اتوار، 25 مارچ، 2018

حدیث جابررضی اللہ عنہ اور(اختلافی)رفع یدین کا منسوخ ہونا


                 
حدیث جابررضی اللہ عنہ اور(اختلافی)رفع یدین کا منسوخ ہونا
                                     تحریر وتحقیق :ابو اسامہ ظفر القادری بکھروی
نحمدہٗ و نصلی و نصلم علی رسولہ الکریم!
’’حَدَّثَنَااَبُوْ بَکْرِ ْبنُ اِبْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ وَاَبُوْ کُرَیْبٍ قَالَ نَااَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَ عَنْ جَابِرْ بِنْ سَمْرَۃَ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَارَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ مَالِیْ اَرَاکُمْ رَافِعِیْ اَیْدِکُمْ کَاَنَّھَا اَذْ نَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ اُسْکُنُوْا فِیْ الصَّلٰوۃِ‘‘۔ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا یہ کیا وجہ ہے کہ میں تم کو بدکے ہوئے گھوڑوں کی دُموںکی طرح نماز میں رفع یدین کرتے ہوئے دیکھتا ہوں:نماز سکون سے پڑھا کرو(صحیح مسلم عربی۱/۱۸۱ طبع قدیمی کتب خانہ کراچی)یہ روایت تقریباً 16کتب میں 32اسناد کے ساتھ موجود ہے۔
ا س حدیث کے تحت شروع دن سے محققین و محدثین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے اختلافی رفع یدین کو منسوخ مانا ہے یہی وجہ ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ اور دیگر شوافع و حنابلہ اور بعد میں آنے والے غیر مقلدین(اہلحدیث) جو کہ رفع یدین کے قائل ہیں نے اس حدیث کے کئی جواب دیے ہیں اور اس حدیث کو ناسخ ماننے سے انکار کیا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ شروع ہی سے اکابرین اسلام نے اس حدیث کے تحت نسخ رفع یدین کا استدلال کیا ہے۔جن محدثین نے اس حدیث سے رفع یدین کا منسوخ ہونا قبول کیا ہے درج ذیل ہیں:
۱)امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ:
امام اجل وکیل احناف محدث جلیل امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی الحنفی علیہ الرحمہ نے اختلافی رفع یدین کے متعلق دعویٰ نسخ فرمایا۔پھر اس کی تکمیل کے بعد آخر میں لکھا!
’’وھو قول ابی حنیفۃ وابی یوسف و محمد رحمھم اللّٰہ تعالیٰ‘‘
(شرح معانی الآثار ۱/۴۶۸ مترجم حامد اینڈ کمپنی لاہور )
امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ سے یہ امر صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ نماز میں اختلافی رفع یدین نہیںچنانچہ امام محمد علیہ الرحمہ امام اعظم علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں!(اللفظ الاول)
’’لا یرفع یدیہ فی شی ء من ذالک الا فی التکبیرۃ التی یفتح بھا الصّلٰوۃ‘‘
(کتاب الاصل ۱/۱۳،کتاب الخمہ ۱/۹۴،موطا امام محمد صفحہ ۹۰ )     
ترجمہ:یعنی پوری نماز میں (سوائے مستثبات کے)نمازی کو تکبیر تحریمہ کے علاوہ کہیں بھی رفع یدین کی اجازت نہیں:
امام نووی فرماتے ہیں!
’’وقال ابو حنیفۃ واصحابہ و جماعۃ من اھل الکوفۃ لا یستحب فی غیر تکبیرہ الاحرام وھو اشھر الروایات عن مالک‘‘
(شرح مسلم باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام صفحہ ۱۶۸)
ترجمہ:اور امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ اور انکے اصحاب اور اہل کوفہ کی جماعت نے یہ فرمایا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی بھی رفع یدین مستحب نہیں ہے اور یہ ہی مشہور روایت امام مالک علیہ الرحمہ سے ہے:
امام محمد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں!
’’قال محمد السنۃ ان یکبر الرجل فی صلٰوتہ کلما خفض و کلما رفع واذا انحط للسجود کبر واذاالنحط للسجود الثانی کبر فاما رفع الیدین فی الصّلٰوۃ فانہ یرفع الیدین حذوالاذنین فی ابتداء الصّلٰوۃ مرۃ واحدۃ ثم لا یرفع فی شی ء من الصّلٰوۃ بعد ذالک وھذا کلہ قول ابی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وفی ذالک اٰثار کثیرہ‘‘
                         (موطا امام محمد صفحہ ۹۰ مترجم)

ترجمہ: امام محمد علیہ الرحمہ نے فرمایا! سنت یہ ہے کہ جب کوئی اپنی نماز میں جھکے اور جب بلند ہو تکبیر کہے اور جب سجدہ کے لیے جھکے تکبیر کہے لیکن رفع یدین نماز میں ایک بار ہے وہ یوں کے نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھائے یہی امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کا قول ہے اس(ایک مرتبہ رفع یدین کرنے کے)مسئلہ میں بہت سے آثار ہیں
اگر کوئی یہ کہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ علیہم کا مناظرہ اس معاملہ میں مشہور ہے اور وہاں وجہ ترجیح فقہ رواۃ کو بنانا مذکور ہے اور آپ(حنفی) اسکو منسوخ کہتے ہیں۔تو گذارش یہ ہے کہ مناظرہ میں ماحول کے مطابق گفتگو کی جاتی ہے ۔ہو سکتا ہے اس وقت بحث اسی انداز میں ہو رہی ہو اور اپنے مؤقف کو اسی طرح ثابت کرنا ٹھہرا ہوجبکہ یہ قطعاً ممکن نہیں کہ امام اعظم علیہ الرحمہ کو احادیث رفع یدین کے وجود کا انکار ہو کیونکہ انکار حدیث تو کسی عام مسلمان سے متصور نہیں چہ جائیکہ اسے امام المسلمین سے منسوب کیا جائے۔لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ مسئلہ ھذا کی احادیث ترک راجح اور احادیث فعل مرجوع ہیں۔جبکہ نسخ کے علاوہ کوئی وجہ نہیں اور وجہ ترجیح نسخ ہی قرار پایا:
امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کا بنیادی سلسلہ تلمذ تین واسطوں سے حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔آپ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علوم و معارف کے وارث اور امین ہیں۔جب کہ غیر مقلدین کے نزدیک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نسخ رفع یدین کے قائل تھے اور ان سے رفع یدین نماز میں ثابت نہیں بلکہ ترک ثابت ہے
غیر مقلدین (اہل حدیث )کے پیشوا شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا ہے!
’’اما قول ابن مسعود و ترک فترکنا فلمستعار منہ ھو انّ النّبیّ  ترک وفھمناالنسخ فالنسخ ھو فھم ابن مسعود‘‘
(تنویر العینین صفحہ ۲۸،۲۹  )
ترجمہ:یعنی رہا حضرت ابن مسعود کا یہ قول کہ آپ  نے رفع یدین چھوڑ دی تو ہم نے بھی چھوڑ دی۔تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین چھوڑ ی جس سے ہم نے یہ سمجھا کہ وہ منسوخ ہو گئی پس اسے منسوخ سمجھنا حضرت ابن مسعود کی فہم کا نتیجہ ہے:
علامہ علی قاری مرقات شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں!
’’ولیس فی غیر التحریمۃ رفع یدیہ عند ابی حنیفہ لخبر مسلم عن جابر بن سمرۃ۔قال خرج علینا‘‘   
(حاشیہ مشکوٰۃ صفحہ ۷۵  )
ترجمہ:یعنی امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے نزدیک (اختلافی) رفع یدین کی جو کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ احادیث نہیں جسکی ایک دلیل حضرت جابر بن سمرہ کی حدیث جو کہ صحیح مسلم میں ہے۔اسی طرح غیر مقلدین کے امام نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے لکھا!
’’ولا یبعد أن یکون ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظن أن السنۃ المتقررۃ آخراً ھو ترکہ‘‘
(الروضۃ الندیہ۱/۹۴ طبع کراچی)
ترجمہ:یعنی یہ بھی ممکن کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا ہو کہ یہ رفع یدین آخر میں متروک ہو گئی تھی
اور امام اوزاعی علیہ الرحمہ کے ساتھ مناظرہ کے حوالہ سے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کا یہ مؤقف لکھا!
’’فکانہ ظن انہ تفظن ابن مسعود للنسخ‘‘
گویا امام اعظم علیہ الرحمہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو قائل نسخ گردانتے ہوئے فقہ رواۃ کی توجیہہ کو اپنایا تھا
(ملاحظہ فرمایئے:الروضۃ الندیہ ۱/۹۵ طبع کراچی)
۲)امام ابو یوسف علیہ الرحمہ:
حدیث جابر سے استدلال کے بعد امام صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں!
’’ولأن السنۃ رفع یدیہ عند الافتتاح‘‘
(البنایہ ۳/۱۳۶ طبع بیروت )
۳)امام اجل وکیل احناف محدث جلیل امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی:
امام طحاوی علیہ الرحمہ نے دعویٰ نسخ فرمایا اور اس پر دلائل کے انبار لگا دیئے
دیکھئے: ( شرح معانی الآثار للطحاوی مترجم ۱/۴۶۲ طبع لاہور)
۴)امام سر خسی علیہ الرحمہ:
امام صاحب علیہ الرحمہ’’ المبسوط ‘‘میں فرماتے ہیں!
’’وحین رأی بعض الصحابۃ رضوان اللّٰہ علیہم یرفعون ایدیھم فی بعض أحوال الصّلٰوۃ کرہ ذالک فقال مالی أراکم رافعی أیدیکم کأنھاأذناب خیل شمس اسکتوا‘‘ ترجمہ:یعنی رسول اللہ  نے بعض صحابہ کرام کو بعض احوال نماز میں رفع یدین کرتے دیکھاتواس کے کرنے سے منع فرمایا۔اور فرمایا مالی اراکم رافعی ایدیکم۔۔۔الخ  
(المبسوط لشمس الدین السرخسی ۱/۱۴ باب کیفیۃ الدخول فی الصلوٰۃ ،طبع دارالمعرفۃ بیروت)
۵)فخرالدین  عثمان بن علی الزیلعی رحمہ اللہ:
آپ فرماتے ہیں!
’’وعن جابر بن سمرۃ قال خرج علینا رسول اللّٰہ   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال مالی اراکم رافعی أیدیکم کأنھا أذناب خیل شمس اسکنوا فی الصّلٰوۃ رواہ مسلم‘‘ 
(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق ج ۱ /۱۲۰ )
۶)امام کمال الدین محمد بن الواحد المعروف بابن ھمام علیہ الرحمہ:
امام ابن حمام شرح فتح القدیر میں ترک رفع یدین کے دلائل لکھ کر نسخ کا دعویٰ فرماتے ہیں۔دیکھئے:
(شرح فتح القدیر ۱/۳۱۹،۳۲۰ طبع بیروت)
۷)شیخ الاسلام برھان الدین علی بن ابی بکر المرغینائی علیہ الرحمہ:
علامہ المرغینائی صاحب الھدایہ اولین صفحہ نمبر ۹۲،۹۳ میں ترک رفع یدین کے دلائل لکھ کر نسخ کا دعویٰ کرتے ہیں۔
۸)امام ابن نجیم المصری الحنفی علیہ الرحمہ:
امام ابن نجیم المصری فرماتے ہیں!
’’فلا یرفع یدیہ عند الرکوع ولا عند الرفع منہ ولا تکبیرات الجنائز بحدیث ابی داؤد عن البراء بن عازب(الی) و بحدیث جابر بن سمرۃ قال خرج علینا ۔۔الخ‘‘
ترجمہ:یعنی رکوع میں اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تکبیرات جنازہ میں رفع یدین نہیں ہے۔ابو دائود کی حدیث براء بن عازب اور حدیث جابر بن سمرہ کی وجہ سے۔  
(البحر الرائق ج اول صفحہ ۳۲۲ طبع کوئٹہ)

۹)قاضی عیاض المالکی علیہ الرحمہ:
قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’وقد ذکر ابن القصار ھذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الا یدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ‘‘
(الا کمال المعلم بفوائد مسلم ۲/۳۴۴)
ترجمہ: اور بے شک ابن القصار المالکی نے اس حدیث کو نماز میںرفع یدین کے منع کرنے پر حجت کے طور پر پیش کیا ہے۔ 
۱۰)حضرت علامہ علی قاری الحنفی علیہ الرحمہ:
فرماتے ہیں!
’’رواہ مسلم و یفید النسخ‘‘ (شرح نقایہ ج ۱ ص۷۸ )
ترجمہ:حدیث مسلم (رفع یدین)کے نسخ کا فائدہ دیتی ہے
اور اسی طرح ’’مرقات شرح مشکوٰۃ‘‘ ملا علی قاری میں ہے
۱۱)امام زیلعی الحنفی علیہ الرحمہ:
حافظ امام جمال الدین أبی محمد عبد اللہ بن یوسف الزیلعی الحنفی المتوفی ۷۶۴ھ؁ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں!
’’احادیث أصحابنا:منھا حدیث تمیم بن طرفۃ عن جابر بن سمرۃ قال خرج علینا رسول اللّٰہ ﷺ فقال ،مالی اراکم رافعی ایدیکم کأنھا أذناب خیل شمس اسکنوا فی الصّلٰوۃ‘‘ (نصب الرایۃ لأحادیث الھدایہ ۱/۳۹۳   )
۱۲) ملک العلماء علامہ کاسانی علیہ الرحمہ:
علامہ کاسانی علیہ الرحمہ نے بھی اس حدیث سے بطور نسخ استدلال فرمایا ہے
(دیکھئے:بدائع الصنائع ۱/۲۰۷)
۱۳)علامہ سید طحطاوی الحنفی علیہ الرحمہ:
’’فلا یرفع یدیہ عند الرکوع و عند الرفع منہ لحدیث مسلم مالی اراکم رافعی ایدیکم ۔۔۔الخ (دیکھئے:حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح)
۱۴)امام حسن بن عمارہ الشرنبلالی رحمہ اللہ:
’’ویکرہ الرفع فی غیر ھذا المواطن فلا یرفع یدیہ عند الرکوع ولاعند الرفع منہ ولا فی تکبیرات الجنائز غیر الاولیٰ لحدیث مسلم مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس۔۔۔الخ
(مراقی الفلاح صفحہ نمبر ۴۰ مطبوعہ کراچی)
۱۵)علامہ مولانا محمد ہاشم سندھی (المتوفی ۱۱۷۴ ھ)علیہ الرحمہ:
رفع یدین کے منسوخ ہونے کے بارے میں صریح احادیث اور حضرت جابر بن سمرہ ،حضرت عبد اللہ بن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کی احادیث درج فرمائی ہیں۔  
(کشف الرین فی مسئلہ رفع الیدین مترجم صفحہ ۶۸ مع مقدمہ محمد عباس رضوی طبع گوجرانوالہ )
۱۶)فتاویٰ عالمگیری:
میں لکھا ہے!
’’و یکرہ ان یفترش ذراعیہ وان یرفع یدیہ عند الرکوع و عند رفع الراس من الرکوع‘‘
(فتاوٰی عا لمگیری ج ۱ ص۱۰۵،۱۰۶ میں’’ الفصل الثانی فی ما یکرہ فی الصلوٰۃ وما لا یکرہ)
۱۷)علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ:
فرماتے ہیں!
’’(تتمہ)بقی من المکروھات اشیاء اخر ذکرھا المنیہ ونور الایضاح وغیرھما (الیٰ ان قال) و رفع یدیہ عند الرکوع والرفع منہ‘‘
(فتاویٰ شامی ۱/۴۸۴ مطبوعہ مصر)
اس عبارت میں علامہ شامی نے رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کے رفع یدین کو مکروھات میں شمار کیا ہے جو کہ ممانعت کی دلیل ہے اور ممانعت حدیث جابر میں ہے۔
۱۸)شیخ عبد الحق محدث دھلوی علیہ الرحمہ:
حضرت شیخ عبد الحق محدث دھلوی علیہ الرحمہ نے بھی حدیث جابر کے تحت رفع یدین منسوخ مانا ہے ۔ملاحظہ فرمائیے:
(شرح سفر السعادت ص ۷۲)
۱۹) علامہ بدر الدین العینی الحنفی علیہ الرحمہ:
علامہ بد ر الدین العینی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں!
’’واستدلال أصحابنا بحدیث جابر بن سمرۃ قال خرج علینا رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال مالی أراکم رافعین أیدیکم کانھا أذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوٰۃ اخرجہ مسلم‘‘
(البنایۃ فی شرح الھدایۃ ۲/۲۹۴ طبع بیروت)
اسی طرح علامہ عینی نے ’’عمدۃ القاری شرح بخاری جلد ۵ صفحہ ۴۰۵‘‘میں لکھا ہے۔
۲۰)مولانا الشاہ احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ:
امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے بھی حدیث جابر کے تحت اختلافی رفع یدین کو منسوخ مانا ہے۔ 
(فتاوی رضویہ ج۶؍۱۵۵ )
۲۱)محدث دکن علامہ ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ علیہ الرحمہ:
محدث دکن علیہ الرحمہ نے ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ میںحضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث لکھی اور دیگر دلائل دیئے۔اور اختلافی رفع یدین کو منسوخ مانا۔  
(زجاجۃالمصابیح مترجم ج ۱ صفحہ ۵۷۳تا۵۷۶ طبع فرید بک سٹال لاہور )
۲۲)علامہ عبد العزیز پر ہاروی علیہ الرحمہ:
آپ نے بھی رفع یدین عند الرکوع اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت کو بھی منسوخ مانا ہے۔
(کوثر النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
۲۳)امام ابی محمد علی بن زکریا المنجی(م۶۸۶):
آپ لکھتے ہیں’’لا تر فع الایدی عند الرکوع ولا بعد الرفع منہ مسلم عن جابر بن سمرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال خرج علینا رسول اللّٰہ ﷺ فقال مالی اراکم رافعی أیدیکم کأنھاأذناب خیل شمس اسکنوا فی الصّلاۃ،،
(اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب۱؍۲۳۱ مطبوعہ دمشق)
۲۴)ابو الفرج عبدالرحمٰن ابن جوزی رحمہ اللہ:
حدیث جابر لکھ کر آپ اس کے بعد لکھتے ہیں’’و قد احتج بعض أصحاب  أبی حنیفۃبھذا الحدیث فی منعہم رفع الیدین  فی الرکوع وعند الرفع منہ، (کشف المشکل من حدیث الصحیحین۱؍۲۹۵ مطبوعہ الریاض)
۲۵)علامہ مغلطائی رحمہ اللہ:
آپ لکھتے ہیں’’واما استدلال بعض الحنفیۃ بحدیث جابر بن سمرۃ من عند مسلم مالی اراکم ۔۔۔۔۔۔۔الخ،،                              (شرح ابن ماجہ للمغلطائی۱؍۱۴۷۴مطبوعہ سعودی عرب)


۲۶)محمود بن احمد بن الصدر الشھید النجاری برہان الدین مازہ رحمہ اللہ :
آپ لکھتے ہیں’’ویکرہ أن یرفع یدیہ عندالرکوع،وعند رفع الرأس من الرکوع  لحدیث جابر بن سمرۃ۔۔۔۔۔۔۔الخ،،
(المحیط البرھانی۲؍۵۵مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)
۲۷)شھاب الدین احمد بن ادریس مالکی رحمہ اللہ:
آپ دیگر دلائل لکھ کر رفع یدین کی منسوخیت کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں’’وجہ الثانی أن الرفع منسوخ بمایروی عن جابر بن سمرۃ قال کنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکنوافی الصلاۃ‘‘
(الذخیرۃ۲؍۲۲۰طبع بیروت) 
۲۸)علامہ الحاجۃ نجاح الحلبی:
آپ دیگر دلائل لکھ کرحدیث جابر کو منع کی دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں’’ولا ترفع الیدان عندالرکوع ولا فی الرفع منہ ولا فی التکبیرات الجنازۃ غیر الأولی منھا لحدیث جابر بن سمرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال خرج علینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکنوا فی الصلاۃ،،
(فقہ العبادات علی المذاہب الحنفی۱؍۸۷)
۲۹)ماہر یاسین الفحل:
ماہر یاسین صاحب لکھتے ہیں
’’لا ترفع الیدان  عندالرکوع ولا فی الرفع منہ ،وانما ترفعان عند تکبیرۃ الاحرام فقط۔وہو قول ابی بکر فی الروایۃ ،وعمر فی روایۃ،وعلی،وابن مسعود،وابن عمر فی روایۃ،وابن عباس فی روایۃ،والثوری، والشعبی،والنخعی،وابن ابی لیلٰی،والحسن بن صالح بن حی، والاسود،وعلقمۃ،وخیثمۃ،وقیس بن ابی حازم،وابی اسحاق السبیعی،والیہ ذہب ابو حنیفۃ واصحابہ،وہو روایۃ عن مالک وہو مذہب اہل الکوفۃ واستدلوابحدیث جابر بن سمرۃ قال خرج علینا۔۔۔۔۔۔۔أسکنوا فی الصّلاۃ،،
(أثر اختلاف المتون والأسانید  فی اختلاف الفقھاء۱؍۴۶۷،۴۶۸،۴۶۹) 
۳۰)علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ:
حضرت علامہ نے بھی حدیث جابر کے تحت اختلافی رفع یدین کو منسوخ مانا ہے
(صحیح البہاری ۲/۳۹۶)
۳۱)علامہ فیض احمد اویسی محدث بہاولپوری علیہ الرحمہ:
علامہ فیض احمد اویسی نے بھی حدیث جابر سے رفع یدین کے منسوخ ہونے کا استدلال کیا ہے                      
                                       (رسالہ رفع یدین ص ۹ طبع بہاولپور )
۳۲)علامہ غلام رسول سعیدی مدظلہ:
آپ نے بھی حدیث جابر کے تحت رفع یدین کو منسوخ مانا ہے
  (شرح صحیح مسلم ج ۱ ص۶۳۵)
۳۳)علامہ مفتی غلام رسول( علی پور سیداں):
علامہ غلام رسول صاحب بھی حدیث جابر سے نسخ کا استدلال کرتے ہیں:
(نور الفرقدین علی رفع الیدین ص۶۲،۶۳  )
۳۴)محقق اسلام علامہ مولانا محمد علی نقشبندی علیہ الرحمہ:
حضرت محقق اسلام حدیث جابر بن سمرہ لکھ کر فرماتے ہیں!
’’یہ حدیث پاک بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ ان صحابہ کرام نے حضور ﷺ کے پہلے عمل کو تو دیکھا تھا اور اسکے مطابق نماز ادا کر رہے تھے۔لیکن انھیں چونکہ آپ کے آخری عمل کی خبر نہ پہنچی تھی اس لیے جب آپ ﷺ نے انھیں منسوخ شدہ کام کرتے دیکھا تو اسے گھوڑوں کے دم ہلانے سے مشابہ قرار دیا اور سکون کاحکم دیا لہذا اس ارشاد گرامی سے رفع یدین والی روایات منسوخ ہونا خود حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے ثابت ہو گیا:
(شرح موطا امام محمد ج۱ ص۱۳۵ کتاب الصلوٰۃ طبع لاہور)
۳۵)حضرت علامہ محمد حسن محدث السنبلی علیہ الرحمہ:
محدث سنبلی نے حدیث جابر لکھ کر اس سے نسخ رفع یدین کا استدلال کیا ہے اور مزید دلائل ترک رفع یدین کے دیئے ہیں:
(تنسیق النظام ص۵۵ طبع مکتبہ رحمانیہ لاہور)
۳۶)حضرت علامہ محدث قاسم بن قطلوبغا علیہ الرحمہ:
حضرت علامہ محدث قاسم علیہ الرحمہ نے بھی حدیث جابر سے نسخ رفع یدین کا استدلال کیا ہے:
(بحوالہ مناظرے ہی مناظرے از علامہ محمد عباس رضوی ص۳۹۱)
۳۷)ترحیب بن ربیعان الدوسری:
آپ بھی دیگر دلائل لکھ کر آخر میں لکھتے ہیں’’وقد احتج بعض متأخری الکوفۃبحدیث مسلم عن جابر بن سمرۃ قال :قال رسول اللّٰہ : صلی اللہ علیہ وآلہ وسلممالی اراکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔أسکنوا فی الصّلاۃ،،
ترجمہ۔اور تحقیق بعض متاخرین کوفہ نے حدیث مسلم جابر بن سمرہ سے احتجاج کیا ہے:
(رد خبر الواحد بما یسمی۱؍۶۳)
۳۸)ابو معاذ طارق بن عوض اللہ بن محمد:
ابو معاذ صاحب لکھتے ہیں’’أطلق فیھا النھی عن رفع الیدین،ولم یقید فیھا بحالۃ السلام،فاحتج بھا بعض الکوفین لمذھبھم فی المنع من رفع الیدین عند الرکوع ورفع منہ وھذا الروایۃ،۔۔۔۔۔۔۔عن جابر بن سمرۃ قال خرج علینا۔۔۔۔۔۔۔۔أسکنوا فی الصلاۃ،،
یعنی رفع یدین کے حوالے سے نہی مطلق ہے،اس کو بحالت سلام مقیّد نہیں کیا جاسکتا ،پس بعض اہل کوفہ کا مذہب یہ ہے کہ وہ رکوع جاتے اور آتے ہوئے رفع یدین منع کرتے ہیں اس روایت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے تحت  قال خر ج علینا۔۔۔۔۔الخ۔ 
(الارشادات فی تقویۃ الاحادیث بالشواہد والمتابعات ۱؍۱۷۰ مطبوعہ الریاض)

۳۹)فقیہ اعظم ہند مولانا محمد شریف الحق امجدی رحمہ اللہ:
ّآپ نے بھی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کرتے ہوئے اختلافی رفع یدین کو منسوخ مانا ہے اور اس روایت پر اعتراضات کے جوابات دیے ہیں دیکھئے: (نزہۃ القاری شرح بخاری ۲؍ ۳۸۹ طبع فرید بکسٹال لاہور)  
قائلین اختلافی رفع یدین اور حدیث جابر:
بعض غیر مقلدین حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ آپ کے ذہن کی اختراع ہے
 پہلے محدثین نے اس حدیث سے نسخ رفع یدین کا استدلال نہیں فرمایا جو آپ کرتے ہو ۔
جواباً عرض ہے کہ زمانہ قدیم سے قائلین رفع یدین محدثین اپنی اپنی کتب میں حدیث جابر بن سمرہ کے جوابات دیتے آ رہے ہیںاور بلا دلیل یہ ان کی تردیدیں جو ہیںوہ آخر کس کا جواب دے رہے ہیں۔اگر آپ کے بقول اس حدیث سے نسخ رفع یدین کا استدلال کرنے والا کوئی نہیں تھا تو اس حدیث کی جوابی تحریریں کس بنیاد پر ہیںاور نسخ رفع یدین کا ردّ کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی اس حدیث سے نسخ رفع یدین کے استدلال کرنے والے ائمہ اور علماء و محدثین موجود تھے جبکہ اسکا ردّ کرنے والوں میں خود غیر مقلدین کاعتراف کے مطابق امام بخاری علیہ الرحمہ المتوفی۱۹۴ھ؁ سر فہرست ہیں: (ملاحظہ فرمایئے:جز رفع الیدین للبخاری صفحہ ۶۱ طبع مکتبہ اسلامیہ)
اسی طرح امام ابو دائود ’’قائل رفع یدین‘‘ المتوفی ۲۷۵ھ؁ نے اسے سنن ابو دائود میں اور امام نسائی’’ قائل رفع یدین ‘‘المتوفی۳۰۳ھ؁ نے سنن نسائی باب السلام میں اس حدیث کو رکھ کر اسکے عند الرکوع کی ممانعت کی بابت ہونے سے انکار کیا ہے۔یہ بھی ثبوت ہے کہ ان کے دور میں اسے ممانعت رفع کی دلیل سمجھنے والے علماء محدثین و فقہاء موجود تھے:
اسی طرح امام ابن حبان المتوفی۳۵۴ ھ؁ کا اپنی کتب میں اور امام  نووی شافعی المتوفی ۶۷۶ھ؁ کا قائلین رفع یدین کا ’’شرح صحیح مسلم‘‘ وغیرہ اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی المتوفی۸۵۲ء؁ کا’’ تلخیص الحبیر‘‘میں ابن الملقن کا ’’البدر المنیر‘‘اور ابن سید الناس کا ’’شرح ترمذی‘‘میں حدیث جابر کے ردّ میں جوابات لکھنا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ہر دور میں حدیث جابر سے نسخ رفع یدین کا استدلال کرنے والے علماء و محدثین موجود رہے ہیںخاص کر قاضی شوکانی(غیر مقلد)المتوفی ۲۱۵۰ھ؁ نے ’’نیل الاوطار ۲؍۱۸۸‘‘میں واضح الفاظ میں لکھا!
’’واحتج من قال لعدم الاستحباب بحدیث جابر بن سمرۃ الخ‘‘
یہ عبارت بھی اس بات کی ناقابل تردید اور ٹھوس حقیقت ہونے کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ حدیث جابر سے استدلال کرنے والے محدثین ہر دور کے اندرموجود رہے ہیں:
یہ ایک اجتہادی اور فروعی مسئلہ ہے اسی وجہ سے اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔اس لیے ترک رفع یدین کرنے والوں کو برا کہنا درست نہیں۔اسی طرح ابن جوزی نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے فرماتے ہیں!
’’وقد احتج بعض أصحاب أبی حنیفۃ بھذا الحدیث فی منھم رفع الیدین فی الرکوع و عند الرفع منہ‘‘
(المشکل من حدیث الصحیحین لا بن جوزی۱/۹۲۵ المکتبۃ الشاملہ)
ترجمہ:بعض اصحاب ابی حنیفہ نے اس حدیث کے ساتھ رکوع سے پہلے اور بعد رکوع سر اُٹھاتے وقت رفع یدین کی ممانعت کی دلیل پکڑی ہے۔
نوٹ :یہ کہنا کہ اس حدیث کا تعلق ’’باب السلام‘‘ سے ہے اور اس پر تمام محدثین کا اجماع ہے کئی وجوہ سے باطل ہے محدثین نے اپنی اپنی فہم سے اس حدیث پر ابواب باندھے ہیںکئی محدثین نے تو باب السلام میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کئی نے دیگر ابواب میں اس کو ذکر کیا ہے بخاری ، مسلم ،ابو دائود،نسائی،ابن الملقن،ابن تیمیہ وغیرھا سے بہت پہلے 
۱)ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ ج دوم ص ۴۸۶ طبع کراچی میں اس حدیث کو باب ’’من کرد رفع الیدین فی الدعاء‘‘کے زیر عنوان رکھاہے۔
۲)اسی طرح ابی عوانہ نے مسند ابی عوانہ ۲/۸۵ طبع مکہ مکرمہ میں ’’بیان النھی عن الاختصار فی الصّلٰوۃ وایجاب الانتصاب والسکون فی الصّلٰوہ الالصاحب العذر‘‘کے عنوان کے تحت رکھا ہے:
۳)جبکہ امام بیہقی نے ’’جماع ابواب الخشوع فی الصلٰوۃ والاقبال علیھا‘‘ کے زیر عنوان یہ حدیث لائے ہیں:  
(سنن الکبریٰ بیہقی ۲/۲۸۰ طبع ملتان  )
۴)محمد بن اسحاق النیشاپوری نے ’’مسند السراج ص۲۴۳ ‘‘میں ’’باب فی السکون فی الصّلٰوۃ‘‘کے تحت لکھا ہے:
’’کیا محدثین جو حدیث جس باب میں رکھیں وہ اسی معنی کی ہو کر رہ جاتی ہے؟‘‘
اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کی دلیل شرعی کیا ہے ؟اور اگر نہیں تو پھر اس حدیث کے بارے میں رفع یدین کے قائلین محدثین کے ابواب کو اپنے معنی دیکر ہم پر ڈالنے کا مقصد؟
محدثین کی ابواب کے تحت چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
۱)امام مسلم علیہ الرحمہ کی ایک حدیث’’لا تصوم المراۃ الاباذن اھلھا‘‘کو جو روزہ کے مسئلہ سے متعلق ہے کو آپ نے’’ کتاب الزکوٰۃ ‘‘میں رکھا ہے۔
(صحیح مسلم ۱/۳۳۰ طبع کراچی)
نیز امام نسائی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو ’’کتاب السھو‘‘کے تحت لکھا ملاحظہ فرمایئے:(سنن نسائی ۱/۷۶طبع کراچی)بتایئے اس میں زکوٰۃ اور سہو کا کیا مسئلہ ہے؟
۲)امام بخاری علیہ الرحمہ نے’’صحیح بخاری ۱/۱۳۵‘‘میں ایک عنوان ان الفاظ سے قائم فرمایا ہے:’’باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتیں وکذالک النسا ومن کان فی البیوت والقری‘‘پھر اسکے تحت حدیث’’وعند جاریتان فی ایام منی تدففان و تضربان الخ:
بتایئے اس عنوان کا اس باب سے کیا تعلق؟
اسی طر ح جو حدیث باب کے تحت آئے تو کیا صرف وہ ہی معنی درست ہوں گے؟
۱)امام بخاری علیہ الرحمہ بخاری شریف ۱/۵۱۴ مترجم طبع لاہور ’’ کتاب التہجد میں حدیث عائشہ لے کر آئے ہیںجو غیر مقلدین تراویح کی دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں تو کیا غیر مقلدین حضرات اس حدیث کو تہجد کی حدیث مانتے ہیں؟
۲)امام ابو دائود نے اپنی کتاب شامل صحاح ستہ سنن ابی دائود کی ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘ میں ایک عنوان قائم کیا ہے’’باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع‘‘ یعنی اس شخص کا باب جس نے رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع یدین کا ذکر نہیں کیا۔
پھر اسکے تحت سند صحیح کے ساتھ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت لائے کہ
 ’’کان رسول اللّٰہ   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا دخل فی الصّلٰوۃ رفع یدیہ مدا‘‘
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ خوب اٹھا کر(رفع یدین کر کے)آغاز فرماتے :
(سنن ابو دائود ۱/۱۱۰ طبع کراچی)
۳)امام نسائی نے ’’سنن نسائی۱/۴۶۹ مترجم طبع لاہور‘‘ میں پہلے رفع یدین کرنے کی احادیث درج کیں پھر باب لگایا’’ترک ذالک‘‘یعنی اسکے ترک کا بیان۔پھر عبد اللہ بن مبارک کی سند سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع یدین کی حدیث لائے ہیںکیا غیر مقلدین یہاں محدثین کے فہم کو تسلیم کریں گے؟
قائلین رفع یدین محدثین سے استدلال کا جواب:
حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے متعلق قائلین رفع یدین کے اقوال حجت نہیں اس لیے کہ وہ اس معاملے میں مدعی ہیں اور مدعی کی گواہی شرعاً درست نہیںعلاوہ ازیںبعض احناف کے اقوال پیش کرنا بھی درست نہیں کیونکہ یہ حنفی نہیں جیسے ابو الحسن محمد بن عبد الہادی سندھی وغیرہ اور جو حنفی ہیں ان کے اقوال ان کے تفردات میں سے ہیں لہذا قبول نہیں کیونکہ خلاف مذہب توہمارے نزدیک امام ابن ہمام جیسے محقق اور مجتہد کی ابحاث بھی معتبر نہیں:
حدیث جابر کی تشریح:
یہ حدیث اپنے مفہوم میں نہایت درجہ واضح ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک جم غفیر مسجد میں حالت نماز میں رفع یدین کر رہا تھا جیسا کہ حدیث جابر کے مختلفطرق سے ثابت ہے تو حضور ﷺ نے تشریف لا کر سخت نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور انھیں آئندہ ایسا کرنے سے صاف منع فرما دیا جس کے بعد اتنی بات یقینی ہو گئی کہ اس حدیث میں مذکور جس رفع یدین سے حضور ﷺ نے روک دیا تھا وہ قطعاً ممنوع ہے اور اس حدیث کا علم ہو جانے کے بعد اس کے بر خلاف اس ممنوع رفع یدین کو جائز سمجھنا کسی مسلمان کیلیے ہر گز روا نہیں کیونکہ یہ ارشاد ربانی ’’وما نھا کم عنہ فانتھوا‘‘کے مطالبہ اور تقاضا کے منافی ہے۔لیکن چونکہ یہاںاختلاف کی گنجائش تھی لہذا مجتہدین نے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کیا جو کہ جائز ہے۔
ہمارے نزدیک اس حدیث میں مذکور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منع کردہ رفع یدین ہے جس کی وضاحت اسی حدیث میں موجود ہے۔چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ مبارک ہیں ’’کانھا أذناب خیل شمس‘‘آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کی اس رفع یدین کو ’’خیل شمس‘‘یعنی منہ زور ،سرکش اور شریرگھوڑوں کی دُموں کی حرکت سے تشبیہہ دی ۔اور آپ نے   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف یہ ہی نہیں فرمایا بلکہ’’ خیل‘‘ کے ساتھ’’ شمس ‘‘کی قید بھی لگائی یعنی اس رفع یدین کو عام گھوڑوں کی دُموں کی حرکت سے مشابہ قرار نہیں دیا بلکہ ایک خاص مزاج کے حامل مخصوص گھوڑوں کی دُموں سے تشبیہہ دے کر منع فرمایا۔جبکہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں کسی لفظ کی کمی بیشی سے متعلقہ مسئلہ کی نوعیت بدل جاتی ہے۔مثلاً کفارہ ظہار میں اللہ تعالیٰ نے ’’فتحریر رقبۃ ‘‘ارشاد فرمایا اور کفارہ قتل میں ’’فتحریر رقبۃ مؤمنۃ‘‘ ارشاد فرمایا۔لہذا پہلی صورت میں ’’رقبۃ ‘‘کافر کے آزاد کرنے سے بھی کفارہ ادا ہو جائے گا ۔مگر دوسری صورت
 میں نہیں کیونکہ اس میں ’’رقبۃ‘‘ کے ساتھ’’مؤمنۃ‘‘  کی قید ہے:
اسی طرح ماہ رمضان کے روزوں کی قضا کی ادائیگی کے بارے میں ارشاد فرمایا’’فعدۃ من ایام اخر‘‘یعنی چُھوٹے ہوئے روزے یکمشت بھی رکھے جا سکتے ہیں اور متفرق بھی۔لیکن کفارہ قتل اور کفارہ ظہار کی دوسری متبادل صورت بیان کرتے ہوئے ارشا د فرمایا!’’فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین‘‘یہاں متتابعین کی قید سے واضح ہوا کہ وہ روزے متفرق طور پر کالعدم شمار ہونگے نیز کفارہ ظہار میں ’’من قبل ان یتماسا‘‘کی بھی قید لگائی۔لہذا روزوں کے دوران تماس کے واقع ہو جانے سے بھی پہلے رکھے گئے روزے گنتی میں نہیں آئیں گے۔
ان مثالوں سے واضح ہوا کہ ’’شمس‘‘کی قید بھی ایک خاص مقصد کیلیے ہے جس کے ذریعے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اس رفع یدین سے منع فرمایا جو ’’خیل شمس‘‘کی دُموں کی حرکت سے مشابہ ہو۔ہر قسم کے رفع یدین سے نہیں۔پس وہ رفع یدین جو شمس گھوڑوں کی حرکت سے مشابہت رکھتی ہو وہ ممنوع قرار پائی۔
خیل شمس کا معانی:
خیل شمس کی دُموں کی حرکت کیا ہے۔اسکی نوعیت اور خاصیت کیا ہوتی ہے؟اسکی مکمل وضاحت کتب لغت اور شروح حدیث میں موجود ہے۔ المنجد مترجم ص نمبر ۵۴۱ مطبوعہ دھلی انڈیا میں ہے!
شمس ،شموسا و شماسا،الفرس ،گھوڑے کا سرکش ہونا،گھوڑے کا مچلنا کہ کسی کو سوار نہ ہونے دے، نہ زین کسنے دے ،نہ ایک جگہ قرار پکڑے اسی طرح شرح مسلم نووی میں حدیث جابر کے تحت لکھا ہے!’’وھی التی لا تستقر بل تضطرب و تتحرک باذنابھا وارجلھا‘‘یعنی خیل شمس ایسے گھوڑوں کو کہا جاتا ہے جو ایک جگہ جم کر کھڑے رہنے کی بجائے اچھل کود کریں اور ان کی حرکت کا اندازہ یہ ہو کہ وہ اپنی دُموں اور ٹانگوں کو معاً ہلائیںاسی طرح النھایۃ ۲/۵۰ میں ہے:
اس تفصیل کی رو سے یہ بات بے غبار ہو گئی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس حدیث میں مذکور جس رفع یدین سے منع فرمایا تھا وہ وہی تھی جس میں ان کے ہاتھوں کے ساتھ ان کے جسم کے دوسرے حصے بھی ہل رہے ہوں کیونکہ ’’أذناب خیل شمس‘‘کی حرکت کاانداز یہی ہوتا ہے ورنہ یہ تشبیہہ عبث قرار پائے گی۔جبکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ اور اسکے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام اس عیب سے قطعاً مبرا ہے اور اس مد میں نماز کی ہر اونچ نیچ والی تمام رفع یدین آتی ہیں۔مثلاً رکوع میں جاتے وقت یا اس سے سر اُٹھاتے وقت اسی طرح دو سجدوں کے ما بین یو نہی دو رکعتوں سے تیسری رکعت کی طرف کھڑے ہونے کے وقت وغیرہ جن پر اہل تشیع اور غیر مقلدین(اہل حدیث) عمل پیرا ہیں۔کیونکہ ان میں سے کسی میں ہاتھ پہلے ہلتے ہیں اور سر یا جسم کا دوسرا حصہ اسکے فوراً بعد ہلتا ہے یا سر اور جسم کا کوئی حصہ پہلے ہلتا ہے اسکے معاً بعد ہاتھ ہل جاتے ہیں اور یہی اذناب خیل شمس والی حرکات ہیں لہذا اسکے تحت منع ہے یعنی منسوخ ہے
تکبیر تحریمہ ،قنوت وتر اور عیدین والی رفع یدین منع نہیں ہیں:
یہ تمام ’’خیل شمس‘‘ کی دُموں کی حرکت سے مشابہ نہیں ہیں لہذا منع بھی نہیں ہیں۔اسلییٔ کہ ان میں صرف ہاتھ ہلتے ہیں جسم کا کوئی حصہ نہیں ہلتا یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر ان رفع یدین کے منسوخ ہونے کا کوئی بھی قائل نہیں:
جب ہم تکبیر تحریمہ کہتے وقت رفع یدین کرتے ہیں تو جسم بالکل ساکن ہوتا ہے اور اسکے بعد کوئی حرکت نہیں ہوتی جو ’’خیل شمس‘‘کے تحت آئے اسی طرح قنوت وتر کی تکبیر اور رفع یدین میں جسم بالکل ساکن اور صرف ہاتھ ہلتے ہیں۔عیدین کی نماز میں بھی صرف ہاتھ ہلتے
 ہیں جسم نہیں۔دوسری رکعت میں جب ہم چھ زائد تکبیریں کہہ چکتے ہیں اور رفع یدین بھی کر لیتے ہیں تو رکوع کی تکبیر تھوڑے وقفے سے کرتے ہیں۔پھر رکوع میں وقفے کے ساتھ جاتے ہیں تاکہ أذناب خیل شمس‘‘کی حرکت مشابہ نہ ہواور اس ممانعت کے زمرے میں نہ آئے اس وجہ سے ان میں سے کوئی رفع یدین منع نہیںلہذا غیر مقلدین کا یہ اعتراض بھی رفع ہو گیا کہ اگر رفع یدین منع ہے تو پھر تم وتر اور عیدین میں کیوں کرتے ہو؟اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث جابر ہمارے مخالف نہیں اور غیر مقلدین کا یہ اعتراض جہالت یا تلبیس ہے۔
تکبیر تحریمہ،قنوت وتر اور عیدین میں رفع یدین کا ثبوت:
مذکورہ بالا تحریر سے اتنا معلوم ہو گیا کہ ان مقامات پر رفع یدین منع نہیں لیکن منع کے ثابت نہ ہونے سے ان کا وجود تو ثابت نہ ہوا؟جواباً عرض ہے کہ ان مقامات پر دلائل قاہرہ سے رفع یدین ثابت ہے۔
تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین:
یہ دونوں فریقین کے درمیان متفق علیہ ہے۔حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح مروی ہے!
’’کان رسول اللّٰہ ﷺ اذا دخل فی الصّلٰوۃ رفع یدیہ مدا‘‘
یعنی رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ مبارک خوب اُٹھاتے تھے
(سنن ابو دائود ۱/۱۱۰ طبع کراچی)
اسی طرح ’’مسند احمد ۵/۳۴۳ طبع مکہ مکرمہ و بیروت،مجمع الزوائد ۲/۱۳۰ طبع بیروت، میں حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔علاوہ ازیں حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے ’’فتح الباری شرح بخاری ۲/۲۷۳ طبع مصر،،امام نووی نے ’’شرح مسلم ۱/۱۶۸،،نیز غیر مقلدین کے امام نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے ’’السراج الوھاج ۱/۱۸۴،الروضۃ الندیہ ۱/۸۷،، میں ہے’’رفع یدین عند التحریمہ ایسا امر ہے جو شریعت مطہرہ کے دلائل متواترہ سے ثابت ہے۔جس کے مشروع ہونے میں دور اول سے لیکر آج تک کے جملہ علماء اُمت متفق ہیں اور اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں‘‘یہ تمام کتابوں کا خلاصہ ہے
قنوت وتر کا رفع یدین اور اسکا ثبوت:
۱)امام ابن دقیق العید علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’الامام‘‘ میں تکبیر قنوت وتر میں رفع یدین کے متواتر اخبار سے ثبوت کا دعویٰ فرمایا ہے
(کتاب الامام ص۲۹۱ )
۲)امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ ج۴ ص۵۳۱ میں باب باندھا ہے:’’فی رفع الیدین فی قنوت الوتر‘‘پھر اس میں تین روایتیں لائے ہیں۔
ا)حدثنا أبو الأحوص،عن مغیرۃ،عن ابراہیم قال ارفع یدیک للقنوت:
ب)حدثنا معاویۃ بن ھشام قال حدثنا سفیان ،عن لیث عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ عن عبد اللّٰہ،أنہ کان یرفع یدیہ فی قنوت الوتر:
ج)حدثنا عبد الرحمن بن محمد المحاربی،عن لیث،عن ابن الاسود عن ابیہ،عن عبداللّٰہ،أنہ کان یرفع یدیہ اذا قنت فی الوتر‘‘ 
(مصنف ابن ابی شیبہ ۴/۵۳۱ برقم ۷۰۲۶،۷۰۲۷،۷۰۲۸۷ بتحقیق محمد عوامہ طبع بیروت)
۳)عن ابراہیم النخعی قال ترفع الایدی فی سبع مواطن فی افتتاح الصّلٰوۃ وفی التکبیر للقنوت فی الوتر وفی العیدین الحدیث رواہ الطحاوی واسنادہ صحیح
ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ رفع یدین سات موقعوں پر کیا جاتا ہے:
(۱)جب نماز شروع کی جاتی ہے۔
(۲)دوسرے وتر میں دعا قنوت کیلئے اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔
(۳)عیدین کی نماز میں۔
(۴)حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت۔
۵)سعی میں صفا و مروہ پر۔
(۶)مزدلفہ اور عرفات میں۔
(۷)منیٰ میں کنکریاں مارتے وقت۔
اس حدیث کی روایت امام طحاوی نے کی اور اس حدیث کی سند صحیح ہے
(زجاجۃ المصابیح جلد ۲ ص۴۳۴ طبع لاہور )
اسی طرح مختصر قیام اللیل ص۲۳۰ طبع رحیم یار خان میں بھی ہے۔امام احمد بن حنبل اور امام سفیان ثوری علیہ الرحمہ بھی اسی کے قائل تھے۔علاوہ ازیں اس سے قطع نظر ان مقامات پر رفع یدین کرنا ہمارے اماموںسے ثابت ہے۔جبکہ اسکی ممانعت کی بھی کوئی معیاری شرعی دلیل نہیں اگر کسی کا دعویٰ ہے وہ دلیل پیش کرے ان شاء اللہ اسکا جواب دیا جائے گا۔
امام ابو یوسف کی تالیف میں ہے!
’’امام ابراہیم نخعی تکبیر قنوت وتر اور تکبیرات عیدین میں رفع یدین کرنے کا فتوی دیتے تھے‘‘
(کتاب الآثار ص۲۱)
علامہ بدر الدین محمود عینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں!
’’وھو الحدیث المشہور ان النبی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لا ترفع الأیدی الا فی سبع مواطن،ثلاثہ فی الصلٰوۃ،وأربعۃ فی الحج وأما الثلاثہ فتکبیرۃ الافتتاح،وتکبیرات العیدین و تکبیرۃ القنوت‘‘ (البنایۃ ۲/۵۸۸ طبع بیروت  )
عیدین کی نماز میں رفع یدین کا ثبوت:
’’عن ابراھیم النخعی قال ترفع الایدی فی سبع مواطن فی افتتاح الصلٰوۃوفی التکبیر للقنوت فی الوتر وفی العیدین الحدیث رواہ الطحاوی واسنادہ صحیح‘‘ اسکے علاوہ شیخ الاسلام بدر الدین محمود عینی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں!
’’فان الکرخی قال فی مختصرہ قال ابو حنیفۃ و محمد یرفع یدیہ فی التکبیرات الزوائد فی العیدین‘‘یعنی مختصر کرخی میں ہے امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہم اللہ نے فرمایا عیدین کی نماز میں زائد تکبیرات کے ساتھ تمہاری رفع یدین ہے
(البنایۃ فی شرح الھدایۃ ۳/۱۳۵ طبع بیروت)
وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں