اتوار، 25 مارچ، 2018

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دُ ور سے دُرود و سلام سماعت فرمانا



     حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دُ ور سے دُرود و سلام سماعت فرمانا
       
                                                                              تحقیق و تحریر:ابو اسامہ ظفرالقادری بکھروی
نحمدہ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم۔امابعد!
اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ دور و نزدیک سے درود و سلام سماعت فرماتے ہیں۔حدیث شریف ملاحظہ فرمایئے:
۱) ’’قال الطبرانی حدثنا یحییٰ بن ایوب العلاف حدثنا سعید بن ابی مریم حدثنا یحیی بن ایوب عن خالد بن یزید عن سعید بن ابی ھلال عن ابی الدرداء قال :قال رسول اللّٰہ ﷺ اکثر وا الصّلوٰۃ علی یوم الجمعۃ فانہ یوم مشھود تشھدہ الملائکۃ لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہٗ ،حیث کان ۔قلنا و بعد وفاتک؟قال وبعد وفاتی۔ان اللّٰہ حرم علی الارض ان تأکل اجساد الانبیاء‘‘
ترجمہ: بسند مذکور:رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں !جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ یہ حاضری کا دن ہے ۔اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔تم میں کوئی شخص بھی مجھ پر درود شریف پڑھتا ہے اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔ہم نے عرض کی:آپ کے وصال کے بعد بھی؟فرمایا! ہاں وصال کے بعد بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے اجسام کھانا حرام فرما دیا ہے
(جلاء الافھام ص نمبر ۱۲۷مطبوعہ کویت)
۲)امام حافظ محمد عبد اللہ بن ناصر الدین دمشقی نے بھی امام طبرانی کے حوالہ سے یہی الفاظ نقل کیے ہیں:’’لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان‘‘
(صلاۃ الکیٔب بوفاہ الحبیب ص ۱۸۷)
۳)حضرت امام محمد بن یوسف الصالح الشامی نے امام طبرانی کے حوالہ سے یہی الفاظ نقل کیے ہیں: (سبل الھدیٰ والرشاد ۱۲/۳۵۸)
۴)علامہ موسیٰ محمد علی صاحب فرماتے ہیں!’’لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان‘‘
(حقیقۃ التوسل ص۵۴۰ طبع بیروت)
۵)امام حافظ محمد بن عبد الرحمن السخاوی نے بھی اس روایت کو نقل کیالکھتے ہیں!
’’وأخرجہ الطبرانی فی ’’الکبیر‘‘ بلفظ’’أکثروا الصلاۃ علی یوم الجمعۃ،فانہ یوم مشھود تشھد الملائکۃ،لیس من عبد یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان۔قلنا وبعد وفاتک؟ قال:وبعد وفاتی،ان اللہ تعالیٰ حرم علی الارض أن تاکل أجساد الانبیاء‘‘۔
(القول البدیع ۳۳۴ طبع دوم المدینۃ المنورہ السعودی العربیۃ)
۶)علامہ ابن حجر ھیتمی المکی نے بھی طبرانی کے حوالہ سے اس روایت کونقل کیا ہے:
(الجوھر المنظم ۲۱ طبع مصر)
۷)شارح بخاری امام شمس الدین محمد قسطلانی نے بھی انھی الفاظ کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا ہے:
  (مسالک الحنفاء ۲۶۲)
۸)امام یوسف بن اسماعیل نبھانی نے بھی اس روایت کو انھی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے
(حجۃ اللہ علی العالمین ص۷۱۳)
۹)مولانا محمد انوار اللہ قادری فاروقی حیدر آبادی خلیفہ مجاز الحاج امداد اللہ مہاجر مکی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے: (انوار احمدی ص۷۶)
۱۰)علامہ ابن حجر مکی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے: (الدر المنضود ص۱۱۷)
 سند کا تعارف:
۱۔الطبرانی ابو القاسم ،سلیمان بن احمد بن ایوب:
اس روایت کے پہلے راوی امام طبرانی ہیں۔جو تمام کے نزدیک ثقہ ہیں:
۲۔یحییٰ بن ایوب العلاف بن بادی الخولانی مولاھم ابو زکریا المصری:
امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں!’’قال النسائی صالح،لابأس بہ‘‘
(تھذیب التھذیب ۱۱/۱۸۵)
یحییٰ بن ایوب العلاف المصری کا ترجمہ درج ذیل کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے:
۱)سیر اعلام النبلاء ۱۳/۴۵۳ (۲)الکاشف ۲/۳۶۱ الترجمہ ۱۶۳۵
۳)تہذیب التہذیب ۴/۱۴۹ (۴)العبر ۲/۸۳
۵)المعجم المشتمل الترجمہ ۱۱۳۴ (۶)تاریخ الاسلام ۲۳۴
۷)نھایۃ السؤل۴۲۳ (۸)تقریب التھذیب الترجمہ ۷۵۵۹
۹)شذرات الذھب ۲/۲۰۲ (۱۰)تھذیب الکمال ۳۱/۲۳۰
۱۱)خلاصۃ تذھیب الکمال ۴۲۱ (۱۲)تذھیب تھذیب الکمال ۹/۴۱۸ الترجمہ۷۵۵۵
۳۔سعید بن ابی مریم ھو سعید بن الحکم بن محمد سالم الجمعی المصری:
امام ذہبی ’’تذکرۃ الحفاظ۱/۲۹۸‘‘ طبقہ ۷ میں لکھتے ہیںکہ!’’امام ابودائود فرماتے ہیں:یہ میرے نزدیک حجت ہیں۔عجلی کہتے ہیں ثقہ ہیں۔ابن یونس کہتے ہیں مشہور فقیہ تھے۔۱۴۴ھجری میں پیدا ہوئے اور ۲۲۴ھجری میں وفات پائی میں(امام ذہبی) کہتا ہوں ثقہ اور کثیر الحدیث تھے۔
ان کا شاندار ترجمہ دیکھنے کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمایئے:
۱)تاریخ الکبیر للبخاری ۳/الترجمہ ۵۴۷ (۲)تاریخ الصغیر للبخاری ۲/۳۵۵
۳)ثقات ابن حبان ۱/۱۵۶ (۴)ثقات العجلی ۱۸
۵)تہذیب الکمال ۱۰/۳۹۱ (۶)شذرات الذھب ۲/۵۳
۷)الکنی لمسلم ۹۸ (۸)المعرفۃ لیعقوب ۱/۲۰۷
۹)الجرح والتعدیل ۴/۱۳ ،الترجمہ۴۹ (۱۰)رجال بخاری للباجی ۱۵۵
۱۱)السابق واللاحق ۲۹۹ (۱۲)الجمع لابن القیسرانی ۱/۱۶۴
۱۳)المعجم المشتمل الترجمہ ۳۶۰ (۱۴)تاریخ اسلام ۱۹۸
۱۵)سیر أعلام النبلاء ۱۰/۳۲۷ (۱۶)الکاشف۱/۴۳۲ ،الترجمہ۱۸۶۸
۱۷)العبر ۱/۳۹۰ (۱۸)تذھیب التھذیب ۲/۱۶
۱۹)اکمال مغلطائی ۲/۸۱ (۲۰)نھایۃ السؤل ۱۱۵
۲۱)حسن المحاضرہ ۱/۳۷۶ (۲۲)خلاصۃ الخزرجی۱/الترجمہ ۲۴۳۳
۴)یحییٰ بن ایوب ابو العباس الغافقی المصری:
یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’ثقہ،،
(تاریخ ابن معین روایۃ الدارمی۱؍۱۹۶رقم۷۱۹،وابن محرزص۳۲،وابن طہمان رقم۱۲۱)
اس کے علاوہ یحییٰ بن ایوب کی توثیق درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں:
۱)تقریب التہذیب۲؍۲۹۷رقم ۷۵۳۸ (۲)تہذیب التہذیب۱۱؍۱۸۶
۳)میزان الاعتدال۴؍۳۶۲رقم۹۴۶۲ (۴)العبر۱؍۱۸۶ طبع بیروت
۵)الکاشف۲؍۳۶۲رقم۶۱۳۷ (۶)تذکرۃ الحفاظ۱؍۱۶۷رقم۲۱۲
۷)سیر اعلام النبلاء۸؍۵رقم۱ (۸)رجال صحیح مسلم لابن منجویہ صفحہ۱۹۳
۹)الثقات لابن حبان۷؍۶۰۰رقم۱۱۶۵۶ (۱۰)الثقات للعجلی۲؍۳۴۷رقم۱۹۶۲
۱۱)ثقات ابن شاہین الترجمہ۱۵۹۴ (۱۲)طبقات الخلیفۃ۱؍۵۴۳رقم۲۷۹۵
۱۳)تاریخ الکبیر للبخاری۸؍۲۶۰رقم۲۹۱۹ (۱۴)الکنی والاسماء للمسلم۱؍۲۴۹۱۶۱۰
۱۵)التعدیل والتجریح للباجی۳؍۱۲۰۳رقم۱۴۴۸ (۱۶)تہذیب الکمال۳۱؍۲۳۳رقم۶۷۹۲
۱۷)اقوال الامام احمد بن حنبل فی رجال الحدیث۴؍۱۰۸رقم۳۴۶۶
۵)خالد بن یزید الجمعی أبو عبد الرحیم البربری ثم المصری:
امام ابن حجر عسقلانی لکھتے’’تھذیب التھذیب ۳/۱۲۹ میں لکھتے ہیں!’’قال ابو زرعہ والنسائی ثقہ وقال أبو ھاتم لاباس بہ۔۔۔۔ذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال العجلی ثقۃ وقال یعقوب بن سفیان مصری ثقۃ‘‘۔
خالد بن یزید کا شاندار ترجمہ دیکھنے کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمایئے:
۱)تاریخ یحییٰ بروایۃ الدوری ۲/۱۴۶    (۲)ابن طھمان رقم ۳۷۱
(۳)ابن جنید ۲۵ (۴)تاریخ الکبیر للبخاری ۳/۱۸۰ ،الترجمہ ۶۱۲
(۵)المعرفۃ لیعقوب ۱/۱۲۰ (۶)أبو زرعۃ الرازی ۳۶۱
۷)الجرح والتعدیل ۳/۳۵۸،الترجمہ ۱۶۱۹(۸)ثقات ابن حبان ۱۱۵
۹)اسماء دار قطنی الترجمہ ۳۷۲ (۱۰)سنن دارقطنی ۱/۳۰۵
۱۱)رجال بخاری للباجی ۵۴ (۱۲)الجمع لابن القیسرانی ۱/۱۲۱
۱۳)سیر أعلام النبلاء ۹/۴۱۴ (۱۴)تذھیب التھذیب ۱/۱۹۵
۱۵)الکاشف۱/۳۷۰ ،الترجمہ ۱۳۶۷ (۱۶)اکمال مغلطائی ۱/۳۲۴
۱۷)نھایۃ السؤل ۸۵     (۱۸)خلاصۃ الخزرجی ۱/الترجمہ ۱۸۱۶
۱۹)شذرات الذھب ۱/۲۰۷ (۲۰)تھذیب الکمال ۸/۲۰۸
۲۱)تذھیب تھذیب الکمال ۳/۱۱۳ ،الترجمہ ۱۶۸۵
۶)سعید بن ابی ھلال اللّیتی أبو العلاء المصری:
تہذیب الکمال ۱۱/۹۶ میں لکھتے ہیں!’’قال أبو حاتم لا بأس بہ ۔ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات و ثقہ ابن سعد،والعجلی وابن خزیمہ والدارقطنی والبیہقی والخطیب وابن عبد البر وغیر ھم وقال الساجی صدوق‘‘
ترجمہ:ابو حاتم نے فرمایا ’’لابأس بہ ‘‘ابن حبان نے کتاب الثقات میں اس کا ذکر کیا اور ابن سعد،العجلی،ابن خزیمہ،دار قطنی،بیہقی،خطیب بغدادی اور ابن عبد البر وغیرہ نے ثقہ فرمایا۔امام ساجی نے کہا سچا ہے
سعید بن ابی ھلال کا مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں دیکھئے:
۱)طبقات ابن سعد ۷/۵۱۴ (۲)تاریخ الکبیر للبخاری ۳/الترجمہ ۱۷۳۶
۳)ثقات العجلی صفحہ ۱۹     (۴)ابو زرعہ الرازی ۳۶۱
۵)میزان الاعتدال ۲/۱۶۲ ،الترجمہ۳۲۹۰ (۶)تذھیب التہذیب ۲/۳۰
۷)الکاشف ۱/۴۴۵،الترجمہ ۱۹۷۰ (۸)سیر أعلام النبلاء ۶/۳۰۳
۹)تاریخ الاسلام ۵/۲۵۶ (۱۰)الجمع لابن القیسرانی ۱/۱۷۲
۱۱)السابق واللاحق ۳۱۵ (۱۲)رجال للبخاری للباجی ۱۵۹
۱۳)رجال صحیح مسلم لابن منجویہ ۶۰ (۱۴)سنن دار قطنی ۱/۳۰۵
۱۵)وفیات ابن زبر ص۴۲ (۱۶)ثقات ابن حیان ۱/۱۶۳
۱۷)المراسیل ص ۷۵ (۱۸)الجرح والتعدیل ۴/۷۱،الترجمہ ۳۰۱
۱۹)تاریخ أبی زرعہ الدمشقی ۴۴۵ (۲۰)المعرفۃ للیعقوب ۱/۱۲۱
۲۱)الاکمال مغلطائی ۲/۹۸ (۲۲)مراسیل العلائی ۲۴۵
۲۳)نھایۃ السول ۱۲۰ (۲۴)تھذیب التھذیب ابن حجر ۴/۹۴
۲۵)خلاصۃ الخزرجی ۱/الترجمہ ۲۵۵۳ (۲۶)شذرات الذھب ۱/۱۹۱
۷)حضرت ابی الدرداء رضی اللّٰہ عنہ:
تمام صحابہ بالاتفاق ثقہ ہیںلہذا یہ حدیث صحیح ہے ۔اور کم از کم حسن درجہ کی ہے۔جس میں یہ صراحت موجود ہے کہ نبی ﷺ ہمارا درود و سلام خود سماعت فرماتے ہیں بعد از وصال بھی۔
حضور ﷺ کا درود و سلام سماعت فرمانا اور جواب عطا فرمانا:
’’حدثنا محمد بن عوف نا المقری نا حیوۃ عن ابی صخر حمید بن زیاد عن یزید بن عبد اللّٰہ بن قسیط عن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال ما من احد یسلم علی الا رد اللّٰہ علی روحی حتی ارد علیہ السلام‘‘۔
ترجمہ:سند مذکور۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا! کوئی ایسا نہیں جو مجھے سلام کرے مگر اللہ تعالیٰ میری روح کو واپس لوٹا دیتا ہے۔تاکہ میں اس کے سلام کاجواب دوں۔
۱)سنن ابو داؤد ۱/۲۸۶ (۲)مسند احمد بن حنبل ۲/۵۲۷
۳)شعب الایمان ۲/۲۱۷ (۴)مسند اسحاق بن راھویہ ۱/۴۵۳
۵)سنن الکبریٰ بیہقی ۵/۲۴۵ (۶)سنن الصغیر ۲/۲۱۰
۷)المعجم الاوسط للطبرانی ۳/۳۸۷(۸)تاریخ اصبھان لابی نعیم ۲/۳۵۳
۹)الرسائل القشیریہ لابی قاسم ص۱۶(۱۰)الترغیب والترھیب ۲/۴۹۹
۱۱)فضائل الاعمال للضیاء المقدسی ۷۹۰ (۱۲)القول البدیع ۳۲۸
اس حدیث کا صحیح و حسن ہونا:
۱…امام سخاوی فرماتے ہیں!’’باسناد حسن،بل صححہ النووی‘‘
(القول البدیع ۳۲۸)
۲…امام نووی فرماتے ہیں!’’رواہ ابوداؤد بسند صحیح‘‘
اسکو ابو دائود نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
(المجموع شرح المھذب للنووی ۸/۲۷۲)
مزید فرماتے ہیں!
’’وروینا فیہ ایضاً باسناد صحیح عن ابی ھریرۃ‘‘حضرت ابو ھریرہ سے اس بارے میں صحیح سند سے روایت کی گئی ہے۔ (الاذکار ۱۰۶)
۳…امام زرقانی فرماتے ہیں!’’وقد روٰی ابوداؤد باسناد صحیح‘‘
 اسے ابو دائود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے (زرقانی علی المواھب ۱۲/۲۰۲)
۴…حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں!’’رواہ ابوداؤد و احمد و بیہقی وسندہ حسن‘‘
اسکی سند حسن ہے اور اس کو ابو دائود ،امام احمد بن حنبل اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے
(شرح شفاء علی قاری ۲/۱۴۲)
۵…حافظ ابن حجر مکی فرماتے ہیں!’’وسند ھا حسن‘‘۔اسکی سند حسن ہے۔
ْْْْ(الدر المنضود ص۱۲۱)
۶…ابن قیم فرماتے ہیں!’’وقد صح اسناد ھذا الحدیث‘‘
اور اس حدیث کی سند صحیح ہے (جلاء الافھام ۳۳)
۷…علامہ تقی الدین سبکی فرماتے ہیں!’’وھذا اسناد صحیح‘‘
اور یہ سند صحیح ہے (شفاء السقام ص۴۱)
۸…حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں!’’رواتہ ثقات‘‘اسکے راوی ثقہ ہیں
(فتح الباری پارہ۳/۲۷۹ جلد ۳ ص ۲۷۹)
۹…اسی طرح علامہ شوکانی نے ’’تحفۃ الذاکرین ۲۸‘‘ میں
۱۰…امام جلال الدین سیوطی نے ’’مناھل الصفاء ص۲۰۵‘‘ میں
۱۱…امام قاسم بن قطلوبغا نے’’التعریف والاخبار ص۱۰۵ ‘‘(قلمی نسخہ) میں
۱۲…علامہ مجدد الدین فیروز آبادی نے’’الصلات والبشر ۱۰۴‘‘ میں
۱۳…امام محمد بن یوسف الشامی نے’’سبل الھدیٰ ۱۲/۲۵۶‘‘میں
۱۴…علامہ سمھودی نے’’وفا ء الوفا ۲/۴۰۳ ‘‘میں
۱۵…علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے’’السراج المنیر۳/۲۷۹‘‘میں
۱۶…مفتی عبد العزیز بن باز نجدی نے’’مجموع فتاویٰ و مقالات ۲/۳۹۴‘‘ میں
۱۷…مولوی اسماعیل سلفی (غیر مقلد)نے’’تحریک آزادی فکر ص۴۱۳‘‘میں  اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
سند کا تعارف:
۱۔محمد بن عوف بن سفیان الطائی ابو جعفر الجمعی:
امام ابو حاتم ان کو صدوق اور نسائی ثقہ کہتے ہیںامام ابن حبان انکو ثقات میں لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ صاحب حدیث اور اہل حفظ تھے امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ وہ اہل شام کی صحیح اور ضعیف سب حدیثوں کے عالم تھے۔محدث مسلمہ فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ تھے امام خلال فرماتے ہیں کہ وہ اپنے زمانہ میں امام حافظ اور علم و معرفت میں مشہور تھے:
(تھذیب التھذیب ۹/۳۸۳،۳۸۴)
محمد بن عوف کا شاندار ترجمہ دیکھنے کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمایئے:
۱)الجرح والتعدیل ۸/۵۲ ،الترجمہ ۲۴۱ (۲)ثقات ابن حبان ۹/۱۴۳
۳)السابق واللاحق ۳۴۵ (۴)سیر أعلام النبلاء ۶۱۳۸۲
۵)الکاشف ۲/۲۰۸ ،الترجمہ ۵۰۹۸ (۶)العبر ۲/۵۰
۷)تاریخ الاسلام ذہبی ۱۳۵ (۸)تقریب التھذیب ۲/۱۹۷
۹)المعجم المشتمل الترجمہ ۹۳۰ (۱۰)شذرات الذھب ۲/۱۶۳
۱۱)تسمیۃ شیوخ ابی دائود للجیانی ص۹۲ (۱۲)تھذیب الکمال ۲۶/۲۳۶
۲۔عبد اللہ بن یزید القرشی العدوی ابو عبد الرحمن المقری ٔ:
امام ابو حاتم ان کو صدوق اور امام نسائی اور خلیلی ان کو ثقہ کہتے ہیںعلامہ ابن سعد ان کو ثقہ اور کثیر الحدیث کہتے ہیںامام ابن حبان ان کو ثقات میں لکھتے ہیں اور محدث ابن قانع ان کو ثقہ کہتے ہیں (تھذیب التھذیب ۶/۸۴)
مزید تفصیلات دیکھنے کے لیے المقری ٔ کا ترجمہ درج ذیل کتابوں میں دیکھئے:
۱)طبقات ابن سعد ۵/۵۱۰ (۲)تاریخ الدوری ۲/۳۳۸
۳)طبقاتہ ۲۲۷ (۴)تاریخ الکبیر بخاری ۵/۲۲۸،الترجمہ ۷۴۵
۵)تاریخ الصغیر بخاری ۲/۳۲۶(۶)الجرح والتعدیل ۵/۲۰۱،الترجمہ ۹۳۹
۷)ثقات ابن حبان ۸/۳۴۲ (۸)الکندی ۳۰۲
۹)تھذیب الکمال ۱۶/۳۲۰ (۱۰)رجال صحیح مسلم لابن منجویہ ۹۹
۱۱)السابق واللاحق ۴۹(۱۲)المعجم المشتمل ،الترجمہ ۵۱۴
۱۳)الجمع لابن القیسرانی ۱/۲۸۱ (۱۴)معجم البلدان ۱/۶۲۴
۱۵)سیر أعلام النبلاء ۱۰/۱۶۶ (۱۶)الکاشف ۱/۶۰۹
۱۷)تذکرۃ الحفاظ ۱/۲۸۱ (۱۸)تذھیب التھذیب ۲/۱۹۵
۱۹)العقد الثمین ۵/۲۹۸ (۲۰)نھایۃ السول ۱۹۳
۲۱)تقریب التھذیب ۱/۴۶۲ خلاصۃ الخزرجی ۲/الترجمہ ۳۹۲۱
۳۔حیوۃ بن شریح بن یزید الحضرمی أبو العباس:
حیوۃ بن شریح بڑے صاحب کرامات بزرگ اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں۔امام ابن معین اور یعقوب بن شبیتہ ان کو ثقہ اور کثیر الحدیث کہتے ہیں۔محدث ابن حبانان کو ثقات میں لکھتے ہیں (تھذیب التھذیب ۳/۷۱)
حیوۃ بن شریح کا شاندار ترجمہ درج ٰذیل کتابوں میں ملاحظہ فرمائیے:
۱)تذکرۃ الحفاظ ۱/۱۷۴ (۲)تاریخ الکبیر بخاری ۳/۱۲۱،الترجمہ۴۰۵
۳)سوالات ابن الجنید لابن معین ۱۶ (۴)المعرفۃ والتاریخ ۱/۱۲۰
۵)الجرح والتعدیل ۳/۳۰۷،الترجمہ ۱۳۶۷(۶)ثقات ابن حبان ۱۰۸
۷)أسماء دار قطنی ،الترجمہ ۲۵۷ (۸)رجال بخاری للباجی ۵۰
۹)شیوخ أبی داؤد للجیانی ۸۰ (۱۰)الجمع لابن القیسرانی ۱/۱۱
۱۱)المعجم المشتمل الترجمہ ۳۰۹ (۱۲)المعلم لابن خلفون ۷۳
۱۳)تاریخ الاسلام ذہبی ۱۹۵ (۱۴)سیر أعلام النبلاء ۱۰/۶۶۸
۱۵)العبر ۱/۳۹۰ (۱۶)تذھیب التھذیب ۱/۱۸۴
۱۷)الکاشف ۱/۲۶۳ (۱۸)اکمال مغلطائی ۱/۳۰۶
۱۹)نھایۃ السول ۸۰ (۲۰)تھذیب الکمال ۷/۴۸۲
۲۱)شذرات الذھب ۲/۵۳(۲۲)خلاصۃ الخزرجی ۱/الترجمہ ۱۶۹۷
۴۔حمید بن زیاد وھو ابن أبی المخارق المدنی أبو صخر الخراط:
امام بغوی ان کو صالح الحدیث اور امام دار قطنی ثقہ کہتے ہیںمحدث ابن حبان ان کو ثقات میں لکھتے ہیںامام ابن معین اور امام احمد بن حنبل ان کے متعلق ’’لا بأس بہ‘‘ کہتے ہیں
محدث ابن عدی ان کو صالح الحدیث کہتے ہیں (تھذیب التھذیب ۳/۴۱،۴۲)
ابو صخر حمید بن زیاد کا مزید ترجمہ درج ذیل کتب میں دیکھا جا سکتا ہے:
۱)طبقات ابن سعد ۹/۲۴۲ (۲)تاریخ یحییٰ بن معین الدوری ۲/۱۳۶
۳)تاریخ دارمی رقم ۲۶۰ (۴)سوالات ابن الجنید ۵۴
۵)طبقات خلیفۃ ۲۹۵ (۶)تاریخ الکبیر للبخاری ۲/۳۵۰،الترجمہ ۲۷۱۲
۷)الکنی لمسلم ۵۵ (۸)ثقات العجلی ۱۲
۹)الجرح والتعدیل ۳/۲۲۲،الترجمہ،۹۷۵
(۱۰)الکنی للدولابی ۲/۱۱ (۱۱)ثقات ابن حبان ۱۰۵
۱۲)الجمع لابن القیسرانی ۱/۹۱ (۱۳)أنساب للسمعانی ۵/۶۹
۱۴)تاریخ الاسلام ۶/۵۸ (۱۵)میزان الاعتدال ۱/۶۱۲،الترجمہ۲۳۲۸
۱۶)تذھیب التھذیب ۱/۱۷۹ (۱۷)الکاشف ۱/۲۵۶
۱۸)تھذیب الکمال ۷/۳۶۶،الترجمہ ۱۵۲۶
۱۹)اکمال مغلطائی ۱/۲۹۶،۲۹۷ (۲۰)نھایۃ السول ۷۸
۲۱)خلاصۃ الخزرجی ۱/۱۶۴۶
۵۔یزید بن عبد اللہ بن قسیط بن أسامۃ بن عمیر اللیثی ابو عبد اللہ المدنی:
امام ابن معین ان کو’’ لیس بہ بأس‘‘ اور امام نسائی ثقہ کہتے ہیںامام ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیںامام ابن عدی ان کو مشہور اور صالح الروایات کہتے ہیںمحدث ابراہیم بن سعد فرماتے ہیں کہ وہ فقیہہ اور ثقہ تھے۔علامہ ابن سعد ان کو ثقہ اور کثیر الحدیث کہتے ہیںامام ابن معین ان کو صالح کہتے ہیںامام ابن عبد البر ان کو ثقہ من الثقات کہتے ہیں
(تھذیب التھذیب ۱۱/۳۴۲،۳۴۳)
یزید بن عبد اللہ کا ترجمہ اور توثیق درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں:
۱)تاریخ الدارمی الترجمہ ۸۸۹    (۲)تاریخ ابن طھمان الترجمہ ۳۴۶
۳)طبقات ابن سعد ۹/۲۰۴               (۴)تھذیب الکمال ۳۲/۱۷۷،الترجمہ ۷۰۱۵
۵)تاریخ خلیفۃ ۳۵۴         (۶)علل أحمد ۱/۳۰۲(۷)تاریخ الکبیر للبخاری ۸/۳۴۴،الترجمہ ۳۲۵۷
۸)المعرفۃ للیعقوب ۱/۴۴۸ (۹)ثقات ابن حبان ۵/۵۴۳
۱۰)الکامل لابن عدی ۳/۲۴۵ (۱۱)الجرح والتعدیل ۹/۲۷۳،الترجمہ ۱۱۵۲
۱۲)ثقات ابن شاہین ۱۵۵۷             (۱۳)رجال صحیح مسلم لابن منجویہ ۲۰۰
۱۴)التعدیل والتجریح للباجی ۳/۱۲۳۱(۱۵)السابق واللاحق ۵۴
۱۶)الکامل فی التاریخ ۵/۲۴۹       (۱۷)الجمع القیسرانی ۲/۵۷۵
۱۸)سیر أعلام النبلاء۵/۲۶۶      (۱۹)تاریخ الاسلام ۵/۱۸۷
۲۰)الکاشف ۲/۳۸۶،الترجمہ۳۶۲۹
(۲۱)میزان الاعتدال ۴/۴۳۰،الترجمہ۹۷۱۹
۲۲)معرفۃ التابعین ۴۷   (۲۳)تذھیب التھذیب ۴/۱۷۸
۲۴)نھایۃ السول ۴۶۸  (۲۵)تقریب التھذیب ۲/۳۲۶،الترجمہ۷۷۶۵
۲۶)شذرات الذھب ۱/۱۶۰
۶۔حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ﷺ:
بالاتفاق تمام صحابہ ثقہ اور سچے ہیںمعلوم ہوا یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں چاہے کوئی کہیں سے بھی سلام عرض کرے:
اس صحیح روایت کے تحت تمام شارحین نے تصریح و اعلان کیا ہے کہ کہیں سے بھی کوئی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں سلام عرض کرے آپ ﷺ اسے خود سماعت فرماتے ہیں۔اور سلام کا جواب بھی عنایت فرماتے ہیں۔اور اگر کسی نے اسے مزار عالی کے قرب کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوشش کی تو اس کا واضح ردّ کیا اور لکھا اسے عموم پر ہی رکھنا لازم ہے اس کے مخصوص ہونے پر کوئی دلیل نہیں
۱۔امام زرقانی اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیتے ہوئے اس کے عموم کو ان کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں!’’وقد روٰی ابوداؤد باسناد صحیح من حدیث ابی ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ قال (ما من مسلم یسلم علی) فی ای محل کان‘‘
(زرقانی علی المواھب ۱۲/۲۰۲)
ترجمہ:امام ابو دائود نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرمان نبوی روایت کیا ہے(جو بھی مجھ پر سلام کہے)یعنی خواہ وہ کسی بھی مقام پر ہو
۲۔حضرت مُلا علی قاری حنفی فرماتے ہیں!’’حدیث کے ظاہر میں اطلاق ہے جو تمام اوقات اور مقامات کو شامل ہے‘‘ (شرح الشفاء ۲/۱۴۲)
۳۔علامہ ابن عبد الھادی نے بھی عموم ہی لکھا ہے (الصارم المنکی ۱۹۷)
۴۔علامہ عبد الحی لکھنوی نے اس سے مراد عموم ہی لیا ہے (السعی المشکور ۴۵۱)
۵۔امام احمد خفاجی نے بھی مراد عموم ہی لیا ہے (نسیم الریاض ۵/۷۹)
۶۔امام ابن عساکر کا استدلال بھی یہی ہے (نسیم الریاض ۵/۸۰)
۷۔امام جلال الدین سیوطی بھی یہی فرماتے ہیں (القول البدیع ۳۱۶)
عند قبری حدیث کا حصہ نہیں:
دیوبندی مکتبہ فکر کے ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی کتاب ’’مقام حیات ‘‘اور مولانا سرفراز صفدر نے اپنی کتاب’’تسکین الصدور‘‘ میں یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کا حصہ ’’  عند قبری‘‘ بھی ہے۔حالانکہ محدثین کرام نے ان الفاظ کو حدیث کا حصہ نہیں مانا ہے محدثین کی تصریحات ملاحظہ فرمایئے:
۱۔امام سخاوی فرماتے ہیں!’’شیخ موفق ابن قدامہ نے ’’مغنی‘‘میں اس حدیث کا ذکر کیا اور ان الفاظ کا اضافہ کیا(میری قبر کے پاس)لیکن مجھے یہ الفاظ کسی حدیث میں نہیں ملے اور علم حقیقی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے (انبا ء الاذکیا )
۲۔شیخ ابن عبد الھادی نے بھی اسکی تردید کی ہے (الصارم المنکی ۱۱۵)
۳۔حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کا انکار کیا ہے (مسالک الحنفاء ۲۰۵)
۴۔حافظ ابن حجر مکی نے بھی اسکی تردید کی ہے (الدر المنضود ص۱۵۲)

حدیث کا معنی:
۱۔امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ اس حدیث کا معنی بیان فرماتے ہیں!’’انہ یستغرق فی امور الملاء الاعلی فاذا سلم علیہ رجع فھمہ یسجیب من سلم علیہ‘‘
(فتح الباری ۶/۳۷۹)
ترجمہ:آپ ﷺ امور ملا ء اعلی میں مصروف ہوتے ہیں ۔جب کوئی سلام کہتا ہے تو آپ ﷺ کا فہم و توجہ لوٹ آتی ہے تاکہ سلام کہنے والے کا جواب دیں
امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں!
’’ان تکون الروح کنایۃ عن السمع ویکون المراد ان اللّٰہ یرود علیہ سمعہ الخارق للعادۃ حیث یسمع المسلم وان بعد قطرہ و یرد علیہ من غیر احتیاج الی واسطۃ مبلغ ولیس الرد سمعہ المعتاد‘‘۔ (انباء الاذکیاء ص ۱۳)
ترجمہ:روح لوٹا نے سے سلام کا سننا مراد ہے۔تو یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بطور معجزہ آپ ﷺ کا سننا لوٹا دیتا ہے کہ آپ ﷺ کہنے والوں کا سلام سنتے ہیں۔خواہ وہ کہیں بھی ہوتو آپ بلا واسطہ اس کا جواب دیتے ہیںیہاں لوٹانے سے مراد عادی اور معمول کے مطابق لوٹا نا نہیں
۳۔اسی طرح شیخ ابن عبد الھادی نے بھی یہ ہی معنی مراد لیا ہے (الصارم المنکی ۲۲۶ )
۴۔یہ ہی معنی شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے بھی لیے ہیں (اشعۃ اللمعات ۱/۴۰۷)
۵۔یہی معنی ابن حجر مکی علیہ الرحمہ نے بھی لیے ہیں (الفتاویٰ الکبری ۲/۱۱۳)
۶۔امام زین العابدین ابو بکر المراغی نے ’’تحقیق النضرہ ۱۱۶‘‘ میں
۷۔مُلا علی قاری حنفی نے ’’شرح الشفاء ۲/۱۴۲‘‘میں
۸۔امام سخاوی نے’’القول البدیع ۳۹۹‘‘میں
۹۔مولانا انور شاہ کشمیری نے’’فیض الباری ۲/۶۵‘‘میں
۱۰۔مولانا شبیر احمد عثمانی نے’’فتح الملھم ۲/۳۸۹‘‘میں
۱۱۔مولاناخلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے’’بذل المجھود ۳/۲۰۷ ‘‘میں اس حدیث کے یہی معنی لکھے ہیں
اس موضوع پر ہمارے سامنے دلائل کے انبار ہیں مگر طوالت کے خوف سے مختصراً عرض کرتا ہوں
روضہ اقدس پر تمام لوگوں کا درود وسلام سننے والا فرشتہ:
امام طبرانی نقل کرتے ہیں کہ ابن حمیری کا بیان ہے مجھے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بلا کر فرمایا !کیا میں تمہیں اپنے حبیب ﷺ کا فرمان سنائوں؟ میں نے عرض کیا ضرور سنائیں تو بتایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! عمار!! ان اللّٰہ اعطیٰ ملکاً من الملائکۃ السماع الخلائق کلھا فھو قائم عند قبری الی ان تقوم الساعۃ فلیس احدا یصلی علی صلاۃ و فی روایۃ البزار فلا یصلی علی احد الی یوم القیامۃ الا ابلغنی باسمہ واسم ابیہ ۔ھذا فلاں بن فلاں قد صلی علیک۔
ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جسے خدا نے تمام مخلوق کی بات سن لینے کی طاقت عطا فرمائی ہے۔قیامت تک وہ میری قبر منورہ پر کھڑا ہے جو کوئی بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے یہ فرشتہ مجھ کو وہ درود پہنچا دیتا ہے ۔اور بزار کی روایت میں ہے کہ جو کوئی مجھ پر قیامت تک کے لیے درودپڑھتا ہے تو وہ فرشتہ اس آدمی کے نام اور اس کے باپ کے نام کے ساتھ (یہ عرض کرتے ہوئے)کہ فلاں بن فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے مجھے پہنچا دیتا ہے
تخریج حدیث:
۱)مسند البزار ۴/۴۷ (۲)التاریخ الکبیر للبخاری ۶/۴۱۶
۳)الکامل ابن عدی ۶/۱۷۰(۴)کتاب المعجم ابن الاعرابی ۱/۲۶۰
۵)الترغیب والترھیب۲/۳۱۹(۶)طبقات الشافعیہ السبکی ۱/۱۶۹
۷)المعجم الکبیر طبرانی بحوالہ القول البدیع ص۲۵۱
۸)تاریخ دمشق بحوالہ القول البدیع ۲۵۱
۹)مسند امام حارث(بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث ۲/۹۶۳ برقم ۱۰۶۳
۱۰)کتاب الصلوٰۃ ابن ابی عاصم صفحہ ۴۳ برقم ۵۱
۱۱)الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم ۶/۲۹۶ برقم ۱۶۴۴
۱۲)الضعفاء الکبیر للعقیلی ۳/۲۴۹
۱۳)القند فی ذکر علماء سمر قند النسفی ۵۵۰
۱۴)القول البدیع السخاوی ص ۲۵۱
۱۵)مجمع الزوائد حدیث ۱۷۲۹۲
یہ روایت حسن ہے:
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہر مسلک کے اہل علم کے ہاں معتبر ہے۔طوالت سے بچنے کے لیے ہم یہاں دیوبندی، نجدی ،غیر مقلدین کے صرف ایک ایک عالم کا حوالہ پیش کرتے ہیں:
۱۔سعودی کمیٹی کی تیار کردہ کتاب’’نضرۃ النعیم‘‘ میں اس حدیث کو درج کر کے اس کے حاشیہ میں لکھا ہے!’’رواہ الطبرانی والبزار وحسنہ الالبانی،انظر سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ برقم (۱۵۳۰)وایضاً  صحیح الجامع الصغیر برقم(۲۱۷۲)
ترجمہ:اسے امام طبرانی اور بزار نے روایت کیا اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے
دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (۱۵۳۰ )اور صحیح جامع الصغیر(۲۱۷۲)
(نضرۃ النعیم فی مکارم الاخلاق الرسول الکریم /۵۶۸)
۲۔مفتی کفایت اللہ دیوبندی دہلوی نے اس کو معتبر قرار دیا ہے (کفایت المفتی ۱/۱۶۸)
۳۔نواب صدیق حسن بھوپالی نے لکھا یہ حدیث حسن ہے (نزل الابرار ۱۸۶)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ ایک فرشتہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کی آوازیں سننے کی طاقت عطا فرمائی ہے۔جب ایک فرشتہ مدینہ شریف میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر کھڑا ہو کر ساری کائنات کی آوازیں سن سکتا ہے تو پھر باعث تخلیق کائنات تمام مخلوق کے سردار ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی سماعت کے بارے میں شک کرنا اور اس کو شرک کہنا کہاں کی مسلمانی ہے۔جبکہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں!
’’ان اللّٰہ قد رفع لی الدنیا فأنا انظر الیھا والی ماھو کائن فیھا الی یوم القیامۃ کانما انظر الی کفی ھذا‘‘
ترجمہ:بے شک اللہ عزوجل نے ساری دنیا میرے سامنے کر دی ہے تو میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھتا ہوں
۱)المعجم الکبیر لطبرانی کذا فی کنز العمال ۱۱/۴۲۰
(۲)کتاب الفتن النعیم بن حماد  ۱/۱
۳)حلیۃ الاولیاء ابی نعیم ۶/۱۰۱
۴)الترغیب والترھیب ۲/۲۱۱
دوسرے مقام پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد ہے!
’’انی ارٰی مالا ترون واسمع مالا تسمعون وفی روایۃ وانی اسمع لا طیط السمآء‘‘ترجمہ:میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے اور ایک روایت میں ہے!’’میں اس وقت آسمان کی چرچراہٹ سن رہا ہوں‘‘
(جامع ترمذی ۲/۵۷،مسند احمد ۵/۳۱۷۳،ابن ماجہ ۳۰۹،المستدرک حاکم ۲/۵۱۰،کنز العمال ۱۰/۳۶۴،معجم الکبیرللطبرانی ۳/۲۰۱)
اسی طرح تقریباً درجن بھر کتب میںیہ روایت موجود ہے۔
قبر کے قریب سلام سننا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز:
اگر مخالفین کی یہ بات مان لی جائے کہ آپ ﷺ مزار اقدس کے پاس پڑھے جانے والے درود و سلام کو سنتے ہیں لیکن دور سے پڑھے جانے والے درود وسلام کو خود نہیں سن سکتے تو اب یہ سوال پیدا ہو گا کہ یہ مقام تو ہر مومن کو حاصل ہے کہ وہ اپنی قبر پر آنے والے زائر کو پہچان لیتے ہیں اور اسکے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذیشان ہے!’’ما من احد کم یمر بقبر اخیہ المومن کان یعرفہ فی الدنیا یسلم علیہ الا عرفہ ورد علیہ السلام‘‘
                                                                                         (نسیم الریاض شرح الشفا ۳/۵۰۰)
ترجمہ:تم میں کوئی جب اپنے مومن بھائی کی قبر کے پاس سے گزرے اور وہ دنیا میں اسے جانتا ہو تو وہ اس کو پہچانتا ہے۔اور اس کو جواب دیتا ہے
اگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی صرف زائر کا سلام سنیں اور جواب دیں تو پھرآپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خصوصیت کیا ہے؟اس طرح تو عام مومن اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں کوئی فرق نہ رہ جائے گا؟لہذا اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے اللہ کریم اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل حق پر استقامت عطا فرمائے آمین!

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں