اتوار، 25 مارچ، 2018

نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا

                                                                 ٭بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم٭
                               
                                        {نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا}
                                       تحریر وتحقیق:ابو اسامہ ظفر القادری بکھروی

سوال:کیا فرماتے  ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ نماز جنازہ پڑھنے کے بعد دعا مانگنا شرعًا جائز ہے یا ناجائز،اور اگر جائز ہے تو جائز کی کون سی صورت ہے فرض ،واجب ،سنت یا مستحب و مباح ہے ایک فیصل آباد کے مولوی(محمد اعظم ہاشمی جامعہ حنفیہ امداد ٹاؤن فیصل آباد)کا فتوٰی بھی بھیج رہا ہوں جس نے اپنے فتوٰی میں نماز جنازہ کے بعد دعا کو ناجائز قرار دیا ہے اگر دعا کرنا بعد نماز جنازہ ہے تو اس فتوٰی میں دیے گئے دلائل کا جواب بھی تفصیلًا عنایت فرمائیں ،بیّنوا توجروا؛ (سائل:قاضی طاہر محمود ٹیکسلا) الجواب:نحمدہٗ و نصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم:
حضور ﷺ کی شریعت مطہرہ کے اندردعا مانگنے کا کوئی مخصوص وقت متعین نہیں کہ اس وقت دعا قبول ہوگی اور باقی وقت میں اللہ تعالٰی دعا قبول نہیں فرمائے گا بلکہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے [اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ]ترجمہ:دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (سورۃ البقرۃ آیت۱۸۶)
اس آیت مقدسہ میں اللہ تعالٰی نے مطلقًا دعا کرنے کا فرمایا ،اور اہل علم سے مخفی نہیں [اَلْمُطْلَقُ یَجْرِیْ عَلٰی اِطْلَاقِہٖ]تاوقتیکہ دلیل سے مقید کیا جائے
دعا بعد نماز جنازہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک جائز ہے اور وہ اس کو مستحب و مباح کا درجہ دیتے ہیں جیسا کہ مجدد دین وملت اعلٰی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمہ اللہ نے [بذل الجوائز]فتاوی رضویہ جلد ۹ میں لکھا 
حضور ﷺکا ارشاد مبارک ہے [أَکْثِرِ الدُّعَائَ]دعا بکثرت کر:
(۱)اسے امام حاکم نے [المستدرک علی  الصحیحین ۱؍۷۱۱رقم۱۹۳۹]عن ابن عباس سے روایت کیا اورامام حاکم نے صحیح کہا
(۲)المعجم الکبیر ۱۰؍۲۵رقم۱۱۷۴۰(۳)تہذیب الآثارللطبری۶؍۲۴۳رقم ۲۷۴۸
(۴)مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۱؍۴۵رقم ۱۷۳۷۴(۵) کنزالعمال۲؍۷۶رقم۳۲۰۸ (۶)صحیح جامع الصغیر ۱؍۲۶۲رقم۲۰۷۸
(۷)الفردوس بمأ ثور الخطاب۳۵۸۳۵(۸)الفتح الکبیر فی ضم الزیادۃالٰی جامع الصغیر۱؍۲۱۰رقم۲۲۸۲
(۹)تہذیب الآثار مسند ابن عباس۱؍۳۹۵(۱۰)جامع الاحادیث۴؍۲۳۲رقم۴۴۷۴۳
 اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
[اِذَا تَمَنَّی أَحَدُکُمْ فَلْیُکْثِرْ، فَاِنَّمَا یَسْأََلُ رَبَّہٗ عَزَّوَجَلَّ]
 ترجمہ:جب تم میں کوئی دعا کرے تو بکثرت کرے کہ اپنے رب سے ہی سوال کر رہا ہے
(۱)مجمع الزوائد ۱۰؍۱۵۰رقم ۱۷۲۲۰ رجالہ رجال الصحیح مطبوعہ مکتبہ القدسی قاہرہ
(۲)المعجم الاوسط للطبرانی۲؍۳۰۱رقم۲۰۴۰مطبوعہ قاہرہ
(۳)مسند عائشہ لابی داؤد ۱؍۹۹رقم۹۵ (۴)مصنف ابن ابی شیبۃ ۱۰؍۲۷۴رقم۲۹۹۸۲
(۵)شرح السنۃ للبغوی ۵؍۲۰۸رقم۱۴۰۳ (۶)غریب الاثر لابی عبید ابن سلام۲؍۱۴
(۷)کنزالعمال۲؍۷۲رقم۳۱۷۶ (۸)العلل دارقطنی۱۴؍۱۶۲رقم۳۵۰۴
(۹)النھایہ فی غریب الاثر۴؍۸۰۴ (۱۰)صحیح جامع الصغیر۱؍۱۳۸رقم۴۳۸
(۱۱)المنتخب من مسند عبد بن حمید ۱؍۴۳۴رقم۱۴۹۶(۱۲)جامع الاحادیث للسیوطی ۲؍۴۸۹رقم۱۶۵۸
ان احادیث میں دعا کثرت سے مانگنے کا حکم واضح ہے اور کسی وقت کی کوئی قید نہیں ،بلکہ رسول ﷺ نے دعا میں کمی کرنے سے منع فرمایا الفاظ یہ ہیں
[لَا تَعْجِزُوْا عَنِ الدُّعَائِ] دعا میں کمی نہ کرو
(۱)کنزالعمال ۲؍۶۱۲رقم۴۸۸۳ (۲)فتح القدیر للشوکانی ۱؍۲۴۳ (۳)الدر المنثور۲؍۲۶۵
(۴)تفسیر مظہری ۱؍۲۰۰ (۵)المستدرک للحاکم ۱؍۶۷۱رقم ۱۸۱۸ ھذا حدیث صحیح الاسناد
(۶)صحیح ابن حبان ۳؍۱۵۱رقم۸۷۱ (۷)جامع العلوم و الحکم ۱؍۳۹۲ (۸)جامع الأحادیث ۱۶؍۲۱۸رقم۱۶۶۳۷
(۹)تاریخ أصبھان۱؍۲۳۰(۱۰)تحفۃ الذاکرین للشوکانی۱؍۳۳ (۱۱)الترغیب والترہیب للالبانی۲؍۳۱۵رقم۲۵۲۴
(۱۲)مختصر تلخیص الذہبی۱؍۳۷۳رقم۱۱۹
لہٰذا دعا تو ہر وقت کی جاسکتی ہے چاہے نماز کے اندر ہو یا باہر شرع میں اس کی ممانعت موجود نہیں کہ نماز جنازہ کے بعد دعا جائز نہیں ،حالانکہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے
[فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ٭وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ]
ترجمہ:تو جب تم نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو(پارہ۳۰سورۃ الم نشرح آیت ۷،۸)
اس آیت مقدسہ کی تفسیر صحابہ و تابعین نے یہ کی ہے کہ:کوئی بھی نماز ہو اس سے فارغ ہو کر اللہ تعالٰی سے دعا کرو دیکھئے
[جامع البیان فی تفسیر القرآن للطبری جلد۲۴صفحہ۴۹۷،۴۹۸رقم۳۷۸۸۸تا۳۷۸۹۶]
اب ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ نبی ﷺ نے خاص نماز جنازہ کے بعد دعا کا حکم فرمایا جیسا کہ دیو بندی فتوٰی میں بھی اس حدیث کونقل کیا گیامگر ساتھ ہی جو دوسری روایت تھی اس کو جوڑ دیا گیا جو کہ غلط ہے اس روایت میں نماز جنازہ کے اندر دعا کا فرمایا گیا ہماری والی روایت میں نماز جنازہ کے بعد اور یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ نماز جناز ہ کے اندر دعا والی زید بن اسلم سے مرسل روایت ہے ،ہماری روایت یہ ہے
ُ [عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺیَقُوْل اِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیَّتِ فَأَخْلِصُوْا لَہُ الدُّعَائَ]
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا،کہ جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھ چکو ،تو اس کے لئے خالص دعا کرو
(۱)سنن ابو داؤد ۲؍۱۰۰رقم۳۱۹۹ (۲)سنن ابن ماجہ ص۱۰۹رقم ۱۴۹۷
(۳) صحیح ابن حبان۷؍۳۱رقم۳۰۷۶،۳۰۷۷
(۴)سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۰ (۵)تفسیر قرطبی ۸؍۲۲۲ (۶)شرح الطحاویۃ ۱؍۳۷۷
(۷)تفسیر اللباب لابن عادل۱؍۲۶۵۹ (۸)معرفۃ السنن والآثار للبیہقی۵؍۳۰۳رقم۲۲۸۰
(۹)تحفۃ الأحوذی۳؍۸۴ (۱۰)شرح ابی داؤد للعینی۶؍۱۴۳
(۱۱)البدرالمنیر فی تخریج الأحادیث والآثار فی شرح الکبیر۵؍۲۶۹
(۱۲)بلوغ المرام۱؍۲۰۵رقم۵۶۸(۱۳)صحیح کنوز السنۃ النبویۃ۱؍۱۴۲
(۱۴)کنزالعمال۱۵؍۵۸۳رقم۴۲۲۷۹
(۱۵)مشکٰوۃ المصابیح۱؍۳۷۷رقم۱۷۴ (۱۶)الشرح الکبیر لابن قدامۃ۲؍۳۴۷
(۱۷)المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل۴؍۴۳۰ (۱۸)نیل الأوطار۴؍۱۰۵
اس  حدیث کو ناصر الدین البانی نے[سنن ابوداؤداور سنن ابن ماجہ]کی تحقیق میں حسن کہا اور شعیب الأرناؤوط نے[ابن حبان]کی تحقیق میں ’’اسنادہٗ قوی،،کہا دیوبندی مولوی اس حدیث کا معنی یہ کرتے ہیں کہ نماز جنازہ میں خلوص سے دعا کرو حالانکہ [فا]اور [فی]میں ابتدائی طالب علم بھی فرق سمجھتا ہے جبکہ دیوبندی مولوی [فا] کا معنی [فی] کرتا ہے اللہ تعالٰی عقل سلیم عطا فرمائے
اب دیکھئے خود نبی ﷺ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگتے ہیں [عبداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں (یہ روایت طویل ہے)مقام موتہ میں جب کفار سے صحابہ جنگ فرمارہے تھے تو حضور ﷺ نے صحابہ کو شہید ہوتے ملاحظہ فرمایا تو ان پر نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لئے دعا مانگی اور صحابہ کرام کو دعائے بخشش کا حکم دیا الفاظ یہ ہیں
[وَصَلَّی عَلَیْہِ وَدَعَا وَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لَہٗ](۱)فتح القدیر لابن ھمام۳؍۳۶۸ (۲)عمدۃ القاری شرح بخاری۸؍۲۲(۳)نصب الرایۃ ۲؍۲۸۴(۴)شرح ابی داؤد للعینی ۶؍۱۵۳(۵)عون المعبود۹؍۲۰
دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیے[حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی (اس کے بعد)جو دعا مانگی وہ میں نے یاد کرلی الفاظ یہ ہیں] ’’صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺعَلٰی جَنَازَۃَفَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائَہٖ،،
(۱)صحیح مسلم۳؍۵۹رقم۲۲۷۶(۲)صحیح ابن حبان۷؍۳۴۴رقم۳۰۷۵(۳)مسند البزار۷؍۷۲رقم۲۷۳۹(۴)سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۰رقم۷۲۱۶(۵)معجم الکبیر للطبرانی ۱۲؍۴۰۶رقم۴۵۰۷(۶)شرح السنۃ للبغوی۵؍۳۵۶رقم۱۴۹۵(۷)مسند الشامین ۳؍۱۸۲رقم۲۰۳۷(۸)المنتقی لابن الجارود۲؍۹۱رقم۵۲۲(۹)عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۲؍۴۵۴(۱۰)شرح مسلم للنووی۳؍۳۸۳(۱۱)تحفۃ الأحوذی۳؍۸۲(۱۲)تلخیص الحبیر۲؍۲۸۸رقم۷۷۰(۱۳)کنزالعمال۱۵؍۵۸۷رقم۴۲۳۰۱(۱۴)بلوغ المرام۱؍۲۰۴(۱۵)ریاض الصالحین۱؍۴۷۳(۱۶)مشکٰوۃ المصابیح ۱؍۳۷۳رقم ۱۶۵۵(۱۷)البحرالرائق شرح کنز الدقائق۵؍۳۲۲
امام نووی رحمہ اللہ[شرح مسلم ]میں ’’فحفظت،، کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں [أَیْ عَلَّمَنِیْہِ بَعْدَ الصَّلٰوۃ  فَحَفِظْتُہ]ترجمہ:یعنی دعا نماز کے بعد سکھائی،پس انھوں نے اسے یاد کرلیا(شرح صحیح مسلم للنووی ۳؍۳۸۳طبع بیروت)
ان دونوں روایتوں میں حضور ﷺ کا نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا واضح ہے پھر اس کے جواز میں شک کرنا کیسا؟
اب ذرا رسول اللہ ﷺ کے صحابی کا عمل بھی ملاحظہ فرمائیے :
حضرت مستظل بن حصین سے روایت ہے [أَنَّ عَلِیًّا صَلَّی عَلٰی جَنَازَۃٍ بَعْدَ مَا صُلِّیَ عَلَیْہَا]ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھی جانے کے بعد دعا مانگی
(۱)سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۵رقم۶۷۸۷(۲)التمہید لابن عبد البر ۶؍۲۷۵(۳)کنز العمال۱۵؍۷۱۳رقم۴۲۸۴۱(۴)جامع الأحادیث للسیوطی ۲۹؍۴۶۱رقم۳۲۵۶۱ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک اور روایت بھی ہے
[حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنِ الشَیْبَانِیِّ،عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ:صَلَّیْت مَعَ عَلِیٍّ عَلٰی یَزِیْدَ بْنَ الْمُکَفَّفِ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا ،ثُمَّ مَشٰی حَتّیی أَتَاہُ فَقَالَ:أَللّٰہُمَّ عَبْدُکَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔]
ترجمہ:حضرت عمیر بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید بن مکفف رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی آپ نے چار تکبیریں کہیں پھر چلے میت کے پاس آئے اور کہا اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے ۔۔۔۔الخ
(مصنف ابن ابی شیبۃ ۳؍۳۳۱رقم ۱۱۸۳۱اس کی سند صحیح ہے)ان دونوں روایتوں میں جنازہ کے بعد دعا کرنی واضح ہے
اسی طرح جنازہ کے بعد دعا کر نا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے دیکھئے [مصنف عبدالرزاق۳؍۵۱۹رقم۶۵۴۵]
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما سے بھی روایات ہیں دیکھئے
[سنن الکبرٰی بیہقی۹۳۴،کنزالعمال۱۵؍۷۱۷رقم۴۲۸۵۸،المبسوط للسرخسی۲؍۲۷،بدائع الصنائع ۱؍۳۱۱،طبقات الکبرٰی۳؍۳۶۹]
حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا
[اطْلُبُوْا الْخَیْرَ دَہْرَکُمْ کُلَّہٗ وَتَعَرَّضُوْا لِنَفَحَاتِ رَحْمَۃِاللّٰہ ِ]
ترجمہ: ہر وقت،ہر گھڑی،عمر بھر خیر مانگے جاؤ اور تجلیات رحمت الٰہی کی تلاش رکھو
(۱)شعب الایمان للبیہقی ۲؍۳۷۰رقم۱۰۸۳(۲)تفسیر ابن کثیر ۴؍۳۳۰(۳)التمہید لابن عبدالبر۵؍۳۳۹
(۴)الاستذکار ۷؍۴۶۴(۵)جامع الصغیر ۱؍۸۵(۶)الفتح الکبیر ۱؍۱۸۱(۷)الفردوس بمأثورالخطاب۱؍۷۹رقم۲۴۱
(۸)جامع الاحادیث للسیوطی ۴؍۴۹۵رقم۳۶۱۸(۹)کنزالعمال ۲؍۷۴رقم۳۱۸۹(۱۰) الأسماء والصفات للبیہقی ۱؍۳۲۹
(۱۱)سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴؍۳۸۹رقم۱۸۹۰
اب دیکھئے کہ نماز جنازہ کے بعد میت کو دفن کرنا ہوتا ہے لیکن دفن سے پہلے اور جنا زہ کے بعد دعا کرنے کا معمول سلف صالحین کا ہے یہی معمول بہا ہے یعنی اسی پر فتوٰی ہے ملاحظہ فرمائیے ،کشف الغطاء میں ہے
[فاتحہ ودعا برائے میت پیش از دفن درست است و ہمیں است روایت معمولہ کذا فی الخلاصۃ الفقہ۔۔۔]ترجمہ:میت کے لئے دفن سے پہلے فاتحہ و دعا  درست ہے اور یہی روایت معمول بہا ہے ایسا ہی خلاصۃ الفقہ میں ہے ۔
(کشف الغطاء صفحہ ۴۰ فصل ششم نماز جنازہ مطبوعہ دہلی)
علماء دیوبند کے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے دعا کے بارے میں ایک ضابطہ مقرر کیا لکھتے ہیں
[کیا معترض صاحب ہر دعاکے لئے نقل کو شرط کہیں گے]یعنی ہر دع کے لئے علیحدہ ثبوت کی ضرورت نہیں (بوادر النوادر صفحہ ۶۲۳ مطبوعہ لاہور)لہٰذا اس اصول کے تحت  مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں[بعد نماز عیدین کے دعا مانگنا ،گو نبی ﷺ اور ان کے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں مگر چونکہ ہر نماز کے بعد دعا مانگنا مسنون ہے اس لئے بعد نماز عیدین بھی دعا مانگنا مسنون ہوگا ] (بہشتی زیور حصہ نمبر۱۱ صفحہ نمبر۸۵)
اسی طرح [فتاوٰی دارالولوم دیوبند ۵؍۲۲۵] میں ہے’’عیدین کی نمازوں کے بعد مثل دیگر نمازوں کے دعا مانگنا مستحب ہے ہمارے اکابر کایہی معمول رہا ہے ،،
اسی لئے ہم [اہل سنت والجماعت] کہتے ہیں کہ یہاں تو جنازہ کے بعد دعا کا ثبوت بھی ہے تو پھر اس کو بدعت کہنا کیسا ہے؟
مفتی کفایت اللہ دہلوی جس کو دیوبندی مولوی نے چشتی لکھا جو سراسر جھوٹ ہے ان کی کتاب کا جو حوالہ دیا اس پر کہیں بھی چشتی نہیں لکھا  وہ لکھتے ہیں
[اگر لوگ نماز جنازہ کے بعد جمع ہو کر اور اہتمام کرکے دعا نہ کریں بلکہ صفیں توڑ کر علیحدہ ہوجائیں اور اپنے اپنے طور پر ہر شخص تنہا تنہا دعا کرے تو اس میں کسی طور سے نماز جنازہ میں زیادتی کا شبہ نہیں ہو سکتا]  (دلائل الخیرات فی ترک المنکرات مع خیر الصلات صفحہ ۳۳)
اب مولوی صاحب بتائیں کہ اس ہیت کے ساتھ دعا کرنا بعد نماز جنا زہ ان کے نزدیک کس حدیث سے ثابت ہے 
اسی طرح[فتاوٰی دار العلوم دیوبند ۵؍۴۳۴ مطبوعہ ملتان] میں ہے
’’سوال(۳۱۳۴)بعد نماز جنازہ قبل دفن چند مصلیوں کاایصال ثواب کے لئے  سورۃ فاتحہ ایک بار سورۃ اخلاص تین بار آہستہ آواز سے پڑھنا اور امام جنازہ یا کسی نیک آدمی کا دونوں ہاتھ اٹھا کر مختصر دعا کرنا شرعًا ہے یا نہیں
الجواب:۔اس میں کوئی حرج نہیں
ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں جنھیں دیوبندی مولوی صاحب نے چشتی لکھا اسی طرح تقی عثمانی ،خلیل احمد اور سارے دیوبندیوں کو چشتی لکھا جو کہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ جن کتب کا حوالہ ان میں کہیں بھی چشتی نہیں لکھا یہ صرف عوام اہل سنت والجماعت کو دھوکہ دینے کے لئے ہے [بعد نماز (جنازہ)کے اسی طرح اسی جگہ دعا کا کوئی ثبوت نہیں صفیں توڑ کر الگ ہٹ جائے پھر جتنا چاہے دعا کرے] (مخزن فضائل و مسائل حصہ اول صفحہ۹۱)
اسی طرح مولوی عزیز علی شاہ دیوبندی نے بھی لکھا [اپنے اپنے دل میں لوگ علیحدہ علیحدہ دعا مانگیں اس کا ہر وقت اختیار ہے ]    (تحقیق الدعائصفحہ۶۳)
علامہ شمس الحق افغانی دیوبندی لکھتے ہیں [مفتی کفایت اللہ صاحب مرحوم نے تطبیق یوں دی ہے دعا قبل کسر الصفوف(صفیں توڑنے سے پہلے ) منع ہے اور بعد کسر الصفوف جائز ہے میرے نزدیک یہ درست ہے] (الکلام الموزون صفحہ ۹۱)
اسی طرح [خیر الفتاوٰی۳؍۲۲۴] میں ہے ’’علیحدہ طور پر دعا وتلاوت جائز ہے،،یعنی جنازہ کے بعد
اب نئے دیوبندی علماء کا عمل بھی ملاحظہ ہو
(۱)مولوی فضل الرحمن صاحب نے ملک قاسم سیاسی لیڈر کی نماز جنازہ کے بعد دعا مانگی دیکھئے [روز نامہ پاکستان لاہور ۱۹ستمبر ۱۹۹۶ء]کی اشاعت میں باتصویر طور پر موجود ہے کہ وہ ملک قسم کی نمازجنازہ کے بعد دعا مانگ رہے ہیں
(۲)جنرل ضیاء الحق کے جنازے میں شریک  تمام دیوبندی علماء نے خصوصًا مولوی عبدالمالک کاندھلوی شیخ الحدیث جامع اشرفیہ لاہوراور مولوی عبدالقادر آزاد سابق خطیب شاہی مسجد لاہور نے ہاتھ لمبے لمبے کرکے دعا بعد نماز جنازہ کی دیکھئے اس وقت کے اخبارات اور ٹی وی کی کوریج
(۳)مولوی اکرم اعوان دیوبندی ’’دعا نماز جنازہ کے بارے میں ،،لکھتے ہیں
[کبھی مانگتے ہیں کبھی نہیں مانگتے ہیں جیسی صورت حال ہو گزارا کرتے ہیں اور اب تو میرے پاس فرصت نہیں ہوتی جنازوں میں جانے کے لئے بچے ہو آتے ہیں پتا نہیں مانگتے ہیں نہیں مانگتے وہ جانیں اور ان کا کام جانیں] (ماہنامہ المرشد لاہور نومبر ۱۹۹۴ء صفحہ۴۶)
(۴)متحدہ قومی موومنٹ کے معطل رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی نماز جنازہ کے بعد مولانا اسعد تھانوی دیوبندی نے دعا کی دیکھئے اخبارروزنامہ[امت کراچی ۷نومبر۲۰۱۰ء بروز اتوارمیں]
لہٰذا ان دلائل کی روشنی میں دیوبندی علماء کا [دعا بعد نماز جنازہ] کو بدعت کہنا دو وجہ سے صحیح نہیں
(۱)ایک تو یہ کہ ان کا ضابطہ بدعت صحیح نہیں ورنہ اسی ضابطے کے تحت جو اعمال ان کے آتے ہیں انھیں بھی [بدعت] کہیں
(۲)اگر بالفرض آپ کا ضابطہ مانا جائے تو پھر جب حضور ﷺ اور ان کے صحابہ سے یہ عمل ثابت ہے جیسا کہ پہلے گزرا تو اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں
اب ان فقہاء کی عبارات کا جواب دیا جاتا ہے جو اس فتوٰی میں نقل کی گئیں
(۱)و فی المحیط البرہانی:لایقوم الرجل با لدعاء بعد صلٰوۃ الجنازہ
(۲) و فی الفتاوٰی السراجیہ:اذا فرغ من الصلٰوۃ لا یقوم بالدعاء
(۳)و فی الفتاوٰی بزازیہ علی العالمگیریہ:لا یقوم بالدعاء بعد صلٰوۃ الجنازۃ لانہ دعا مرّۃ
(۴)و فی خلاصۃ الفتاوٰی:لا یقوم بالدعاء ۔۔۔۔۔۔بعد صلٰوہ الجنازۃ
(۵)و فی البحرالرائق: لایدعو بعد التسلیم
اب ذرا غور فرمائیے کہ جب قرآن وسنت اور حضور ﷺ اور ان کے صحابہ سے یہ عمل ثابت ہے جیسا کہ پہلے گزرا تو فقہاء کیوں منع فرمانے لگے اگر منع کیا تو کیا شرط لگائی اور کیوں لگائی اللہ تعالٰی عقل سلیم عطا فرمائے تو بات فقہاء کی سمجھ آ جاتی ہے پہلی چار عبارات میں بلفظ [قیام]کے ساتھ منع کیا گیا اب وہ کیا قیام ہے جس کی قید سے فقہاء یہ حکم دے رہے ہیں جب فقہاء کے دلائل کو سمجھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ دعا کے لئے ایسا قیام جو طویل ہو جس سے دفن میں تاخیر ہو تو یہ شرح مطہرہ کو پسند نہیں لہٰذا مختصر دعا سے اور مطلقًا دعا سے فقہاء نے منع نہیں کیا ورنہ دیوبندی علماء بھی فردًا فردًااور مختصر دعا کے قائل ہیں جیسا کہ پیچھے گذرا لہٰذا اس کو اگر مطلق مانا جائے تو دیو بندیوں کے بھی خلاف ہے تو جو جواب ان کا ہوگا وہی ہمارا تسلیم کیا جائے اسی لئے ہم مختصر دعا کرکے میت کو دفن کے لئے لے جاتے ہیں جو جائز ہے
اب رہ گئی پانچویں عبارت تو البحرالرائق میں اسی عبارت میں آگے لکھا ہے [وَعَنْ الْفَضْلِیِّ لَابَأسَ بِہٖ]یعنی اس میں کوئی حرج نہیں(البحرالرائق۵؍۳۳۲  )
چنانچہ مولوی کفایت اللہ صاحب جن کو دیوبندی مولوی صاحب نے چشتی لکھا [خیر الصلٰوۃرسالہ کے صفحہ نمبر ۶۳]پرمولوی خلیل احمد انبیٹھوی کے حوالے سے لکھا کہ ’’جودوسری عبارت جو بطور روایت فضلی سے نقل کی ہے جس میں [لا بأس بہ]مذکور ہے وہ مشیر بجواز ہے ،،
لہٰذا یہ عبارت جواز کے حق میں ہے اب صرف مرقاۃ شرح مشکٰوہ کی عبارت کا جواب رہ گیا جو کہ فتوٰی کے صفحہ نمبر ۲ پر ہے تو اس  کا جواب یہ ہے اس عبارت میں ہے
[لا یدعو للمیت بعد الجنازۃ لانہٗ یشبہ الزیادۃ فی الصلٰوۃ الجنازۃ]  یعنی نماز جنازہ کے بعد اس طرح دعا نہ کی جائے جو جنازہ میں زیادتی کا شبہ دے
صفوف کو توڑ کر دعامانگنا اس شبہے کو زائل کردیتا ہے لہٰذا جیسا کہ علماء دیوبند نے بھی یہی تطبیق دی ہے ورنہ کسی نے مطلقًا دعا کو ناجائز نہیں لکھا لہٰذا دیوبندی مفتیوں کے فتاوٰی کا کوئی اعتبار نہیں جب کہ قرآن و سنت نبی ﷺ کا قول و فعل صحابہ کا عمل اور فقہاء کا معمول بہا کہنا موجود ثابت ہے تو ان علماء کا بدعت بدعت کی رٹ لگانا اور جھوٹے چشتی بننا اور فقہاء کی عبارات کو کتر بیونت کر کے پیش کرنا ،سادہ عوام کو گمراہ کرنا ہے اور [پکی روٹی ] جیسی کتاب کا حوالہ دینا،مولوی عبدالحئی لکھنوی کا فیصلہ سنانا ،یہ سب دیوبندی ہی تو ہیں اہل سنت والجماعت کے لئے یہ کیسے قبول ہوسکتا ہے لہٰذا نماز جنازہ کے بعد دعا کو واجب کہنا اور اس بنا ء پر اس کو بدعت کہنا یہ سب جھوٹ کے سوا کچھ نہیں اہل سنت والجماعت کا کوئی مستند عالم اس کو فرض ،واجب نہیں کہتا بلکہ مستحب و مباح کہتا ہے جو الحمد للہ ثابت ہے اللہ تعالٰی حق کو واضح ہوجانے کے بعد اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
  {  وما توفیقی الا باللّٰہ العلی العظیم}
خادم العلماء اہل السنۃ والجماعۃ ابو اسامہ ظفر القادری بکھروی خطیب مرکزی جامع مسجد [الفاروق]۲۰ایف واہ کینٹ مورخہ۲۵مئی ۲۰۱۲ء
 






3 تبصرے:

  1. قبلہ کمال کر دیا ہے جناب نے۔۔۔ اللہ کریم آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. جب دعا کی کوٸی قید نہیں تو بریلوی جنازہ کے بعد ہی دعا پر زور کیوں دیتے ہیں نماز جنازہ سے پہلے بھی تو دعا مانگی جاسکتی ہے پہلے کیوں نہیں مانگتے

    جواب دیںحذف کریں