی انکار کرنااور ان کو احادیث کی فہرست سے خارج کردینا ،اور ان کو مردود قرار دینایہ اسلاف کی طرز اور ان کے عمل کے خلاف ہے یہ حدیث دوستی نہیں،حدیث دشمنی ہے یہ دین نہیں ،بے دینی ہے،یہ سلفیت نہیں،رافضیت ہے،یہ سنت نہیں،بدعت ہے،یہ راستہ مؤمنین کا نہیں بلکہ منکرین حدیث کا ہے یہ طریقہ محدثین کا نہیں،بلکہ آج کے نام نہاد سلفیوں اور البانیوں کا ہے اسلاف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ضعیف احادیث کو قبول کرتے تھے اور اس پر عمل بھی  کرتے تھے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی راوی ظاہر العدالتہ ہے تو اس کی روایت قبول کی جائے گی خواہ اس سے روایت کرنے والے کئی ہوںیا ایک تو اس کی بنیاد قرآن کی یہ آیت ہے’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو‘‘
(پارہ ۲۶ سورۃ الحجرات آیت۶)
اس سے معلوم ہوا،کہ کوئی شخص فسق سے محفوظ ہو تو اس کی بات کو قبول کیا جائے گا یہیں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ بہت سی وہ روایتیں جن پر محدثین ضعف کا حکم لگاتے ہیںامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں وہ صحیح ہیں اب نئے نام نہاد محققین دیگر محدثین کے فیصلہ کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل کو جانچنا شروع کر دیتے ہیںاور ان کو ان مسائل کے دلائل ضعیف نظر آتے ہیںحالانکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے اصول اور قاعدہ پر وہ احادیث اور دلائل قوی اور صحیح ہوتے ہیں راقم چونکہ جامع ترمذی کی شرح ’’فیوض النّبوی‘‘کے نام سے لکھ رہا ہوںاس لئے جامع ترمذی ہی سے اس کی چند مثالیں دیتا ہوںکہ سلف صالحین کا ضعیف روایات پر عمل تھا
(۱)حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ 
’’قال سألت رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن صید البازی؟ یعنی میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باز کے شکار کردہ جانور کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کھانا حلال ہے یا نہیںفقال ما أمسک علیک فکل :آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاجو کچھ وہ تمہارے لیے پکڑ رکھے اسے کھا لو‘‘ امام ترمذی  فرماتے ہیںکہ اس حدیث کو ہم بواسطہ مجالد عن الشعبی کی سند سے جانتے ہیں’’والعمل علیٰ ھٰذا عند اہل العلم یعنی اس حدیث پر اہل علم کا  عمل ہے (جامع ترمذی مترجم:  ۱/۷۳۴طبع فرید بکسٹال لاہور)
حالانکہ مجالد ضعیف راوی ہے جیسا کہ زبیر علی زئی صاحب (مدیر ماہنامہ ’الحدیث‘) نے بھی’’انوار الصحیفہ صفحہ نمبر۱۰۲ برقم۲۸۲۷ ‘‘میں لکھا  ’’مجالد ضعیف،قال الھیثمی،وضعفہ الجمہور (مجمع الزوائد۹/۴۱۶)
اس روایت پر اہل علم کا عمل ہے سے ثابت ہوا کہ اہل علم ضعیف روایتوں کو قبول کرتے اور اس کی بنیاد پر عمل بھی کرتے تھے یہ اہل علم صحابہ و تابعین،محدثین وفقہاء ہیں    
(۲)امام ترمذی روایت فرماتے ہیں’’عن ابی واقد اللیثی۔قال قدم النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم المدینۃ وہم یجبون أسنمۃ الابل ویقطعون ألیات الغنم قال ماقطع من البہیمۃ وحیۃ فہو میتۃ‘‘
ترجمہ:حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی aمدینہ تشریف لے آئے وہاں کے لوگ زندہ اونٹوں کے کوہان، زندہ دنبوں کی چکیاں کاٹتے تھے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایازندہ جانور سے جو حصہ کاٹا جائے وہ مردار ہے
(جامع ترمذی ۱/۷۳۹ مترجم طبع فرید بکسٹال لاہور)
اس سند میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار القرشی مو لیٰ ابن عمر ہیںجن کے بارے میں ابن حجر عسقلانی تقریب التہذیب ۱/۵۷۷برقم ۳۹۲۷میں فرماتے ہیں! صدوق  یخطی اسی طرح تہذیب الکمال۱۷/۲۰۹برقم۳۸۶۶ میں ہے’’عن یحیٰی بن معین فی حدیثہ عندی ضعف‘‘ یحییٰ بن معین فرماتے ہیںاس حدیث میں ضعف ہے اسی میں ابو حاتم فرماتے ہیں’’ولا یحتج بہ‘‘اس سے حجت نہ پکڑی جائے اور ابن عدی فرماتے ہیں اس کی بعض روایتیں منکر ہیںابن جوزی نے اسے’’الضعفاء‘‘صفحہ۹۴ میں لکھااسی طرح ابن  حبان نے ’’المجروحین‘‘ ۲؍۵۱،۵۲ لکھااب محدثین کی اصطلاح کے اعتبار سے یہ حدیث ضعیف ہے مگر امام ترمذی فرماتے ہیں ’’والعمل علیٰ ھٰذا عند اہل العلم‘‘ یعنی اہل علم(فقہاء و محدثین)کا اسی پر عمل ہے(جامع ترمذی۱/۷۳۹)
(۳)امام ترمذی روایت کرتے ہیں
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے’’من ملک ذارحم محرم فہو حر‘‘
یعنی جو شخص اپنے محرم رشتہ دار کی غلا می میں آجائے آزاد ہو جائے گا
(جامع ترمذی۱/۶۸۵)
اب اس روایت کے بارے میں امام ترمذی ہی فرماتے ہیں’’وہو حدیث خطاء عند اہل الحدیث‘‘یعنی محدثین کے نزدیک اس روایت میں خطاء ہے
(دیکھئے جامع ترمذی ۱/۶۸۵ باب ما جاء فی من ملک ذا محرم)
اسی روایت کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں’’لا یصح‘‘یہ صحیح نہیں ہے امام بخاری کے استاد علی بن مدینی فرماتے ہیں’’ہو حدیث منکر‘‘یہ حدیث منکر ہے امام نسائی فرماتے ہیں۔’’حدیث منکر‘‘یہ حدیث منکر ہے
(التلخیص الحبیر۴؍۵۰۸ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
لیکن ابن اثیر فرماتے ہیں’’والذی ذہب الیہ أ کثر اہل العلم من الصحابۃ والتابعین والیہ ذہب أبو حنیفۃ واصحابہ واحمد أن من ملک ذا رحم محرم عتق علیہ ذکرا أو انثٰی‘‘ (النہایہ فی غریب الأثر۲/۵۰۴)
یعنی اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ و تابعین کا عمل ہے اور اسی کے قائل امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ہیںاور یہی مذہب امام احمد کا بھی ہے ان حضرات کے  یہاں کوئی شخص اپنے کسی رشتہ دار محرم کا مالک ہوجاتا ہے تو وہ محرم آزاد ہو جائے گاخواہ وہ محرم مذکر ہویا مؤنث، ذرا اندازہ لگائیں جو حدیث امام بخاری، امام مدینی، امام نسائی کے نزدیک ضعیف ہومگر ان سے پہلے لوگوں جن میں صحابہ و تابعین وفقہاء ومحدثین کا اس حدیث پر عمل ہے یہ ہے سلف کا طریقہ ضعیف حدیث کے بارے میںجامع ترمذی کے حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ امام ترمذی کسی حدیث کے باب میں اگر یہ فیصلہ کریںکہ یہ حدیث محدثین کے ہاں ضعیف ہے اور پھر یہ کہیں کہ اسی پر اہل علم کا عمل ہے توگویا یہ امام ترمذی کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح ہے یعنی امام ترمذی اصول محدثین پر اس کو ضعیف کہہ رہے ہیںورنہ حقیقت کے اعتبار سے وہ حدیث انکے نزدیک پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے صحابہ و تابعین اس پر عمل کیوں کرتے جس طرح امام ترمذی محدثین کی اصطلاح کے اعتبار سے ضعیف حدیث کو ذکر کرتے ہیںپھر یہ کہہ کر کہ اس پر اہل علم،صحابہ وتابعین،فقہاء ومحدثین کا عمل ہے اس حدیث کی صحت کا اشارہ کرتے ہیں اسی طرح امام ابودائود ،امام نسائی،امام ابن ماجہ اپنی اپنی کتاب میں یہی طرز اختیار کرتے ہیں یعنی یہ حضرات عام طور پر انھی حدیثوں کو ذکر کرتے ہیںجس پر دور اول میں مسلمانوں کا عمل رہا ہوان کتابوں میں گنتی کی چند ہی روایتیں ایسی ہوںگی جو سندًا ضعیف ہوں مگر ان پر عمل کرنا جائز نہ ہوابن ماجہ میں کچھ ایسی روایتیں ضرور ہیںجن پر محدثین نے شدیدجرح کی ہے امام ابودائود اپنی کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں’’وأما ہٰذا المسائل مسائل الثوری ومالک والشافعی فہذہ الأحادیث أصولہا‘‘ 
ترجمہ:اور امام ثوری،امام مالک،اور امام شافعی کے جو مسائل ہیں تو یہ احادیث اس کی اصل ہیں (رسالہ أبی دائود صفحہ۲۸ طبع بیروت)
امام ابوداؤد کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میری کتاب میں جو حدیثیں ہیںعام طور پر ان ائمہ کرام کے مذاہب کی بنیاد انہیں احادیث پر ہے اس سے یہ معلوم ہواکہ اگرچہ سنن ابوداؤد کی کچھ حدیثیں اصول محدثین کے مطابق ضعیف بھی ہوںتو ان ائمہ کرام نے ان احادیث پر اپنے قول اور اپنے فقہ کی بنیاد رکھی ہے یعنی یہ تمام احادیث ان ائمہ کرام کے یہاں معمول بہا ہیں جب ان ائمہ کرام نے ان کو احکام میں قبول کیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان ائمہ کرام کے نزدیک فی الاصل یہ احادیث ضعیف ان معنی میں نہیں ہیںکہ یہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث نہیں ہیں بلکہ محض اصول محدثین پر ضعیف ہیں جو احادیث محدثین کے اصول پر ضعیف ہوں ان کا ترک کرنا کسی امام کے ہاں ضروری نہیں لیکن یہ کہ ان ائمہ کرام کو خود اس کا ضعف اتنا واضح ہوکہ اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کرنا درست نہ ہوامام ابوداؤد اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں
’’والأحادیث التی وضعتہا فی کتاب السنن اکثرہا مشاھیر‘‘
ترجمہ:میں نے  اپنی سنن کی کتاب میں جو احادیث داخل کی ہیںان میں اکثر مشہور ہیں (رسالہ ابی داؤد صفحہ۲۹) 
یہاں مشہور سے مراد یہ ہے کہ ان پر ائمہ فقہاء کا عمل ہے اگرچہ وہ اصطلاحًا ضعیف ہیںحافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں’’کہ امام ابوداؤد نے جن احادیث کو ذکر کرکے ان پر سکوت اختیار کیا ہے وہ چار قسم ہیں:
۱)بعض وہ جو بخاری و مسلم کی شرط پر ہیں یا ان میں موجود ہیں
۲) بعض وہ جو حسن لذاتہ کی قبیل سے ہیں بعض وہ جو حسن لغیرہ ہیں اور یہ دونوں زیادہ ہیں
۴)بعض وہ جو ضعیف ہیں پھر فرماتے ہیں
’’وکل ہذا الأقسام عندہ تصلح للاحتجاج بہا‘‘
ترجمہ:اور یہ تمام قسمیں(امام ابوداؤد) کے نزدیک قابل احتجاج ہیں
(النکت علی کتاب ابن الصلاح۱؍۴۳۵)
ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث سے حجت پکڑی جاتی تھی اسی وجہ سے ان محدثین نے ضعیف احادیث کو اپنی کتابوںمیں داخل کیا مگر آج ان ضعیف احادیث کو ان البانیوں اور اصل میں منکرین حدیثوں نے ان احادیث کو ترک کروا رکھا ہے جو سلف کا طریقہ نہیں بلکہ نئی بدعت ہے یہ دراصل خود بدعتی ہیں مگر دوسروں کو بدعتی بدعتی کہتے تھکتے نہیں خوب جان لو کہ مطلقًا کلی طور پر ضعیف حدیث کا انکار دور جدید کا فتنہ ہے
محدث شام شیخ عبدالفتاح ابوغدّۃ فرماتے ہیں’’ محدثین ،ائمہ متقدمین اپنی کتابوں میں ضعیف احادیث بھی ذکر کیا کرتے تھے تاکہ ان پر بھی عمل ہو جائے اور ان سے مسائل شرعیہ میں دلیل پکڑی جائے ضعیف احادیث سے ان کو پرہیز نہ تھااور نہ وہ ان احادیث ضعیفہ کومنکر اور پس پشت ڈالنے والی بات کرتے تھے جیسا کہ آج بعض مدعیوں کا دعوٰی ہے
(ظفر الامانی صفحہ۱۷۶)
ابن عبدالبر ،کتاب’’التمہید‘‘۱؍۵۸ میں فرماتے ہیں’’ورب حدیث ضعیف الاسناد صحیح المعنی‘‘  یعنی بہت ساری احادیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہوتی ہیںمگر معنی کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہیں‘‘
حدیث کا معنی ہی تو اصل ہے سند تو محض حدیث تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اگر ذریعہ خراب ہے اور اصل صحیح ہے تو اصل کواختیار میںکون سی چیز مانع ہے اور محض ذریعہ کی خرابی کی وجہ سے اصل ہی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کا انکار کیا جائے یہ کون سی عقلمندی ہے امام بخاری سے بڑامحدث ان نام نہاد سلفیوں اور البانیوں کے نزدیک اور کوئی نہیں آئیے ذرا ان کی کتب میں ضعیف احادیث کی کیا حیثیت ہے دیکھتے ہیں صحیح بخاری کے سوا باقی ساری کتب ضعیف  احادیث سے بھری پڑی ہیں اور اس سے تو ان کو بھی انکار نہیں،یہاں تک کہ ’’ادب المفرد‘‘ کے دو حصے کردیئے امام بخاری  نے تو صحیح بخاری میں بھی ضعیف راویوں سے روایتیں ہیں کچھ تعلیقًا، فضائل اورترغیب وترہیب کے باب میں اس کی مثال حاضر ہے
(۱)ایک راوی ہے،اسید بن زید بن الجمال، جس سے امام بخاری نے ’’صحیح بخاری باب یدخل الجنۃ سبعون ألفابغیر حساب برقم۶۵۴۱ مطبوعہ قاہرہ‘‘ میں ایک روایت لی ہے یہ راوی ضعیف ہے:
۱)امام نسائی فرماتے ہیںمتروک الحدیث  (کتاب الضعفاء والمتروکین برقم ۵۴ )
۲)امام ذہبی نے مغنی فی الضعفاء۱؍۹۰ برقم۷۴۷ میں بحوالہ یحییٰ بن معین کذاب اور متروک لکھا
۳)امام دار قطنی نے ضعفاء میں شما ر کیا (کتاب الضعفاء والمتروکین)
۴)علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں’’کذاب،دار قطنی نے اسے ضعیف قرار دیا ( تہذیب التہذیب۱/۳۰۱برقم۶۲۸)
۵)ابن شاہین نے کذاب لکھا (تاریخ أسماء الضعفاء والکذابین ابن شاہین۱/۴۷ برقم۳)
۶)ابن حبان نے مجروحین ۱/۱۸۰میں لکھا
۷)یحییٰ بن معین نے کذاب کہا (تاریخ ابن معین روایتہ الدوری برقم ۱۹۱۴)
۸)ابن ابی حاتم رازی نے کذاب لکھا (الجرح والتعدیل۲/۳۱۸برقم۱۲۰۴)
۹)امام ابن جوزی نے’’ الضعفاء والمتروکین۱/۱۲۴برقم۴۳۲ کے تحت کذاب، متروک لکھا
۱۰)امام عقیلی نے بھی’’الضعفاء للعقیلی۱/۲۸ میں کذاب لکھا
۱۱)ابن عدی نے ’’الکامل فی الضعفاء۱/ ۴۰۰ کذاب،متروک لکھا
۱۲)سوالات لابن الجنید لأبی زکریا یحییٰ بن معین ۱؍۲۹۲برقم۷۹ ’’کذاب ‘‘لکھا
اب اتنا سخت ضعیف راوی ہے لیکن امام بخاری  نے ’’صحیح بخاری‘‘ میں اس سے روایت لے رہے ہیںاب ذرا سنیے غیر مقلدین کی بھی لکھتے ہیں’’بفرض تسلیم اگر یہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ معترض نے لکھا ہے تو ہم کو مضر نہیںاس لئے کہ امام بخاری نے جس حدیث کو اسید بن زید سے روایت کیا ہے وہ بطور متابعت کے ہے
(دفاع صحیح بخاری صفحہ ۴۵۲ مطبوعہ گوجرانوالہ) 
آخر متابعت میں بھی امام بخاری  نے اس ضعیف راوی کو اہمیت دی یہی ہم بھی سمجھا رہے ہیںکہ ضعیف روایات کو متقدمین نے یکسر چھوڑ نہیں دیا تھاجیسا کہ آج کل کے جاہل لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے امام بخاری  نے’’صحیح بخاری۱/۹۹ میں ،باب وجوب الصلوٰۃ فی الثیاب‘‘ قائم کیاپھر فرماتے ہیں!
’’ویذکرعن سلمۃ بن اکوع انّ النّبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قال یزرہ ولو بشوکۃ فی اسنادہ نظر‘‘
یعنی سلمہ بن اکوع  سے روایت کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بٹن لگایا کرتے تھے، اگرچہ کانٹا ہی کیوں نہ ہواور اس کی سند میں نظر ہے امام بخاری کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے مگر استدلال فرمارہے ہیں طوالت کے خوف سے اتنا ہی کافی ہے ورنہ صحیح بخاری میں بھی فضائل،مناقب میں امام بخاری  نے ضعیف راویوں کی روایتوں سے استدلال فرمایا ہے معلوم ہواکہ متقدمین ضعیف روایتوںسے استدلال فرماتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتاہے۔کہ اصطلاحًا روایت ضعیف ہوتی ہے اور اس کا مضمون خلاف قیاس ہوتاہے تو ایسی صورت میں تمام فقہاء خصوصًا ائمہ اربعہ قیاس کے مقابلے میں اس ضعیف روایت پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ ابن قیّم صاحب نے اعلام الموقعین ۱؍۲۵ میں لکھااب ان نئے منکرین حدیث نے کہاکہ یہ ضعیف حدیث ہے لہذا اس کو چھوڑ دینا چاہیے اور چھوڑ دیااور اپنے قیاس پر عمل کرلیااور اس کا نام اہل حدیث رکھ لیااب ان منکرین حدیث کا دوسرا روپ بھی دیکھئے کہ جب اپنے مطلب کی روایت ہوخواہ وہ ضعیف ہو ،اس کو راجح کہہ کر قبول کر لیتے ہیںاور دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیںکہ ہم صحیح و حسن احادیث پر عامل ہیںان لوگوں کا ضعیف احادیث پر عمل دیکھئے
(۱)امام ترمذی نے ’’جامع ترمذی‘‘ میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا قول نقل کیا’’ جو شخص وضو کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا، اس کا وضو نہیں‘‘ (جامع ترمذی۱/۹۰ مترجم) یہ روایت ضعیف ہے اس بارے میں جتنی روایتیں ہیں وہ بھی سب ضعیف ہیں،جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’’بلوغ  المرام صفحہ ۱۱،امام زیلعی نے، نصب الرایہ ۱/۴،حافظ ابن رشد نے، بدایۃ المجتہد ۱/۱۷،اور عبدالرحمن مبارک پوری غیر مقلد نے ،تحفۃ الاحوذی ۱/۳۵ میں لکھا‘‘مگر اس کے باوجود غیر مقلدین نے مولانا عبدالرحمن مبارک پوری کا یہ فیصلہ آنکھیں بند کر کے قبول کرلیا’’لا شک فی ان ہٰذا الحدیث نص علی انّ التسمیۃ رکن للوضوء‘‘یعنی اس میں کوئی شک نہیں ،کہ یہ حدیث نص ہے کہ بسم اللہ پڑھنا ،وضو کا رکن ہے (تحفۃ الاحوذی ۱/۳۸) 
اب اس حدیث کو قبول کرتے ہوئے غیر مقلدین نے بسم اللہ پڑھنے کو وضو کا فرض مانا ہے حالانکہ ان کے اصول کے مطابق فرض تو دور کی بات،اس روایت پر ان کے ہاں عمل کرنا ہی جائز نہیں ہونا چاہیے مگر کیا کیا جائے ،ہے جو اپنے مطلب کی روایت
(۲)غیر مقلدین اونچی آواز میں آ مین کہنے کے بارے میں اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیاحالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب’’ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ پڑھتے تو آ مین بھی اتنے زور سے کہتے کہ پہلی صف والے سنتے اور مسجدگونج اٹھتی‘‘یہ روایت سنن ابن ماجہ ۱/۲۷۸ برقم۸۵۳ ہے اس کو ناصر الدین البانی نے ضعیف کہا ہے اس کا ایک راوی بشر بن رافع پر امام بخاری،امام احمد،امام یحییٰ بن معین،امام نسائی اور دیگر محدثین نے سخت جرحیں کی ہیںاور جمہور کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے مگر غیر مقلدین کے عوام اور انکے محدثین و محققین نے اس ضعیف حدیث کو قبول کیا ہے کیونکہ اپنے مطلب کی ہے
(۳)غیر مقلدین ظہر کی نماز ساراسال اول وقت میں پڑہتے ہیں ,جامع ترمذی ۱/ ۲۹۲ برقم۱۵۵،ایک روایت ہے یہ ضعیف روایت ہے اس کو ناصرالدین البانی نے بھی ضعیف کہا ہے اس کی سند میں ایک راوی حکیم بن جبیرہے محدثین نے اس پر سخت کلام کیا ہے امام احمد،امام بخاری،امام نسائی،امام دارقطنی،امام شعبہ،ابن مہدی،امام جوزجانی نے ضعیف ،متروک  الحدیث،کذاب وغیرہ قرار دیا ہے دیکھئے میزان الاعتدال۱/ ۵۸۴برقم۲۲۱۵مگر ان سخت جرحوں کے باوجود بھی غیر مقلدین کااس روایت پر عمل و فتویٰ ہے کیونکہ اپنے مطلب کی ہے لہٰذا ان تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیث ضعیف کا مطلقًا انکار کرنا ،انکار حدیث ہے اور سلف صالحین ،متقدمین ومتاخرین محدثین،مفسرین،فقہاء کرام اور علماء اہل سنت کا یہ طریقہ نہیں تھا جو آج بزعم خود اہل حدیث کہلوانے والوں کا ہے ان کا یہ طریقہ کہ مطلق ضعیف احادیث کا انکار،دراصل منکرین حدیث کا نیا روپ ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق واضح ہو جانے کے بعد اس کو قبول کرنے کی تو فیق عطا فرمائے : آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں