اتوار، 25 مارچ، 2018

دس بنیادی عقیدوں کا بیان


                  دس بنیادی عقیدوں کا بیان
)پہلا عقیدہ: ذات و صفات ِ باری تعالیٰ
اللہ تعالیٰ واحد ہے اپنی ربوبیت والوہیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ،کوئی اس کا ثانی نہیں،وہ تما م نقائص سے پاک ہے وہ ازلی ابدی قدیم ہے اور اس کی صفات بھی ایسی ہی ہیں سب کائنات کا بنانے والا،پالنے والاہے وہ موجودواحد ہے نہ کہ ایسا واحد جو کہ چند اجزاء سے مل کر بنا ہو جیسے انسان
(۲)دوسرا عقیدہ:حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے اعلیٰ ،سب سے اولیٰ 
اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد سب سے اعلیٰ واولیٰ ذات حضورنبی کریم رؤف الرحیم aکی ہے آپ بے مثل وبے مثال ہیںاللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نوازا،اللہ تعالیٰ نے وماکان ومایکون یعنی جو کچھ ہوچکا اور جو کچھ ہوگا سب کا علم عطاء فرمایا،اور آپaکواللہ تعالیٰ نے اپنا نائب مطلق بنایا،اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا تمام عالم ان کے ماتحت ہے ان کے تصرف میں ہے تمام جہان ان کامحکوم تمام زمین ان کی مِلک،جنت و نار کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ،جس کو جو ملا حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست ِاقدس سے ملاآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی جگہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک جس مٹی کو مس کررہا وہ عرش سے بھی افضل ہے
   (۳) تیسرا عقیدہ:حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے بعد تما م انبیاء ورسولوں اور ُمرسلین پر ایمان
اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء ،رسول اور مُرسلین بھیجے سب پرایمان لانا اور ان پر نازل شدہ کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی عزت وتکریم کو ماننا اور کوئی بڑے سے بڑا صحابی یا بڑے سے بڑا  ولی ان کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا ہے ان کی ادنیٰ سی گستاخی ایسے ہی کفر ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کفر ہے
(۴)چوتھا عقیدہ:اعلیٰ طبقہ ملائکہ مقربین 
انبیاء ومُرسلین کے بعد اعلیٰ طبقہ ملائکہ مقربین کا ہے ان میں سب سے بڑے چار فرشتے ہیں اور سب فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل ہیں ان کی ادنیٰ سی گستاخی کفر ہے حضرت جبرائیل نبیوں کی بارگاہ میں وحی لانے والے،حضرت میکائیل پانی برسانے والے اور روزی پہچانے والے ،حضرت اسرافیل  صور پھنکنے والے اورحضرت عزرائیل روح قبض کرنے والے
(۵)پانچواں عقیدہ: اصحاب سید المرسلین واہل بیت کرام
انبیاء وملائکہ مقربین کے بعد بڑی عزت وبڑی شان والے ،حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ و اہل بیت ہیںجن میں ازواج مطہرات،ودیگر اہل بیت حضرت علی حضرت فاطمہ وامام حسن  وامام حسین رضی اللہ عنہم اور ہر وہ مسلمان جس نے ایمان کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےچہرہ انور کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوا،ان سب صحابہ پر ایمان لانا اور ان کی عزت وتکریم کو بجا لانا،صحابہ کرام کا جب ذکر کرے تو خیر ہی کے ساتھ کرے ،حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے [اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اللہ تعالیٰ سے ڈرو، میرے اصحاب کے حق میں انہیں نشانہ نہ بنا لینا میرے بعد جو انہیں دوست رکھتا ہے میری محبت سے اسے دوست رکھتا ہے اور جو ان کا دشمن ہے میری عداوت سے ان کا دشمن ہے جس نے انہیں ایذادی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو گرفتار کرلے ] (جامع ترمذی: ۵/۴۶۳رقم۳۸۸۸)
(۶) چھٹا عقیدہ: عشرہ مبشرہ و خلفائے اربعہ
سب اہل بیت و صحابہ کرام میں افضل و اعلیٰ حضراتِ عشرہ مبشرہ ہیں وہ دس صحابی جن کی بشارت حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں سنا دی تھی یعنی حضرت ابو بکر صدیق،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی شیرخدا،حضرت طلحہ،حضرت زبیر،حضرت عبدالرحمن بن عوف ،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت سعید بن زید اورحضرت ابو عبیدہ بن الجراحj،پھر ان سب میں خلفائے اربعہ یعنی چاروں خلفاء حضرت ابوبکرصدیق،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی شیرخداjسب میں افضل ہیں سب کی شانیں جدا جدا ہیں
(۷)ساتواں عقیدہ:مشاجرات صحابہ کرام
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جن جنہوں نے اختلافات کیے اور جو واقعات رونما ہوئے مثلًا جنگ جمل میں حضرت طلحہ وحضرت زبیروحضرت عائشہ صدیقہ اور جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے مقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے ان میں حق بجانب حضرت علی رضی اللہ عنہ  ہیں باقی سب کی اجتہادی خطاء ہے اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں لیکن ان حضرات کے متعلق زبان کو طعن وتشنیع سے روکتے ہیں ،اور ان کے تنازعات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں اور ان کے اختلافات کو امام ابو حنیفہ وامام مالک و امام شافعی وامام احمدnجیسا اختلاف سمجھتے ہیں اور کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ ام المؤمنین طیبہ طاہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پرکوئی طعن کرے ،یہ تو اللہ ورسول کی گستاخی ہے ،اور حضرت طلحہ و زبیرjیہ تو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ،رہے حضرت امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  ان کا درجہ ان سب کے بعد ہے ان سے تو شہزادہ اکبر حضرت امام حسن  رضی اللہ عنہ  نے حسب ِبشارت حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح فرمالی اور ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی اب اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن دراصل امام حسن رضی اللہ عنہ  پر طعن ہے وہ توسب آپس میں محبت و پیار رکھنے والے ہیں
)آٹھواں عقیدہ:  امامت صدیق اکبررضی اللہ عنہ
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت مطلقہ کو امامتِ کبرٰی اور اس منصب پر فائز ہونے کوامام کہتے ہیں ،امام المسلمین حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام امور دینی ودنیوی میں حسبِ شرع تصرف عام کا اختیار رکھتا ہے اور غیر معصیت میںاس کی اطاعت تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہوتی ہے،اس امام کے لئے مسلمان آزاد،عاقل،بالغ،قادر اور قریشی ہونا لازم ہے ہاشمی علوی اور معصوم ہونا اس کی شرط نہیں یہ صرف روافض کا مذہب ہے ہم مسلمانانِ اہل سنت وجماعت کے نزدیک رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بعد خلافت وامامت حضرت صدیق اکبر کی قطعًا ،یقینًااور تحقیقًا ثابت ودرست رُشد وہدایت پر مبنی ہے نہ کہ غصب یا جبر سے حاصل کی ہے اور آپ ہی اسی کے حق دار تھے جس پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صریح ارشادات وسیع ہیں اس کے ساتھ ساتھ سب صحابہ کرام کا اس پر اجماع اورکسی ایک کابھی انکار ثابت نہیں ، اس کے بعد تینوں خلفاء اور آخر میں امام حسن ہیں 
(۹)نواں عقیدہ:ضروریاتِ دین
نصوصِ قرآنیہ جو اپنی مراد پر واضح ہوں اور احادیث ِمشہورہ متواترہ اور اجماعِ امت مرحومہ سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت ذات وصفات اور نبوت ِانبیاء ورسالت ومرسلین ،وحی رب العالمین وآسمانی کتب وملائکہ وجن وبعث حشر ونشر وقیامِ قیامت ،قضاء وقدر،وما کان ومایکون یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہوگا جنت کی لذتیں ،جس کو آنکھوں نے نہ دیکھا اور نہ کانوں نے سنااور جہنم کے عذاب جس کے تصورسے بھی روح کانپے،پل صراط،حوض کوثرکے متعلق جو کچھ ثابت ہے سب پر ایمان لائے اور اس کے خلاف کوئی نئے معنی نہ گھڑے جان لو کہ کوئی حدیث کا انکار کرے اور صرف قرآن کی بات کرے گمراہ ہے اور جو قرآن میں شبہ ڈالے تو حدیث کی پناہ لو اگر حدیث میں شبہ ڈالے تو ائمہ دین کی پناہ لو اس درجہ پر حق وباطل کھل جائے گا
(۱۰)دسواں عقیدہ: شریعت وطریقت
شریعت وطریقت دو مختلف ایک دوسرے سے جدا راہیں نہیں ہیں ،بلکہ بے اتباع ِ شریعت اللہ تعالیٰ تک رسائی ناممکن،شریعت ہی اصل ہے اور حق وباطل کے پرکھنے کی کسوٹی، شریعت راہ کو کہتے ہیں اور شریعتِ محمدیہcکا ترجمہ ہے محمد رسول اللہaکی راہ ،یہی وہ راہ ہے جو صراطِ مستقیم ہے ،یونہی طریق ،طریقہ،طریقت راہ کو کہتے ہیں نہ کہ پہنچ جانے کو،تو یقینًا طریقت بھی راہ ہی کا نام ہے اگر وہ شریعت سے جدا ہو تو بشہادت قرآن خدا تک نہ پہنچائے گی بلکہ شیطان کی طرف لے جائے گی ،جنت کی طرف نہ لے جائے گی بلکہ جہنم کی طرف لے جائے گی ،طریقت میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے وہ شریعت کے اتباع کا صدقہ ہے صوفی وہ جو اپنی خواہشوں کو شرع کے تابع کرے نہ کہ وہ صوفی ہے جو اپنی خواہش کے واسطے شریعت سے لڑائی کرے ،شریعت غذا ہے اور طریقت قوت،جب غذا ترک کی جائے گی تو قوت ختم ہوگی ،شریعت آنکھ ہے اور طریقت نظر آنکھ پھوڑ کر نظر کا رہنا ناممکن، توہین شریعت کفر ہے لہٰذا شریعت پر عمل کر کے ہی طریقت ملتی ہے ان دس عقیدوں کو سمجھ کر اس پر ایمان لاتا ہے وہ گمراہی سے دور ہے اورجو ان میں سے کسی ایک کا بھی انکاری ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہے لہٰذا ان دس عقیدوں کو مضبوطی سے تھامیے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصرہو آمین۔ (ماخوذ فتاوٰی رضویہ:  ۲۹/۳۴۰تا۳۸۹مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ لاہور)
    الداعی الی الخیر: مولانا ابو اسامہ ظفر القادری بکھروی 0344.7519992

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں